بھارتی جامعات میں تحقیق کا گرتا معیار ذمہ دار کون؟
(محمد ریحان) جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی
ہندوستان میں مجموعی طور پر تحقیق کے معیار میں کمی آئی ہے. یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جو ایک دم سے وقوع پذیر ہوا ہے۔ پچھلے کئی برسوں میں ہم نے خود بھی یہ محسوس کیا ہے اور کئی بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس نے بھی ہمارے قد و قامت کی وضاحت کر دی ہیں.ہمارے لئے اس سے زیادہ افسوس کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی دو سو بڑی یونیورسیٹیوں میں ہمارے ملک کی ایک بھی یونیورسیٹی شامل نہیں ہے.اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے ہمارے ملک کی جامعات کے اعلی تعلیمی نظام کی قلعی کھل جاتی ہے۔
ہمارے یہاں انفراسٹریکچر موجود ہے. آنکھوں کو خیرہ کرنے والی بڑی بڑی عمارتیں ہیں. لیکن ان کے اندر دی جانے والی تعلیم میں کوالیٹی نا پید ہے.ہندوستان میں یونیورسیٹیوں کی تعداد کم نہیں ہے. سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسیٹیز کی ایک لمبی فہرست ہے.اگر کمی ہے تو صرف معیاری تعلیم کی.آج سے تقریبا دو سال پہلے جب یہ خبر آئی تھی کہ دنیا کی دو سو بڑی یونیورسٹیز میں ہندوستان کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں ہے تو ہمارے صدر پرناب مکھرجی نے جامعات کے نظام تعلیم میں بہتری لانے کا عزم مصمم کیا تھا.اس وقت یہ امید کی جا رہی تھی کہ حکومت ترجیحی طور پر یونیورسٹیز کو در پیش مسائل پر توجہ دیگی اور ہمارا تعلیمی و تحقیقی معیار بہتر ہوگا۔
لیکن آج تعلیم کے سلسلے میں حکومت کا کیا رویہ ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے.یہ حکومت ریسرچ اسکالر کو ملنے والے اسکالرشپ تک کو ختم کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے.ایم فل اور پی ایچ ڈی کے داخلے محدود کیےجا رہے ہیں. جے این یو میں اس سال ریسرچ میں داخلہ بند ہے..حکومت کے اس قدم سے کئی طالب علموں کے داخلے سے محروم رہ جانے کا خوف ہے.اگر اسکالرشپ بند کیا گیا تو اس کے بھی منفی نتائج ہی برآمد ہوں گے.مجھے نہیں لگتا کوئی اسکالر اپنے گھر سے پیسہ منگا کر تحقیق کریگا. میرا تعلق چونکہ اردو سے ہے اس لئے یہاں مجھے اردو میں تحقیق کی گراوٹ سے ہی سروکار ہے.اردو زبان و ادب کا ریسرچ اسکالر ہونے کے ناطے میں نے کیا محسوس کیا ہے، میں اسے آپ سے شیئر کر رہا ہوں.ممکن ہے میں اپنے تجزیے میں مکمل طور سے حق پر نہ رہ سکوں. تاہم اگر آپ مجھے غلط ثابت کرتے ہیں تو قابل قبول تجزیہ کرنا آپ کی ذمہ داری ہوگی۔
عامر خان کی ایک فلم آئی تھی “تھری ایڈیٹس” اس میں دیدہ ور ناظرین کے لئے بہت سے پیغام پوشیدہ تھے.یہ فلم میں نے بھی دیکھی ہے.مجھے فلم کا وہ حصہ بے حد پسند آیا جہاں عامر خاں یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی چیز میں کچھ اچھا کرنا ہے تو ہمیں وہی کرنا چاہئے جو ہماری پسند(choice)ہو.یہاں پسند سے مراد صرف اپنی پسند نہیں بلکہ پہلی پسند بھی ہے.مجھے معلوم ہے آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں تحقیق پر گفتگو کرنے کے بجائے فلم پر بات کرکے قارئین کاوقت ضائع کر رہا ہوں…بھائی ٹھہرئیے!!. میں تو بس اپنی بات رکھنے کے لئے ایک سرا تلاش کر رہا تھا. اردو میں آئی تحقیق کی گراوٹ کو اسی طرح دیکھا جا سکتا ہے جس طرح عامر خان اپنے دو دوست کے کلاس میں فیل ہونے کو دیکھتے ہیں.ان کے دونوں دوستوں کے امتحان میں فیل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انجینئرنگ کی تعلیم ان کی choiceنہیں ہوتی بلکہ یہ ان کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ انجینئرنگ کی پڑھائی کریں.یہ مثال اردو کے زیادہ تر تحقیق کے طلبہ پر چسپاں ہوتی ہے.. یہ حقیقت ہے کہ آج اردو اکثر و بیشتر طلبہ کی پہلی پسند نہیں۔
