موروثی بیماریوں سے پاک بچے ، مگر کیسے؟
نئی ٹیکنالوجی اس بات کو ممکن بناتی ہے کہ انسانی ڈی این اے میں چھوٹے پیمانے پر ترمیم کرے۔ اگر کوئی جنیاتی بچہ تخلیق کرنے کیلئے طریقہ تلاش کر رہا ہے تو جارج چرچ اس بارے میں جانتے ہیں۔ ہارورڈ میڈیکل سکول کیمپس کی لیبارٹری میں آپ تحقیق کرنے والوں کو ای کولائی (E. Coli)جین کا معتبر جنیاتی کوڈ تلاش کرتے دیکھیں گے۔ جبکہ دوسری طرف جائزہ لیں تو کچھ سائنسدان ڈی این اے انجینئرنگ کی مدد سے بہت بڑا بالوں والا جانور تخلیق کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔جارج چرچ یہ کہتے ہیں کہ ان کی یہ لیبارٹری نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے عمل تخلیق کا مرکز ہے جہاں لوگ ایسی تخلیق چاہتے ہیں جو ان کی سوچ سے مطابقت رکھتی ہو۔
جارجچرچ سے رابطے نے مجھے نوجوان سائنسدان لوہان یانگ(Lohan Yang)سے بات کرنے کا مشورہ دیا۔ جن کا ڈی این اے میں ترمیم کرنے کی ٹیکنالوجی سی (CRISPR-Cas9)پر تحقیق میں اہم کردار رہا ہے۔ جارجچرچ کے ساتھ مل کر لوہان یانگ نے بائیو ٹیکنالوجی کمپنی بنائی تاکہ وہ مویشیوں کے جنیاتی خلیوں کی مزید کشید کر سکیں اور اس سے مفید خلیہ لے کر مضر خلئے کو دور کر سکیں۔
میں نے لوہان یانگ سے دریافت کیا کہ کیا ان میں سے کچھ کا تجربہ انسان پر بھی کیا گیا ہے؟ اور کیا ہم انسانی جین پول کو بہتر بنا سکتے ہیں؟ جس کے بارے میں بنیادی سائنس کا تصور یہ ہے کہ اس میں مداخلت غیر محفوظ، غیر ذمہ دارانہ اور قدرے ناممکن ہے لیکن لوہان یانگ جواب دیتی ہیں کہ ’’ہاں یقینا‘‘ حقیقت میں ہارورڈ لیبارٹری کا ایک منصوبہ زیر تکمیل ہے۔ انہوں نے اپنے لیپ ٹاپ پر پاور پوائنٹ کی وہ سلائیڈز کھولیں جس کا نام جَرم لائین ایڈیٹنگ میٹنگ(Germline Editing Meeting)رکھا گیا تھا۔
لیں جناب انسانی وراثت کی متبادل تجویز حاضرہے۔ جَرم لائین بائیولوجی ماہرین کے مطابق،عورتوں کے تولیدی انڈوں اورمردوں کے نطفہ کی ایک اصطلاح ہے جن کے اشتراک سے جنین(Embryo) بنتاہے۔ ان خلیوں کے ڈی این اے یا جنین میں ترمیم سے بیمار جین کو صحت مند کرنے اور اسے مستقبل کی نسلوں کو منتقل کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔ ایسی ٹیکنالوجی سیسٹک فائبروسس (Systic Fibrosis) جیسی وراثتی بیماریوں سے نجات دیتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے جینزبنائے جائیں جو متعدی مرض یا الزیمر (Azheimer) سے زندگی بھر کا تحفظ فراہم کریں۔ لوہان یانگ نے بتایا کہ یہ طبی تحقیق اس صدی کیلئے اتنی ہی اہم ہو سکتی ہے جتنی کہ گزشتہ صدی میں ویکسین تھی۔
یہ خوف یا ناگوار تصور اپنی جگہ موجود ہے کہ جرم لائین انجنیئرنگ کے ذریعے سپر اور ڈیزائنرڈ بچے ا ن لو گوں کیلئے بنائیں جائیں گے جو اس کے اخراجات برداشت کر سکیں۔ کیا آپ نیلی آنکھوں اور گھنگریالے بالوں والا بچہ چاہتے ہیں؟ ایک سوچ ہے کہ ہم ایسے ذہین لوگوں کا گروہ کیوں نہیں بناتے جو مستقبل کے سائنسدان اور رہنما بن سکیں۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ جین کے علاج سے لوگوں میں پھیلتی بیماریوں کو ختم کرنے کا نیا دور شروع ہو گا۔ تصور یہ ہے کہ فزیشن خود براہ راست خراب جین کو درست کرسکے گا۔ مثلاًوہ خون کی کمی کی بیماری انیمیا کے شکار مریض کے خون کا خلیہ درست کرسکے گا۔
