ہم بھی وہیں موجود تھے !
(وسعت اللہ خان)
اب تک مجھے مصر کے آمر عبدالفتح السسی کی ٹرمپ سے ریاض میں ملاقات کی تصویر دیکھنے کو ملی ہے۔اس ملاقات میں ٹرمپ نے مصر کے دورے کا عندیہ دیا اور سسی کے خوبصورت جوتوں کی تعریف کی ( ان جوتوں سے مصر کو کیسے سیدھا کیا گیا ہے۔یہ بات ٹرمپ کو کوئی مصری ہی بتا سکے گا )۔
ٹرمپ کی ایک تصویر قطر کے امیر تمیم بن حماد التہانی کے ساتھ ہے۔ان سے ملاقات کے دوران ٹرمپ خاصے پرجوش تھے۔ ملاقات سے قبل ٹرمپ نے کہا ’’ہم خوبصورت ہتھیاروں کی خریداری پر بات کریں گے جو امریکا کی طرح کوئی نہیں بناتا۔ہمیں روزگار اور انھیں سیکیورٹی ملے گی‘‘۔
امیرِ بحرین حماد بن عیسی الخلیفہ سے ملاقات کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ ’’ ہمارے آپ سے شاندار تعلقات ہیں۔پچھلی انتظامیہ ( اوباما ) کے دور میں کچھاؤ آگیا تھا۔مگر اب ایسا نہیں ہوگا ‘‘۔( اوباما نے بحرین کو ہتھیاروں کی فراہمی انسانی حقوق سے مشروط کر دی تھی )۔
امیرِ کویت جابر الاحمد الصباح کو ایک خصوصی شخصیت قرار دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ آپ جتنے زیادہ ہتھیار خریدیں گے امریکیوں کو اتنا ہی روزگار ملے گا۔
پاکستانی دفترِ خارجہ نے شاہ سلمان اور ٹرمپ سے وزیرِ اعظم نواز شریف کی ’’ تفصیلی ملاقاتوں‘‘ کی تفصیلات تو جاری کی ہیں مگر تصاویر جاری نہیں کیں۔البتہ ایک تصویر میں میاں صاحب امریکن عرب اسلامک اجتماع کے موقع پر ہال میں داخل ہوتے ہوئے میزبان شاہ سلمان سے ہاتھ ملا رہے ہیں اور پھر اگلا ان کی جگہ نمودار ہو جاتا ہے۔ دوسری تصویر میں میاں صاحب اپنی نشست پر بیٹھے غالباً ٹرمپ کی تقریر سن رہے ہیں۔( غالباً اس لیے کیونکہ میاں صاحب کے کلوز اپ کے سبب بتانا مشکل ہے کہ کون تقریر کر رہا تھا)۔کئی چینلوں نے یہ بریکنگ نیوز بھی دی کہ میاں صاحب نے ٹرمپ سے ہاتھ ملایا اور ٹرمپ نے پوچھا آپ کیسے ہیں ؟۔مگر دفترِ خارجہ نے جو لفظی تصویر کشی کی ہے، اس کو اگر وقت میں تبدیل کیا جائے تو شاہ سلمان اور ٹرمپ سے میاں صاحب کی ملاقات کم ازکم پندرہ پندرہ منٹ کی تو ہوئی ہوگی۔مگر کہاں ، کب ، کداں ؟
میاں صاحب کی ملاقاتوں کی فکر مجھے اس لیے ہے کیونکہ ایک تو وہ بیجنگ سے واپس اسلام آباد پہنچے تو انھیں کمر سیدھی کرنے کا بھی موقع نہیں ملا اور سعودی شاہ کی حکمیہ درخواست پر ریاض جانا پڑ گیا۔پھر بھی توقع تھی کہ ٹرمپ سے ہاتھ ملانے سے زیادہ کی ملاقات ہو جائے گی کیونکہ یہ وہی ٹرمپ تو ہیں جنھوںنے عہدہ سنبھالنے سے پہلے میاں نواز شریف کا تہنیتی پیغام وصولتے ہوئے فون پر کہا تھا کہ ’’ پاکستان از اے فنٹاسٹک کنٹری اینڈ یو آر اے لیڈر آف اے فنٹاسٹک نیشن‘‘۔اور پھر وزیرِ اعظم ہاؤس نے خوشی سے جھومتے ہوئے اس ٹیلی فونک گفتگو کی تفصیلات کامہ فل اسٹاپ بدلے بغیر میڈیا کے لیے ریلیز کر دی تھیں۔اور اس ریلیز پر امریکی میڈیا، ٹرمپ کی صدارتی ٹیم نے بھی حیرت کا اظہار کیا تھا۔لیکن ریاض میں ٹرمپ نواز ملاقات کے بارے میں دفترِ خارجہ کو الگ سے جو تفصیلات سوچنا پڑیں اس پر مجھے یہ واقعہ یاد آگیا کہ ایک خاتون کے سامنے سے سردار جی تین چار بار گذرے اور پانچویں بار پوچھ ہی لیا مینوں پہچانیا ؟ خاتون نے کہا نہیں پہچانا۔سردار جی بولے کمال اے تن چار واری تے تہاڈے سامنے توں لنگیاں واں فیر وی نہیں پہچاندے ؟