اکثر طلبہ کی اولین ترجیح اردو نہیں ہوتی۔ انہیں کسی اور سبجیکٹ میں داخلہ نہیں ملتا تو اردو کے سایے میں پناہ لے لیتے ہیں.دسویں اور بارہویں کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لئےجامعات کی طرف رخ کرنے والے طلبہ اردو کا انتخاب نہیں کرتے.یہاں پر یہ واضح رہے کہ میں ان طلبہ کی بات کر رہا ہوں جن کا بیک گراونڈ آرٹس ہوتا ہے.سائنس اور کامرس کے طلبہ بھلا کیوں اردو پڑھنے لگے.حالانکہ اس کی بھی ایک دو مثالیں ضرورمل جاتی ہیں.سائنس بیک گراؤنڈ رکھنے والےبھی اردو میں اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں.جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں ان میں پروفیسر کوثر مظہری ہیں.انہوں نے باضاطہ بی ایس سی کرنے کے بعد اردو سے ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کیا ہے.آج اردو کے اہم نقادوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
ممکن ہےآپ کی نظر میں ان کی طرح اور بھی ایک دو ادیب ہوں جنہوں نے سائنس پڑھنے کے بعد اردو کا انتخاب کیا لیکن ظاہر ہے اس کی حیثیت استثنائی ہے.دو چار کی تعداد سے رجحان متعین نہیں ہوتے.آرٹس بیک گراونڈ سے آنے والے طالب علم کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ سوشل سائنس کے کسی سبجیکٹ میں داخلہ مل جائے.اگر یہ ممکن نہیں ہوپاتا تو انگریزی یا پھر دوسری مغربی زبانوں میں داخلہ پانے کی سعی کرتے ہیں. جب یہاں بھی ناکامی ہاتھ لگتی ہے توآخر میں مایوس ہوکر اردو کی طرف رخ کرتے ہیں.آرٹس بیک گراونڈ کے طلبہ جن میں سے اکثر کاتعلق کسی نہ کسی طور پر مدرسے سے ہوتا ہے وہ بھی اردو کی جانب بمشکل تمام آتے ہیں. لیکن اس کے باوجود جامعات میں اردو پڑھنے والوں کی اکثریت مدرسے سے نکلے ہوئے طلبہ کی ہی ہے. یہ اردو کو آخری آپشن کے طور پر رکھنے والے تحقیق کے مرحلے میں آکر اسی طرح ناکام ہو جاتے ہیں جس طرح تھری ایڈیٹس کے دو کردار انجنیئرنگ کی پڑھائی میں ناکام رہتے ہیں۔
تحقیق ایک صبر آزما کام ہے.تحقیقی کام بی اے اور ایم اے کے امتحانات کی طرح نہیں ہوتے کہ ایک ہفتہ پہلے دوستوں سے نوٹس حاصل کیا اور جیسے تیسے رٹ کر امتحان دے دیا. ریسرچ کے لئے ذہنی یکسوئی اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے.مطالعے کے شوق اور جستجو کی خواہش کے بنا تحقیق کے مطالبات کو پورا نہیں کیا جا سکتا.تحقیق ایک پروسیس ہے.یہ پروسیس محنت،تلاش،کھوج،جانچ پرکھ، مطالعہ اور صبر سے عبارت ہے.آخری آپشن کے طور پر اردو پڑھنے والوں سے یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ریسرچ کے پروسیس میں کھرے اتریں گے؟.افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انہیں داخلے بھی بڑی آسانی سے مل جاتے ہیں.یہ ریسرچ کے نام پر صرف وقت کاٹتے ہیں اور آخری وقت میں دو چار کتابوں کی مدد سے اپنی تھیسس تیار کر لیتے ہیں۔
