پرندوں کی محفل جمتی ہے : کہیں یہ ہمارا ضمیر تو نہیں جنجھوڑ رہے؟
(نصیر احمد)
الو: تو پھر کیا خبریں ہیں؟ معاملات کیسے چل رہے ہیں شہر میں؟
کوا: تم یہ چکر بازی ہم سے کیوں کرتے ہو؟ تمھیں سب کچھ پتا ہے؟ مگر تم پتا نہیں کیوں اپنے اندازوں کی درستی کا مزا لیتے ہو؟ ایک بری صورتحال سے مزے لینا تو دانائی نہیں ۔لیکن تمھیں انکار کون کر سکتا ہے؟ وہی معاملات ،وہ سب ایک جیسے ہوتے جا رہے ہیں۔
فاختہ:کوے تم تو قاضیوں جیسے ہو گئے ہو۔ جب بھی خبر سنائی بری خبر سنائی۔ ذرا زندگی سنبھلی اور تم نے موت کے اعلانات سے کان پھاڑ دیے۔ میں بھی شہر میں گئی تھی۔ وہاں درخت کے نیچے لڑکی اور لڑکا بھی تو ایک شاندار مستقبل بن رہے تھے۔ کوئی اپنی بوڑھی ماں کی خدمت کر رہا تھا۔ کوئی اپنے دکھی دوست کو تسلی دے رہا تھا۔ یہی نہیں ہر وقت شہر میں بہت کچھ اچھا بھی ہو رہا ہوتا ہے۔
چڑیا۔ تم نہیں جانتیں۔کوے صاحب کے موت سے مفادات وابستہ ہیں۔ جتنے وہ سب ایک جیسے ہوتے جا رہے ہیں، اتنی ہی تو لاشیں بڑھتی ہیں۔ ان کے قبیلے کے لوگ تو اب پہاڑوں پر کم ہی آتے ہیں۔اور جب آتے ہیں تو ذرا سیر گلگشت کے لیے یا ذرا ورزش کرنے کے لیے۔ تمھیں تو پتا ہی ہے، یہ ان کی جو ایک جیسے ہوتے جارہے ہیں ان کی بہت پیروی کرتے ہیں۔اور اسی تقلید شعاری کے نتیجے میں ان جیسے ہوتے جا رہے ہیں۔
بلبل: تم لوگوں نے ہم پر آہ و فغاں کے الزام دھرے ہیں لیکن خود ہر وقت روتے رہتے ہو۔ وہ بڑے بڑے کوی ہمیں اپنے جیسا رونے والا بنانا چاہتے تھے مگر ہم تو اب بھی پون سے زیادہ چنچل ہیں۔ و ہ بڑے بڑے کوی، بڑے بڑے گنی کلاونت سب کو ایک جیسا نہیں کرسکے تو یہ لوگ سب ایک جیسے کیسے ہوں گے؟سب کو ایک جیسا کرنے کی سب کوششیں سچ کے پتھروں سے ٹھوکریں کھا کھا کر گر پڑتی ہیں۔ اس کوشش کو بھی جلد ہی کسی راہ گذر پر الٹا پڑا ہوا تم دیکھو گے۔
الو: بلبل ،تم فنون لطیفہ کا وہ لطیفہ ہوجس کی ہنسی ماتم اور جس کا ماتم ہنسی لگتی ہے۔تمھارا اختلاف پر یقین شاندار ہے مگر اختلاف کی سزا تم نے کبھی سہی نہیں۔زمانہ بدل گیا ہے۔ کبھی اختلاف کے خاتمے کے لیے گرفتاریاں ہوتی تھیں، اب ایک سرخی ہی کافی ہےاور سب رقت سے رکعتیں پڑھنے لگتے ہیں۔اب ان کے پاس کوئی حل نہیں ہے کہ ان کی حل ڈھونڈنے کی صلاحیت ہی ختم ہوتی جا رہی ہے۔
کوا: اگرچہ مجھ پر موقع شناسی اور وقت پرستی کے الزامات ہیں مگر وفور غذا سے دور ہونے کی سزا میں کسی کی دل بستگی کے لیے کیوں سہوں۔ میرا اپنے سوا ہے ہی کون؟ میری ترقی سے جلن ہوتی ہے تو ہوتی رہے مگر کارخانہ قدرت میں تو کوئی بھی مداخلت نہیں کر سکتا۔
