عالمی عدالت انصاف اور آتش بیانی
(ملک تنویر احمد)
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا کیس اب عالمی عدالت انصاف میں زیر سماعت ہے۔ابتدائی سماعت میں عدالت کے دائرہ اختیار پر پاکستانی موقف کو تسلیم نہیں کیا گیا۔اس ابتدائی فیصلے پر آتش زیرپا حلقوں کی جانب سے موجودہ سیاسی حکومت کو جو بے نقط سننے کو مل رہا ہے و ہ تعجیل پسندی اور جذباتیت سے مغلوب اس قومی مزاج کا آئینہ دار ہے جو شاید اب ہماری فطرت ثانیہ بن چکا ہے۔ تعجیل پسندی اور جذباتیت کے اسپ تازی کو لگام ڈال کر فکری یکسوئی اور ٹھنڈے دل و دماغ سے اس کیس پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان کے لئے اس ابتدائی سماعت میں ہزیمت یا شکست کا شائبہ تک نہیں ہے جسے کچھ بز عم خود ’’محب وطن‘‘ حلقے ایک ہار سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
سیاسی حکومت کی جانب سے کمزور اور بودا موقف پیش کرنے کی ساری تاویلیں سیاسی تعصب میں لپٹی ہوئی ایک ذہنیت کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتیں جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے حربے کے سو ا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ دلائل زمینی حقائق سے بعض اوقات لگا نہیں کھاتے اور شاید سیاسی مخالفین اس نوع کے حقائق سے جان بوجھ کر بھی صرف نظر کرتے ہیں۔کلبھوشن یادیو پر پورے ملک میں ایک اتفاق رائے ہے کہ یہ شخص بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کے واقعات کی منصوبہ بندی کرنے کے ساتھ ساتھ لسانی و فرقہ وارانہ فسادات کو بھی ہوا دینے میں ملوث ہے ۔ کلبھوشن کی گرفتار ی سے لے کر اس کی سزائے موت کے فیصلے تک پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت یکسو نظر آئیں۔
بھارت کی جانب سے قونصلر رسائی کے واویلے کے بعدجب اس نے عالمی عدالت انصاف میں اس معاملے کو لے جانے کا اعلان کیا تو پاکستان نے اسے عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار سے باہر کا کیس قرار دیا جو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عناصر کے کیسز کی سماعت کرنے کا مجاز نہیں ہے تاہم جب عدالت نے اس اپنے دائرہ اختیار میں قرار دے دیا ہے تو اب پاکستان کے پاس اس کیس کو مدلل انداز میں ثابت قدمی سے لڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔ اس کیس کی قانونی موشگافیوں پر ماہرین قانون بہتر طور پر رائے زنی کر سکتے ہیں کہ وہ ان بین الاقوامی قوانین کے اسرار و رموز سے کماحقہ آگاہ ہیں جو نوع کے کیسز میں درپیش ہوتے ہیں ۔
ہمارا موضوع سخن پاکستان میں داخلی طور پر اس کیس کے معاملات سے متعلق ہے۔نواز لیگی حکومت وفاق میں مسند اقتدار پر متمکن ہے اور اسے داخلی طور پر جہاں پانامہ لیکس، ڈان لیکس جیسے نازک اور سنگین حالات سے دوچار ہونا پڑا تو اس کے ساتھ ساتھ کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھی اسے سنگ باری کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے جس میں اس کے سیاسی حریف بڑھ چڑھ کر اسے ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت کی پالیسیوں اور ترجیحات سے بہت سوں کو اختلاف ہو سکتا ہے جو عین فطری ہے کہ انسانی فہم و ادراک ہر معاملے پر اپنے گردو پیش کے عوامل اور محرکات سے متاثر ہوتا ہے ۔ میاں نواز شریف کی داخلی اور خارجی پالیسیوں سے اختلاف ببانگ دہل کیا جاتا ہے لیکن کلبھوشن کے معاملے پر انہیں جس بے جا تنقید کا نشانہ بننا پڑا وہ کسی صحت مند اور مثبت تنقید کی مظہر نہیں ہے۔