ان کے اس انداز کے “تحقیقی” کام سے تحقیق میں گراوٹ لازمی ہے.یہ تحقیق کے معیار کی تنزلی کا ایک پہلو ہے جس کا ٹھیکرا ہم جامعات کے اساتذہ کے سر نہیں پھوڑ سکتے اور نہ ہی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں. یہ بات سچ ہے کہ اردو Job Orientedسبجیکٹ نہیں ہے تاہم کچھ ایسے طالب علم ضرور ہیں جو اپنے شوق اور ذوق سے اردو کا انتخاب کرتے ہیں.ان کے اندر جذبہ ہوتا ہے.مطالعہ کا شوق ہوتا ہے.کام کرنے کی لگن ہوتی ہے. یہ محنت سے جی نہیں چراتے.یہ بہت پر امید ہوتے ہیں.تحقیقی مجاز رکھتے ہیں.آج جو کچھ بھی ہماری لاج بچی ہوئی ہے وہ انہیں کی بدولت ہے. یہ بہتر سے بہتر کام کرسکتے ہیں. لیکن مناسب نگراں اور رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے بہت اچھا نتیجہ دینے میں ناکام رہتے ہیں۔
بعض جگہوں پر مجرمانہ طریقے سے لائق اسکالر کو نظر انداز کیا جاتا ہے.انہیں اپنی صلاحیت نکھارنے کا موقعہ فراہم نہیں کیا جاتا.انہیں سیمیناروں میں بھیج کر ان کے حوصلے نہیں بڑھاتے. اساتذہ ہر موقعے سے اپنے پسندیدہ چہروں کو یاد کرتے ہیں.انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ وہ جس کا نام سیمینار کے لئے تجویز کر رہے ہیں اسے مضمون لکھنے بھی آتا ہے یا نہیں.وہ محض ایک تعلق اور خاص لگاؤ کی بنیاد پر سمیناروں میں پیپر پڑھنے کے لئے اپنے پسندیدہ چہروں کا نام پیش کردیتے ہیں.یہ تعلیمی نظام میں ایک طرح کا کرپشن ہے. مجھے ایک سمینار کا واقعہ یاد آ رہا ہے. ایک یونیورسیٹی کی ریسرچ اسکالر نے دہلی کے ایک بین الاقوامی سمینار میں اپنا مقالہ “تحقیق” کے موضوع پہ پڑھا تھا. مجھے حیرت ہوئی انہوں نے لفظ “تحقیق” پہ بھی تحقیق نہیں کی تھی.انہوں نے لفظ تحقیق کے معنی و مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انگریزی لفظ Research کا ترجمہ ہے اور لفظ Research فرانسیسی زبان کے لفظ Rechercherسے نکلا ہے۔
محترمہ نے فرانسیسی لفظ کو “ریچرچر” بولا تھا. جب کہ اس کا تلفظ “ریشیغشیغ ہوتا ہے. یا کم از کم انہیں “ریشیرشیر” کہنا چاہئے تھا.اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے کتنی تن آسانی سے اپنا مقالہ تھا کیا تھا.یہ واقعہ تقریبا چار سال پہلے کا ہے. میں آج بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر کس نے اور کن بنیادوں پر محترمہ کا نام تجویز کیا تھا.میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ صرف سمیناروں میں پیپر پڑھنے کے مواقع نہ ملنے سے ایک سنجیدہ اسکالر کی ذات پر کوئی اثر نہیں پڑتا. وہ آزادانہ طور پر بھی کام کرتے ہیں. لیکن سوال یہ ہے کہ جنہیں ذاتی رسوخ کی بنیاد پر مواقع میسر کرائے جاتے ہیں ان سے اردو میں تحقیق کا کیا فائدہ ہو رہا ہے اس کی جانچ پرکھ ہونی چاہئے.ورنہ یونہی صرف سمینار کروا دینے اور مقالہ پڑھ دینے سے اردو تحقیق کا کبھی بھلا نہیں ہو سکتا۔
ہم حکومت کو خوب کوستے ہیں. اس کی غلط پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہیں. لیکن کوئی یہ بتائے کہ جامعات میں اردو کے پروفیسران نے تحقیق میں آئی گراوٹ کا ازالہ کرنے کے لئے کون سا لائحہ عمل تیار کیا ہے؟کیا ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ اردو کے ریسرچ اسکالر کے یہاں یہ رجحان بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اگر اتفاق سے ان کو جے آر ایف یا کوئی اور فیلوشپ ملنے لگتا ہے تو وہ یا تو گہری نیند سو جاتے ہیں یا اردو سے رشتہ توڑ کر مقابلہ ذاتی امتحانات کی تیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں.اس میں ان کے نگراں کا مشورہ بھی شامل ہوتا ہے.وہ انہیں اطمنان سے تیاری کرنے کا موقع دیتے ہیں.اب دو چار سال میں کامیابی مل گئی تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں. ورنہ پھر پی ایچ ڈی کے آخری سال میں اپنا “تحقیقی”کام مکمل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.یعنی نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم،نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔
ایک سال میں کیا خاک تحقیق ہوگی.بعض جامعات کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں ریسرچ اسکالر اور نگراں کے درمیان موضوع کے حوالے سے کبھی Interactionنہیں ہوتا.اساتذہ دوری بنائے رکھتے ہیں. اپنی مصروفیت کا رونا روتے ہیں.جہاں طلبہ اور اساتذہ کے بیچ مثبت صلاح و مشورے کے دروازے بند ہوں وہاں سب کچھ بہتر تو نہیں ہو سکتا.آپ ہندوستان کی جامعات میں نظر اٹھا کر دیکھیں آپ کو تین طرح کے اسکالر نظر آئیں گے.یہ تین طرح کے کون ہیں. ان کے ذکر سے بات میں تکرار کی کیفیت پیدا ہوگی.لیکن تقسیم بندی کے ساتھ ذکر ضروری ہے. پہلی قسم ان کی ہے جو ریسرچ کے نام پر صرف وقت گزارتے ہیں اور سند حاصل کرنا چاہتے ہیں.ان کی پی ایچ ڈی مکمل ہو جاتی ہے اور انہیں یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ تحقیق کے اصول و ضوابط کیا ہیں.یہ وہی ہوتے ہیں جو اردو کو آخری آپشن لیکر پڑھتے ہیں.انہیں بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پی ایچ ڈی ہو رہی ہے.انہیں اپنا موضوع بھی معلوم ہوتا ہے.کہیں پوچھے جانے پر سینہ چورا کر کے بولتے ہیں۔
لیکن اپنے موضوع سے متعلق کتاب پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی.یہ بحث و مباحثے میں پیش پیش رہتے ہیں.اور بس یہیں تک محدود رہتے ہیں. دوسرے زمرے میں وہ ریسرچ اسکالرس آتے ہیں جن کے اندر واقعی میں تحقیق کے مشکل اور صبر آزما پروسیس سے گزرنے کی پوری صلاحیت ہوتی ہے.کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے.لیکن اساتذہ کی بے توجہی کا شکار ہو کر اپنی قابلیت گنوا بیٹھتے ہیں.انہیں پلیٹ فارم نہین مل پاتا کیونکہ وہ ایک درکار صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں.یہی “درکار” صلاحیت اکثر اساتذہ کو مطلوب ہوتے ہیں.یہ معاملہ کسی ایک یونیورسیٹی کے ساتھ خاص نہیں.اس خاص “ہنر” کو تقریبا ہر استاد پسند کرتے ہیں.در اصل ان کی نظر میں وہی باصلاحیت ہوتے ہیں جو ان کے ارد گرد طواف کرتے ہیں.وہ کچھ خاص چہروں پر اکثر فدا رہتے ہیں.اساتذہ کے اس مجرمانہ رویے سے تحقیق کا بڑا نقصان ہوا ہے.میں یہ نہیں کہہ رہا کہ جنہیں کچھ نہین آتا انہیں سمینار میں پیپر پڑھنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے۔
ظاہر ہے انہیں موقع ملےگا تبھی تو سیکھیں گے.لیکن یہاں سوال محنتی اور باذوق اسکالر کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ہے.یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ہم جینون اسکالر کو پلیٹ فارم نہیں دیں گے تو لنگڑے اورلولہے اسکالر کو پلیٹ فارم مہیا کرا کر بھی کیا حاصل کر لیں گے.اگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی تو تحقیق کےمعیار میں بہتری کا خواب دیوانے کا خواب ثابت ہوگا.تیسری قسم ان اسکالرس کی ہے جو فیلو شپ کے ملنے سے پہلے پہلے تک محنتی ہوتے ہیں.ان کے ارادے بڑے جوان ہوتے ہیں.