فاختہ۔ میں کہتی نہ تھی کہ وہ سب ایک جیسے ہوں نہ ہوں، کوے صاحب ان جیسے ہو گئے ہیں۔ انھی کی طرح اپنے مفادات کے دلائل میں کارخانہ قدرت کو درمیان میں لے آ ئے ہیں۔اب تو سنا ہے نوچتے کاٹتے ہوئے جنتر منتر بھی پڑھتے ہیں۔ مگر کوے میاں آپ سارے شہر کے اوپر اڑتے ہیں اور آپ کو تو پتا ہی ہے، کون سے کارخانے آپ کی خوش قسمتی میں اضافے کے ذمہ دار ہیں۔ اور کتنے بھائی بند اور اپنے جیسے پروں والے ان کارخانوں کی کلوں کے نیچے آکر پس گئے ہیں اور کتنے پانیوں میں غلاظتوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ شہر کے بہت سارے حصے کبھی ہم بدنصیبوں کے گھر ہوتے تھے۔ اب ان جگہوں کا نام بھی لیں تو دم گھٹتا ہے۔ وہ بہنیں جو پورب کا دروازہ کھلنے پرخوشی کے گیت گاتی تھیں اور ہر طرف گھوم پھر کر آزادی کی مسرتیں تقسیم کرتی تھیں، اب پورب کا دروازہ کھلتا ہے تو منہ چھپا لیتی ہیں اور کسی ان جانے ان دیکھے ڈر میں چیختی چلاتی ہیں اور پنجروں سے ٹکرا ٹکرا کر گرتی اٹھتی رہتی ہیں۔ ْ
بلبل:تم نے تو افسردگی پھیلانے میں کوے صاحب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔یہ تو شاید ہمیشہ سے ایسا ہی ہے۔ مرے ہوئے بھائی بند ایک تلخ حقیقت ہے مگر شہر کے ارد گرد وہ بھی تو ہیں جن کو پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ان کا حسن تو امکانات کو بھی حیران کر دیتا ہے۔
چڑیا: ہائے ری بلبل۔ شہر ویران ہو جائے اور سب مر جائیں، تو نے تو بھنگ پینی ہی ہے۔ ان لوگوں کے حسن کا یہاں تذکرہ نہ کر۔ کسی نہ سن لیا اور تجھے پتا ہے شہر میں پارساوں کی کمی نہیں ہے۔ کوئی آ جائے گا ، اور سارا حسن داڑھیوں اور برقعوں میں گم ہو جائے گا۔ اتنی مشکل سے تو حسن ملتا ہے لیکن تم لوگ اس کا وہ ڈھنڈورا پیٹتے ہو کہ انھیں پتا چل جاتا ہے اور حسن گم ہو جاتا ہے۔ ذرا چھپا کر رکھا کرو۔ لیکن تمھارا کیا ہے، تم نے پھر پیالہ خضر اٹھا لینا ہے۔
بلبل: اتنا دل تنگ مت کرو اور ہماری بادہ پرستی اور عیش کوشی پر اتنی طعنہ زنی مت کرو۔ قلاوزیوں کی آمدو رفت کی کثرت نے تمھیں بھی شوق وعظ میں مبتلا کر دیا ہے۔ تم بھی ان جیسی ہو تی جا رہی ہو۔ لیکن یہ تو سوچو، وہ بھی حسن کاا ظہار نہ کرنے دیں اور ہم بھی حسن کو چھپائیں، حسن کا مستقبل کیا ہو گا؟ کوا۔ حسن تو ایک نکتہ نظر ہے اور میرے نکتہ نظر سے دیکھو تو شہر بہت حسین ہے۔
فاختہ: میں کہتی نہ تھی کہ سب ایک جیسے ہوتے جارہے ہیں۔وہ بھی اور ساتھ ہم بھی۔ بلبل: وہ سارے کہاں ایک جیسے ہوتے جا رہے ہیں؟ ایک جیسے ہوتے تو اختلاف پر اتنا کیوں جھگڑتے؟
الو:لیکن جھگڑے پر سب کا اتفاق ہے۔ نہ صرف جھگڑے پر۔ جھگڑے کے طریقہ کار پر۔ نہ صرف جھگڑے کے طریقہ کار پر بلکہ جھگڑوں کے بعد جو عارضی صلح ہوتی ہے ،اس کے انداز پر بھی۔یہ جس شہہ سرخی کی بات ہو رہی تھی وہ کیسے وارد ہوتی ہے۔کبھی سر راہ بکھری ہوئی لاشوں کی صورت میں اور کبھی بوریوں میں بند لاشوں کی شکل میں۔
کوا: کچھ دوست بتاتے ہیں، ابھی بہت سی ایسی جگہیں ہیں جہاں پر اختلاف کی لوگ عزت کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاملات پر امن رہتے ہیں۔
