ہمیں اظہار رائے کی آزادی راشن کارڈ پر ملی ہے
(مبشر علی زیدی)
دس سال پرانی بات ہے، جیو انگلش کے لیے کراچی میں عملے کی تربیت جاری تھی۔ میں جیونیوز یعنی اردو چینل میں کام کرتا ہوں۔ اس وقت جیونیوز کی نشریات دبئی سے جاری تھیں۔ ایک دن ہمیں پیغام ملا کہ امریکی ماہرین جیو انگلش کے تمام عملے کو سب کچھ سکھا چکے۔ لیکن ابھی کچھ عرصہ ان کا کراچی میں قیام رہے گا۔ چنانچہ آپ کراچی آئیں اور ایک ہفتے کے تربیتی سیشن میں شرکت کریں۔
بیچ لگژری ہوٹل میں، جہاں اب ہر سال لٹریچر فیسٹول منعقد کیا جاتا ہے، پہلی منزل پر جیو انگلش کے عملے کا قبضہ تھا۔ ہمیں پتا چلا کہ جن صاحب نے ہمیں کچھ سکھانا تھا، وہ اپنڈکس کے درد کا شکار ہوکر اسپتال پہنچ گئے ہیں اور ان کا آپریشن ہوگیا ہے۔ ان کے متبادل مسٹر مائیک ٹگل اور مس کیونگ لا نے چھ دن بڈھے توتوں کو ٹیلی وژن سکھانے کی کوشش کی۔ ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ دونوں میاں بیوی تھے۔
مجھے کئی باتیں یاد ہیں۔ مثال کے طور پر مائیک نے بتایا کہ سیاست دان اور ارب پتی افراد مصنوعی لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی مسکراہٹیں، ان کے جذبات، ان کی باڈی لینگویج، ان کی گفتگو، سب کچھ مصنوعی ہوتا ہے۔ ٹیلی وژن نیوز پر صرف حقیقی لوگوں کو دکھانا چاہیے۔ یہ حقیقی لوگ عام عوام ہوتے ہیں۔ راستہ بھول جانے والا راہگیر، گلی میں آواز لگانے والا سبزی فروش، مہنگائی پر غصہ دکھانے والا خریدار، لوڈشیڈنگ سے بے حال خاتون، اسکول وین خراب ہونے سے پریشان طالب علم۔ مائیک نے ہم سے وعدہ لیا کہ ہم اپنے بلیٹنز میں صرف عوام کی خبریں نشر کریں گے اور مصنوعی لوگوں کو بالکل وقت نہیں دیں گے۔ ہم نے ان کا دل رکھنے کے لیے وعدہ کرلیا۔ پاکستان میں ایسا کیسے ممکن ہے!
مائیک ٹگل عراق جنگ کور کرچکے تھے اور بغداد میں اے بی سی نیوز کے بیورو چیف تھے۔ انھوں نے بتایا کہ امریکی صحافیوں کے لیے عراق میں رپورٹنگ کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا۔ وہ یہ کہ امریکی فوج کے ساتھ سفر کریں۔ ایسے رپورٹرز کو ایمبیڈڈ جرنلسٹ کہا جاتا ہے۔ فوج کے ساتھ رہنے سے زندگی کو خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ خبریں ان کی مرضی سے دینا پڑتی ہیں۔ آزاد صحافی کے لیے یہ بہت مشکل کام ہے۔ کچھ خبریں امریکی فوجیوں کے خلاف بھی ہوتی تھیں۔ انھیں بڑے طریقے سے لکھنا پڑتا تھا۔
آپ کا کیا خیال ہے، عراق میں موجود امریکی صحافی کیسے رپورٹنگ کرتے ہوں گے؟ میں اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب کوئی صحافی کچھ غلط دیکھتا ہوگا تو اس کی خبر لکھتا ہوگا۔ وہ خفیہ طور پر اپنے ایڈیٹر کو بھیج دیتا ہوگا۔ اس کے ساتھ امریکی فوج کے حق میں کوئی رپورٹ بنادیتا ہوگا۔ اس کا اخبار یا ٹی وی فوج کے موقف کی رپورٹ نشر کرتا ہوگا۔ پھر ذرائع کے حوالے سے فوجیوں کے خلاف خبر نشر کرتا ہوگا۔ فوج کا موقف بھی اس میں شامل کرلیتا ہوگا۔
ہم جن ملکوں کو رائے کے اظہار کی آزادی کے لیے مثالی قرار دیتے ہیں، وہاں بھی صحافیوں کو دباؤ اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنا فرض ادا کرنا نہیں بھولتے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ابو غریب جیل میں بدترین انسانی تشدد کا انکشاف امریکی میڈیا ہی نے کیا تھا۔
اخبار لاکھوں قارئین تک پہنچتا ہے، ٹی وی کروڑوں ناظرین تک۔ ایک اچھے صحافی کو ایک اچھے ادیب سے بھی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ کون سی بات کس وقت، کہاں، کس لہجے اور کن الفاظ میں کرنی چاہیے۔ آج سندھ اسمبلی میں ایک وزیر صاحب نے جوش خطابت میں گالی دے ڈالی۔ آپ آج ٹی وی پر وہ گالی نہیں سنیں گے۔ کل اخبار میں وہ گالی نہیں پڑھیں گے۔ اسے ایڈٹ کردیا جائے گا۔ کوئی نہیں کہے گا کہ آپ نے وہ جملہ کیوں نکال دیا۔