مشکل ترین مرحلوں سے گزرنے کا عزم رکھتے ہیں.لیکن فیلوشپ کے ملتے ہی ان میں اچانک دو طرح کی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اور یہ دونوں تحقیق کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں.فیلو شپ ملتے ہی کچھ اسکالرس اتنا سکون محسوس کرتے ہیں کہ وہ خواب غفلت میں چلے جاتے ہیں.انہیں لگتا ہے جیسے اب سب کچھ حاصل ہو گیا. یعنی وہ جے آر ایف اور فیلو شپ کو ہی تحقیق سمجھ لیتے ہیں. بعض اسکالر فیلو شپ کے ملتے ہی پی ایچ ڈی اور تحقیق کے کام کو جوں کا توں چھوڑ دیتے ہیں.وہ متضاد سمت کی طرف ایک نیا سفر شروع کرتے ہیں.ان کا یہ فیصلہ صحیح ہوتا ہے یا غلط اس بحث سے قطع نظر ان کے اس فیصلے سے البتہ تحقیق کا بڑا نقصان ہوتا ہے.میری نظر میں اردو میں آئی تحقیقی گراوٹ کے لئے حکومت ذمہ دار نہیں ہے.جتنے وسائل حکومت کی جانب سے مہیا کرائے جاسکتے ہیں وہ ساری کی ساری موجود ہیں۔
کمی جامعات کے اندرونی نظام میں ہے.ایم فل یا پی ایچ ڈی میں داخلے کے طریقئہ کار میں تبدیلی کی ضرورت ہے. انٹرویو میں صرف کتابی معلومات کو ملحوظ نہ رکھا جائے.طلبہ کی نفسیات پرکھ کر ان کے تحقیقی رجحان کو معلوم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے. ممکن ہو تو ان کے سابقہ تعلیمی سرگرمیوں کو پیش نظر رکھ کر انہیں پی ایچ ڈی میں داخلہ دیا جائے.کچھ یونیورسٹیوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں پی ایچ ڈی integratedہے. یعنی ایم فل کے طلبہ کو بغیر کسی انٹرویو کے پی ایچ ڈی میں داخلہ مل جاتا ہے. یہ نظام طلبہ کے حق میں تو بہترمانا جا سکتا ہے لیکن تحقیق کے نقطئہ نظر سے کسی بھی طور پر مناسب نہیں.مجھے لگتا ہے صرف داخلے کے پروسیس کو ہی تحقیقی بنا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو جاتا.شعبے سے منسلک اساتذہ کو بھی اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے.ایک ریسرچ اسکالر کا ایک نگراں ہوتا ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب کوئی اسکالر اپنے نگراں کے علاوہ کسی دوسرے اساتذہ کے پاس تحقیقی کام کے لئے مدد مانگے تو وہ اس کے ساتھ اجنبی کی طرح پیش آئیں.ایک استاد کو چاہئے کہ وہ اپنے صلاح و مشورے کا دروازہ دوسرے اسکالر کے لئے بھی کھلا رکھے.ہم نے دیکھا ہے کہ اساتذہ اور اسکالرس کے بیچ عام طور پر دوریاں بنی رہتی ہیں. یہاں دوری کا یہ حال ہے کہ کون بچہ کس موضوع پہ تحقیق کر رہا ہے اس سے شعبے کے اساتذہ واقف نہیں ہوتے. حالانکہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے لیکن معلوم ہونا بہتر ہے.بعض دفعہ تو نگراں کو اپنے ہی اسکالر کے موضوع کا علم نہیں ہوتا۔
کیمپس میں ، شعبے کے اندر اور طلبہ اور اساتذہ کے درمیان ایک اسپرٹ کا پایا جانا ضروری ہے. یہ تبھی ممکن ہے جب اساتذہ اور طلبہ کے بیچ کی دوریاں ختم ہوں گی۔ تحقیق کے معیار کو بلند کرنے کے لئے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان کے فاصلے کو کم کرنا پڑےگا۔ تحقیق میں بہتری کسی ایک شکل کو محبوب بنا لینے سے نہیں آئے گی۔ بلکہ ہر ایک کو اس کے مناسب پلیٹ فارم مہیا کرانے سے آئے گی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ روز بروز تحقیق کے گرتے ہوئے گراف کی وجہ صرف حکومت کی غلط پالیسی کو نہیں بتا سکتے۔ اس سلسلے میں طلبہ اور اساتذہ کو بھی اپنے رویوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