چڑیا: شاید بند کمروں کی بات ہو رہی ہے اوران دوچار لوگوں کی جو پتھروں سے الجھتے جھگڑتے رہتے ہیں۔میں تو جہاں بھی گئی، اختلاف کا نتیجے میں سب کو کچھ نہ کچھ بھگتتے ہی دیکھا ہے۔اور وہ میری بہن جو خبریں دیتی ہے وہ بھی تو کمینگی پر اتحاد کی خبریں ہی تو ہوتی ہیں۔ ویسے یہ ایک جیسا ہونا یہاں پر شروع کیسا ہوا؟
کوا: جن کے اختلاف کی بات ہو رہی ہے، ان کا اختلاف قیادت کا ہے طریقہ کار کا نہیں۔ اختلاف تو اب پاگل ہی کرتے ہیں۔ باقی سب کچھ اتحا د ہی ہے۔ میرا تجربہ کہتا ہے، اس سنگدل اتحاد کے پیچھے وہی کمینہ ہے، جس نے سب کا حق اختلاف چھین لیا تھا اور جس کی مسرتیں سب کو اپنے جیسا کرنے کی کوششوں میں ظاہر ہوتی تھیں۔
فاختہ: اختلاف سے دشمنی امن سے دشمنی سے جڑی ہوئی ہے۔ نفرت سے منسلک ہے۔ قتل سے پیوستہ ہے۔ رضا کے انکار سے وابستہ ہے۔ خود غرضی کا شاخسانہ ہے۔ کم ہمتی کا نتیجہ ہے۔
بلبل:کیا جوش تقریر ہے لیکن ثبوت کہاں ہیں، دلائل کہاں ہیں؟ شواہد کہاں ہیں؟
فاختہ: تم بہت دانشور نہ بنو، میں بھی پڑھے لکھے لوگوں میں اٹھتی بیٹھتی رہی ہوں۔ میں زیادہ نہ کہتی اختلاف سے دشمنی کے پیچھے قصے ہیں۔ وہ قصے تمھاری نظر سے گزریں تو تمھیں میری باتوں کی صداقت مل جائے گی۔ وہ جسے آگ چرانے کے جرم کی سزا ملی تھی۔ اور وہ لڑکی جو شجر علم کی خواہشمند تھی۔ اور جس نے اپنے دکھوں کا سبب جاننا چاہا تھا۔ انھی قصوں میں ثبوت آشکار ہیں۔ بس دیکھنے والی نظر چاہیے۔
بلبل:پتے کی باتیں کرتی ہو مگر بڑے ڈھکے چھپے انداز میں۔اور قصوں میں بھی امتیاز کرتی ہو۔ چلو تمھاری کوئی مجبوری رہی ہو گی۔ لیکن میرے خیال میں وسعتوں کو تھوڑا سا اور کھوجنا ہو گا ۔ قصوں میں جو احساسات چھپے ہیں، ان کو ٹٹولنا ہو گا۔ لیکن شاید سمندر کی گہرائیاں اور فلک کی پہنائیاں ہماری قوت پرواز سے کہیں زیادہ گہری اور وسیع ہیں۔ لیکن میرا تجربہ اور اندازہ کہتے ہیں کہ یہ سارا فساد غم کا ہے۔ جب سے انھوں نے غم کو ایک واحد، ازلی اور ابدی حقیقت قرار دیا ہے، تب سے غم سے جو بھی انکار کرتا ہے، کسی نہ کسی طرح اسے غم سے آشنا کر دیتے ہیں۔ مجھے ہی دیکھ لو میں خوش باش رہتی ہوں لیکن جب بھی یہ مجھ سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ہائے بیچاری کبوتر چھوڑ گیا اسے، جانے کیا بات ہوئی، اسی میں کوئی خرابی ہو گی۔ دیکھو ناں مجھے خوشی کے لیے جھگڑے پر ڈال دیا ہے اور جب پورا قبیلہ ہی غم کے راگ الاپے گا تو میرے نغمہ مسرت کی شکل بدل جائے گی ۔لیکن اگر میں دکھی ہو گئی تو کیا، سارے جہان کی بلبلوں کے ہزار ہا نغموں کو تو یہ سارے ایک جیسے ہوکر بھی بدل نہیں سکتے۔