مجھے نواز ٹرمپ ملاقات یا شاہ سلمان سے ان کی تفصیلی ملاقات کی بابت یوں بھی چنتا ہے کہ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان اور سعودی خاندان کے مابین خصوصی تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کی قیادت اہم علاقائی معاملات پر یک جان دو قالب ہے۔اور میاں صاحب کا شمار تو ان حکمرانوں میں ہوتا ہے جن پر سعودی خاص شفقت کرتے ہیں۔تو پھر اتنا تو بنتا ہی تھا کہ شاہ سلمان میاں صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے انھیں کھینچ کر ٹرمپ سے ملواتے ہوئے کہتے کہ جناب یہ ہیں میاں صاحب جنھوں نے آپ سے دسمبر میں فون پر بات کی تھی۔
یہ ہمارے جگری برخوردار ہیں اور وفاداری میں برادر جنرل سیسی ، امیرِ کویت ، امیرِ قطر اور امیرِ بحرین سے کسی طرح کم نہیں بلکہ میاں صاحب کے پاس تو ایٹم بم بھی ہے جو ہم میں سے کسی کے پاس نہیں۔ان سے آپ کی پندرہ منٹ کی ملاقات تو بنتی ہی ہے۔اس کے بعد ٹرمپ اور میاں صاحب میں جو مکالمہ یا مونولاگ ہوتا وہ تو خیر ہوتا ہی مگر جو تصویر بنتی اس سے کم ازکم عمران خان کے سینے پر تو مونگ دلی ہی جاسکتی تھی۔ویسے بھی ہمارے حکمران بیرونی شاہوں اور عالمگیر شخصیات کے ساتھ کھنچے فوٹو کے سہارے ہی تو اندرونِ ملک رعب ڈال کے گذارہ کرتے ہیں۔کیا بگڑتا ٹرمپ تیرا اگر تو ہمارے میاں صاحب کے ساتھ ایک تصویر ہی کھنچوا لیتا۔ارے میاں صاحب تو وہ ہیں کہ جن کے ساتھ ان ہی کے ارکانِ اسمبلی تصویر کھچوانے کو ترستے ہیں۔
جہاں تک ٹرمپ کی دہشت گردی کے قلع قمع کرنے والی تقریر کا معاملہ ہے تو یہ تقریر سعودی عرب کو تین سو اسی بلین ڈالر میں پڑی۔پہلے تجارتی و دفاعی سمجھوتوں پر دستخط ہوئے اس کے بعد مہمان نے میزبان کے اس نکتے سے اتفاق کیا کہ اس وقت دہشت گردی کا منبع اور سرپرست ایران ہے۔داعش سے تو ہم لوگ نمٹ ہی لیں گے اس سے پہلے ایران سے نمٹنے کی ضرورت ہے ( اسرائیل ریڈار سے بالکل غائب ہے)۔
مجھے یاد ہے کہ جب سعودی عرب نے ازخود پاکستان کو تینتالیس رکنی اسلامی دفاعی اتحاد میں شامل کیا اور پھر پاکستان کو اس میں شمولیت کی خبر دی تب سے لے کر جنرل راحیل شریف کی خدمات دان کرنے تک پاکستانی پارلیمنٹ، میڈیا اور عوام کو یہی بتایا جاتا رہا کہ یہ اتحاد کسی ایک ملک یا قوم کے نہیں بلکہ عالمی دہشت گردی کے خلاف ہے۔اب جب کہ بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے۔اس کے بعد بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیا یہی بتائے گی کہ یہ اتحاد کسی ایک کے خلاف نہیں بلکہ ہم تو اس میں عالمِ اسلام کے اتحاد کو مضبوط بنانے اور دہشت گردی کے خلاف ایک متحدہ پلیٹ فارم کی تشکیل کے لیے شامل ہوئے ہیں۔
کیا ہم نے سیٹو اور سینٹو میں شامل ہوتے وقت بالکل یہی نہیں کہا تھا کہ یہ اتحاد کیمونسٹ چین اور سوویت یونین کے خلاف نہیں۔کیا ہم نے بڈبیر کا اڈہ امریکیوں کو دیتے ہوئے یہی نہیں کہا تھا کہ ہماری سوویت یونین سے کوئی لڑائی نہیں۔اس وقت تو نہ القاعدہ تھی ، نہ نائن الیون ، نہ داعش۔کیا ہم میں ہمت ہے کہ برادرِ بزرگ سے پوچھ سکیں بھائی صاحب یہ کیا ہو رہا ہے کچھ تو ہماری جغرافیائی حیثیت کا بھی خیال کریں۔ہم اردلی نہیں قوم ہیں۔ہم محض افرادی قوت نہیں ایک جیتا جاگتا دماغ بھی ہیں۔ہم محض چارہ نہیں پیٹ بھی رکھتے ہیں۔ہم بھی عزت سے جینے کی خواہش رکھتے ہیں۔
کیا ہماری پارلیمنٹ بس پانامہ ، فاٹا اصلاحات ، ذاتی حملوں ، چھیچھا لیدر ، ایک دوسرے کی انا زخمی کرنے اور بے روح قانونی سازی کے لیے ہی رہ گئی ہے۔یہ کیسی پارلیمنٹ ہے جو نہ سی پیک پر بحث کر سکتی ہے نہ ہی اسلامی اتحاد میں شمولیت پر گفتگو کے لائق۔
پر اصل مشکل یہ ہے کہ سگ باش برادرِ خورد مباش کا محاورہ بھی کم بخت فارسی میں ہی ہے۔
Courtesy: express.pk