میاں نواز شریف روز اول سے ان حلقوں کی جانب سے مطعون قرار دیے جاتے ہیں جو بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کے خلاف ہیں اور ان تعلقات میں ایک ذرا سی پیش رفت پر وہ پل بھر میں خفا ہو جاتے ہیں۔ یہ عناصر ہمارے سیاسی، عسکری اور سفارتی حلقوں سے لے کر میڈیا میں برہنہ شمشیر کی طرح اس وقت حرکت میں آجاتے ہیں جب کبھی بھی سیاسی حکومت بھارت سے تعلقات کے با ب میں ایک قدم بھی اٹھاتی ہے۔ بھارتی بزنس مین جندال کی جانب سے پاکستان یاترا اور ان کی وزیر اعظم نواز شریف سے مری کے مرغزاروں میں ملاقات ان بز عم خود محب وطن حلقوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھا ۔ بھارتی بزنس مین جندال کی اس ملاقات کو توڑ مروڑ کر جس طرح پیش کیا گیا وہ کسی صحت مند ذہن کی عکاسی نہیں کرتا۔
اب اس پر حکومت وقت کو ’’ملک دشمنی‘‘ اور ’’دشمن سے یاری‘‘ کے کیا کیا وار سہنے پڑے اس سے سوشل میڈیا کے برقی صفحات سے لے کر پرنٹ میڈیا کے کاغذی صفحات بھرے پڑے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا کی ر اسکرینیں رنگوں سے زیادہ ان عناصر کی آنکھوں سے نکلنے والے شعلوں اور زبان سے اگلنے والوں انگاروں سے رنگیں ہوتی نظر آئیں۔ کلبھوشن یادیو کے مسئلے نے تو حکومت وقت کو مزید توپوں کے دہانے پر رکھ دیا ہے جو ’’محبان وطن‘‘ عناصر کے بقول ایک کمزور اور پھسپھسا موقف پیش کر کے بھارتی موقف کو تقویت دے رہی ہے۔پاکستان میں ایک منتخب حکومت اس وقت کار فرما ہے جو اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے داخلی طور پر تو سیاسی چالبازیوں اور چالاکیوں کا سہار ا لے سکتی ہے لیکن ملک کی قسمت سے کھلواڑ کی کسی قیمت پر متحمل نہیں ہو سکتی۔
یہ سیاسی حکومت اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہے کہ بھارت کے معاملے میں پاکستان کے اندر شدید نوعیت کی مخاصمت پائی جاتی ہے جو روایتی حریف کی جانب ذرا سی جھکائی کی صورت میں خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے اور بھارت سے تعلقات کے باب میں اسے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا ۔ ایک ایسی حکومت جو سیاسی طور پر پانامہ لیکس کے بعد ایک کمزور وکٹ پر کھڑی ہے وہ کس طرح عالمی عدالت انصاف میں بھارت کے سامنے جان بوجھ کر کمزور موقف رکھ کر پاکستان کا کیس خراب کرے گی یہ بات کسی فہم میں نہیں سما سکتی لیکن اگر بزعم خود ’’محب وطن‘‘ عناصر نے اس حکومت کے لتے لینے کا محبوب مشغلہ پالا ہوا ہے تو اسے ان کی مہم جویانہ طبیعت کے سوا کچھ نام نہیں دیا جا سکتا۔
یہ عناصر اگر طبیعت میں ذرا سا ٹھہراؤ پید ا کرکے حکومت اور اس کے وکلاء کو عالمی عدالت انصاف میں کیس لڑنے کی اسپیس فراہم کر یں تو اس میں پاکستان کا بھی بھلا ہوگا اور ملک میں داخلی طور پر اضطراب اور بے چینی پیدا ہونے کے خلاف ایک بند بھی بندھ جائے گا۔حکومت وقت سے بھی دست بستہ گزارش ہے کہ اس کیس میں ایک فوکل پرسن مقرر ان سارے بھونپو وزراء کی زبان کو نکیل ڈالے جن کے اپنے بیانات مجموعہ اضداد بن کر ہر ایک کو اپنی مند پسند کی تشریح کرنے کی کھلی چھٹی دیتے نظر آتے ہیں۔