چڑیا:اس کنجری کو تو ہر وقت اپنی خوشیوں کی پڑی رہتی ہے۔ یہ اتنی سادہ سی بات نہیں جانتی کہ وہ اگر ایک جیسے ہو گئے ، نغمے تو کجا بلبلیں ہی نہیں رہیں گی۔ خطرے کا تو اسے ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔اس نے یہاں صرف ورزشی ہی دیکھے ہیں، شکاری نہیں۔ الو جی آپ ہی کچھ بتائیں کہ یہ سب ایک جیسے کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے پلے تو کچھ بات نہیں پڑیْ
بلبل: مجھ غریب کے پاس خوشی کی، آزادی کی، محبت کی تلاش کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور یہ مختصر سی ڈائن عقلمند بننے کے چکر میں سنگ دل ہو گئی ہے۔ مجھے پتا ہے تو ان قلاوزیوں کے واعظ پوری دل جمعی سے سنتی ہے۔ تبھی تو تو ایسی ہو گئی ہے، ورنہ تو تواچھی بھلی ہنس مکھ لڑکی تھی۔الو جی سے کیا پوچھتی ہو، یہ اپنی حکمت پر نازاں تو بہت ہیں، ان کو آتا جاتا کچھ نہیں ہے۔
الو:گفتگو کی طوالت دلوں میں نفرت پیدا کر دیتی ہے اگر ایک ہی قسم کی گفتگو مسلسل دہرائی جائے۔لیکن تم سب لوگ اپنے اپنے تجربے کے مطابق درست کہہ رہے ہو۔
کوا۔ دیکھا، وہی نالائق استادوں کا سا انداز، دوسروں کی باتیں سن سن کر انھی کو دہرا دو اور کہو کہ یہ سب میں نے بنا یا ہے۔
الو:تم سب کی شکائتیں کافی نفرت آمیز ہیں اور اس کی وجہ بھی مجھے معلوم ہے لیکن سچی بات ہے کہ ان کے ایک جیسا ہونے کا جتنا مجھے غم ہے، اتنا شاید تم لوگوں کو نہیں اور ان کے ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی جتنی خوشی مجھے ہے اتنی تمھیں نہیں۔ تم سب تو سوئے رہتے ہو، میں ساری رات جاگتا ہوں اور جتنا بھی دیکھا ہے، جتنا بھی سنا ہے، جتنا بھی سونگھا ہے، جتنا بھی چکھا ہے اور جتنا بھی چھوا ہے، اس پر سوچتا رہتا ہوں حتی کہ وقت عبادت آجاتا ہے۔ میں عبادت نہیں کر پاتا، تم لوگوں نے میرے عبادتوں سے گریز کے ارد گرد داستانیں ترتیب دے لی ہیں مگر کوئی بات نہیں۔ میں تم لوگوں میں سے کسی سے بھی سیانا نہیں لیکن میرے حالات مختلف ہیں، جن پر غورو فکر نے مجھے مختلف بنا دیا ہے اور تم اپنے اختلافی مسائل میرے پاس لے آتے ہو۔
فاختہ: او الو جی، آپ تو لگتا ہے کچھ برا مان گئے ہو۔مسئلوں کا حل ڈھونڈنا تو اچھی بات ہے۔ صلے پر اتنی توجہ نہ دیں، کبھی ملتا ہے اور اکثر نہیں۔
چڑیا:تمھیں پتا ہے، الو جی کو اپنی تعریفیں کروانا کتنا مرغوب ہے۔ ان کی ساری حماقتیں، جن کو یہ حکمتیں کہتے ہیں وہ ساری خودپرستی کے کوہساروں کے ارد گرد چکر لگاتی رہتی ہیں۔لیکن کبھی کبھی کوئی پتے کی بات بتا بھی دیتے ہیں۔ بلبل۔ جب سے تم وعظ سننے لگی ہو۔ تمھارے تو دیدوں کا پانی ہی مر گیا ہے۔اپنے الو صاحب مسئلوں کا حل بتانے جا رہے ہیں اور تم نے تیر طعنہ سے ان کی چشم حکمت ہی زخمی کر دی ہے۔
کوا:ھا ھاھا، یک چشم حماقت سہہ کر یہاں کے انسان تو ایک جیسے ہوتے جا رہے ہیں، اب یہ یک چشم حکمت ہمارا جانے کیا حال کرے گی۔ خیر جو ہو گا، دیکھا جائے گا لیکن الو صاحب اپنا درس حکمت ذرا مختصر ہی رکھیے گا۔ میں نے شہر جانا ہے، بھوک لگ رہی کچھ لاشوں کا بھی اضافہ ہوا ہے، ذرا داتن تو کر لیں اور ویسے بھی بھوکے پیٹ حکمت کمینگی کے رستے دکھانے لگتی ہے۔