بعض دوست اکثر اس بات پر خفا ہوتے ہیں کہ قتل کی واردات میں مقتول کی شناخت کیوں نہیں ظاہر کی جاتی۔ فرقہ وارانہ فساد یا توہین کے الزام پر حملے کی خبر کو روکا کیوں جاتا ہے؟ روکا تو شاید نہیں جاتا لیکن تھوڑی سستی کی جاتی ہے۔ خبر ذرا احتیاط سے لکھی جاتی ہے۔ خبر احتیاط ہی سے نشر کرنی چاہیے۔ جھگڑے کی خبر جتنی زیادہ نشر ہوگی، زیادہ لوگوں کو اس کے بارے میں علم ہوگا۔ جتنے زیادہ لوگوں کو اس بارے میں پتا چلے گا، فساد بڑھنے کے خدشات بھی بڑھتے جائیں گے۔ ہمیں کسی کا ساتھ نہیں دینا۔ ہمیں عوام کے مفاد کا خیال رکھنا ہے۔
صحافیوں کو اکثر یہ الزام سننا پڑتا ہے کہ وہ بزدل ہیں اور طاقت ور حلقوں کے بارے میں لکھتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ یہ الزام لگانے والے بیشتر افراد یا تو ملک سے باہر بیٹھے ہوتے ہیں یا زمینی حقائق سے بالکل بے خبر۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ گزشتہ بیس سال میں کتنے پاکستانی صحافی قتل کیے گئے ہیں؟ کتنے لاپتا ہوئے؟ ان کے اہلخانہ کا اب کیا حال ہے؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ کتاب چھاپنے والے سلیم شہزاد کے ساتھ کیا ہوا؟ پرنٹ میڈیا کے رپورٹر عمر چیمہ کے ساتھ کیا ہوا؟ ٹی وی اینکر حامد میر کے ساتھ کیا ہوا؟ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سلمان حیدر کے ساتھ کیا ہوا؟
پاکستان جیسا ملک، جہاں کئی دیدہ اور نادیدہ حکومتیں ایک ساتھ کام کررہی ہوں، ہر شخص میڈیا پر دباؤ کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ شدت پسندوں کی فون ڈائری میں میڈیا کے نمبر سب سے اوپر ہوتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میڈیا پر اپنے قد سے زیادہ وقت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مذہبی رہنماؤں اور مذہبی مکاتب فکر سے متعلق خبروں کا بہت زیادہ ردعمل آتا ہے۔ فوج سے متعلق خبریں چھان پھٹک کے بعد نشر کرنا پڑتی ہیں۔ توہین عدالت کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے۔
میڈیا اداروں کو کمرشل مفادات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ہماری معیشت کمزور ہے۔ یہاں امریکا، چین اور بھارت کی طرح بڑے بزنس گروپس نہیں ہیں۔ ہماری کمپنیوں کے پاس اشتہارات کے بڑے بجٹ نہیں ہیں۔ میڈیا اداروں کے پاس پیسے کمانے کے بہت سے آپشن نہیں ہیں۔ کئی حلقے ایسے ہیں جو خفا ہوتے ہیں تو اشتہارات بند ہوجاتے ہیں۔ کئی حلقے ایسے ہیں جو ناراض ہوتے ہی تو چینل بند ہوجاتے ہیں۔ چینل ایک ماہ بند رہے تو کروڑوں روپے کا نقصان ہوجاتا ہے۔ دوسرے اخراجات تو ایک طرف، ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں رہتے۔
سوشل میڈیا نے حقائق سے لاعلم اور دباؤ سے بے خبر عوام کو سوچے سمجھے بغیر بولنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ یہ بھی صحافیوں پر دباؤ کا سبب بنا ہے۔
اچھا تو پھر کیا کریں؟ کسی کے خلاف خبر نہ چلائیں؟ کیا آزاد صحافت ایک جھوٹا خواب ہے۔ کیا آزاد صحافت خواب ہی رہے گی؟ دراصل ہمیں اظہار رائے کی آزادی راشن کارڈ پر ملی ہے۔ ہمیں بین السطور اپنی بات کہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو بات بڑے اسٹیج پر نہ کی جاسکے، وہ چھوٹے پلیٹ فارم پر کریں۔ جو بات ٹی وی پر نہ کہی جاسکے، وہ اخبار میں لکھیں۔ جو اخبار میں نہ چھپ سکے، اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کریں۔ خیر، ایسا کیا بھی جارہا ہے۔
جارج آرویل نے کہا تھا، صحافت یہ ہے کہ آپ وہ چھاپیں جو کوئی نہ کوئی روکنا چاہتا ہو۔ باقی سب پی آر ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کوئی خبر روکنی نہیں چاہیے۔ چاہے چار سطر کی خبر ہو لیکن اسے چھپ جانا چاہیے۔ میں آج بھی عشروں پرانے اخبارات کے فائل دیکھتا ہوں۔ آج سے عشروں بعد کوئی اخبار کے فائل دیکھے تو اسے وہ خبر مل جانی چاہیے، جسے کوئی نہ کوئی روکنا چاہتا ہے۔ چاہے وہ اندر کے صفحات پر ملے، چاہے چار سطر کی ملے، چاہے وہ گول مول اور مبہم انداز میں لکھی ہوئی ملے۔ خبر کے الفاظ سے پتا چل جاتا ہے کہ لکھنے والا کس دباؤ کا شکار تھا۔ اس دباؤ کے باوجود اس نے خبر لکھی اور چھاپی، اس لیے اس پر تنقید نہیں، اس کی تعریف کرنی چاہیے، اس کا احترام کرنا چاہیے۔