الو: تم آدمیوں کے ساتھ وقت گزارتے ہو، تمھاری کمینگی نفسیات اور خوردو نوش سے کیسے علیحدہ ہو سکتی ہے لیکن شب فرقت دراز ہی سہی، بات میں مختصر ہی کروں گا۔انسانوں میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک وہ بندروں سے قربت کے سبب نقالی کے ماہر ہوتے ہیں اور دوسرا دماغ کی نشوو نما جو ان کا اپنا کارنامہ ہے ، اس کے سبب وہ چیزیں بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔لیکن وہ نقالی کی آسانیوں کو وہ ترجیح دیتے ہیں۔ تخلیق کی دشواریاں اختیار کرنا وہ پسند نہیں کرتے۔ اور جو دشواری سے کچھ بنا لیتا ہے، وہ اس کی پیروی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ پھر چیزیں بگاڑنا بھی وہ بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ بگاڑنا بہت آسان ہوتا ہے۔میرا تجربہ کہتا ہے، دماغ کی نشو ونما دشوار تھی لیکن انسانوں نے اسے سہولتوں کے لیے ہی استعمال کیا۔ اب یہ حالات ہو گئے ہیں کہ وہ ذاتی قسم کی سہولتوں کے لیے کچھ بھی بگاڑ سکتے ہیں۔ کیونکہ بگاڑ سے تمغے، مصنوعات اور سہولیات منسلک ہیں۔ انسانوں کی اس سہولت پسند آمریت کا ہم سب شکار ہو گئے ہیں۔ ہمارا خیال کسے ہونا ہے، یہ اپنی اولادوں کو بھی بگاڑ سے متعلق سہولتوں کے سپنوں کی بھٹی میں جھونک رہے ہیں۔ انھیں تخلیق کی بجائے پیروی کی تربیت دیتے ہیں کیونکہ پیروی کو انھوں نے وسیلہ نجات قرار دیا ہے۔پیروی نجات کا وہ تنگ رستہ ہے جس پر بھیڑ بہت زیادہ ہے۔ اور پیروی کی یہ سہولت بگاڑ پیدا کر رہی ہے۔پیروی میں سبقت کے لیے وہ ایک دوسرے کو دھکیلتے،پاوں تلے کچلتے، ایک دوسرے سے ٹکراتے اور یہی بھگدڑ مچاتے کچھ آگے بڑھتے اور بہت کچھ پیچھے ہٹتے چلے جا رہے ہیں۔ نجات کی نوید نے انھیں ایک جیسا کر دیا ہے۔ اور منزل نجات جس کی حقیقت کسی نہیں بھی دیکھی، لیکن مانتے سب ہیں۔انھیں نجات کے رستے، جادے اور منزل کوبدلنا ہو گا۔ میں نے ہزار ہا رستے، ہزار ہا جادے اور ہزار ہا منزلیں دیکھی ہیں اور جو نہیں دیکھ سکا وہ میری آنکھو ں میں اجا گر ہیں اور وہ منزلیں میرے خوابوں کی مسافر ہیں۔اور ان سب منزلوں تک رسائی پر امن اختلاف کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ لوگ تشدد میں پیروی سے باز نہیں آرہے۔ بات بہت لمبی ہو سکتی ہے، لیکن ابھی میں اسے سمیٹ لیتا ہوں۔ کوے صاحب نے لاشوں سے لطف نو چنا ہے، فاختہ جی نے اپنی آہوں سے گھونسلے بنانے کی مشقت کرنی ہے، بلبل نے خوشی کی تلاش میں غم کو نظر انداز کرنا ہے، چڑیا نے صاحبان منبر کے واعظ سننے ہیں اور میں نے ابھی اس مسئلے پر بہت غوروفکر کرنا ہے اور ناکام ہو کر اپنی حماقت کا اعتراف کرنا ہے۔
( اس طرح سنجیدہ معاملات پر یہ محفل گفت و شنید برخاست ہو گئی)