یانگ نے بتایا کہ تجربہ اگرچہ اتنا سادہ نہیں لیکن یہ اس پر عمل کرنے کا طریقہ کچھ اس طرح ہو گا کہ تحقیق کرنے والوں نے نیویارک کے ایک ہسپتال سے رحم کے سرطان میں مبتلا عورت کی بیضہ دانی (رحم) حاصل کرنے کی کوشش کی ، یہ کینسر ایک جین بی آر سی اے ون(BRCA1)میں خرابی پیدا ہونے سے ہوتا ہے۔ محققین ایک دوسری ہارورڈ لیبارٹری کے ا شتراک سے سرطان زدہ بیضہ دانی سے ناپختہ تولیدی بیضے حاصل کریں گیپھر اسیبتدریج پرورش کرکے انہیں لیبارٹری میں تقسیم کیا جاسکے گا۔ یانگ اور دیگر سائنسدان کو خرابجین کے ڈی این اے کو صحیح کرنے کیلئے(CRISPR-Cas9) کو استعمال کرے گی۔ وہ عورتوں کی بیضہ دانی کے کینسر کا سبب بننے والی جینیاتی غلطی سے پاک بیضہ تخلیق کرنیکی کوشش کریں گے۔
اس خاص تجربے کی قسمت سے قطع نظر، انسانی جرم لائین انجنیئرنگ ایک اکسا دینے والا تحقیقی تصور ہے۔ امریکہ میں کم از کم تین دیگر تحقیقی مراکز اس پر کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح چین،برطانیہ اور کیمبرج میسا چوسٹسمیں قائم اووا سائنس (Ovascience) نامی بائیو ٹیکنالوجی کی کمپنی میں بھی اس پر کام ہورہا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ان کے ایڈوائزری بورڈ میں دنیا کے چند بہترین تولیدی ڈاکٹرز شامل ہیں۔
یہ تمام بحث ثابت کرتی ہے کہ وراثتی بیماریوں کے حامل جینز کے بغیر، بچوں کی پیدائش ممکن ہے اگر عورت کے تولیدی انڈے اور مرد کے تولیدی مادے کے ڈی این اے کا علاج کرناممکن ہو تو ان خلیوں کو تولیدی کلینک(IVF Clinic) میں عمل کشید کے ذریعے جنین اور پھر بچے کی پیدائش کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ(CRISPR-Cas9) استعمال کرتے ہوئے ابتدائی مرحلے میں ہی آئی وی ایف کلینک میں جنین کے ڈی این اے میں براہ راست تبدیلی کی جاسکے۔
اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ جرم لائین انجنیئرنگ کسی کے تصور سے بھی زیادہ آگے بڑھ رہی ہے۔ مرلے برجر(Merle Burger) کا کہنا ہے کہ آپ جو بات کر رہے ہیں وہ تمام انسانیت کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ برجر کہتا ہے کہ ہمارے شعبے میں یہ بہت بڑا کام ہے تاہم اس نے پیش گوئی کی کہ شدید وراثتی بیماری میں ملوث جینزکی مرمت کرنے کو عوام میں بڑے پیمانے پر سراہا جائے گا لیکن اس سے ہٹ کر ٹیکنالوجی کا استعمال عوامی ہنگامے کا سبب بنے گا کیونکہ ہر کوئی چاہے گاکہ اس کا بچہ ہر طرح سے مکمل ہو۔ لوگ شاید آنکھوں کے رنگ یا پھرذہانت کا انتخاب کریں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے متعلق ہم ہر وقت باتیں کر تے رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ(CRISPR-Cas9) استعمال کرتے ہوئے انسانی جنینمیں ترمیم کرنا کتنا مشکل ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ بہت آسان ہے ہر وہ سائنسدان جو مرکب سالماتی بائیولوجی(Molecular Biology)میں مہارت کا حامل ہے اور جانتا ہے کہ جنین کے ساتھ کیسے کام کرنا ہے وہ یہ کام کرنے کا اہل ہے۔ یہ بات یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی بائیولوجسٹ جینفر ڈوڈنا(Jennifer Doudna) نے کہی وہ2012ء میں جینز میں ترمیم کو دریافت کرنے میں معاون تھی۔
یہ جاننے کیلئے کہ ایسا کس طرح ہو سکتا ہے، میں دماغی تحقیق سے متعلق ایم آئی ٹی کے میک گوورن انسٹی ٹیوٹ کے بائیو لوجسٹ گوپنگ فینگ(Guoping Feng)سے ان کی لیبارٹری میں ملا جہاں پر مارموسیٹ (Marmoset) بندروں کی ایک کالونی قائم کی گئی ہے تاکہ ان پر(CRISPR -Cas9)استعمال کر کے انسانی دماغ کی بیماریوں کے مکمل ماڈل تشکیل دئیے جا سکیں۔ ان ماڈلز کو تخلیق کرنے کیلئے فینگ بندروں جنین کے ڈی این اے میں ترمیم کرے گا اور تب وہ اسے مادہ بندر میں منتقل کر دے گا تاکہ زندہ بندر حاصل کئے جا سکیں۔ فینگ نے ایک جین شانک تھری(Shank 3)کو بدل کر جانوروں میں داخل کیا۔ یہ جین عصبیوں (Neurons) میں ابلاغ کرنے میں مدد دیتا ہے یہ جین تباہ ہونے کی صورت میں بچوں میں خود تسکینی(Autism)کا سبب بنتا ہے۔
ماہرین نے(CRISPR-Cas9)ٹیکنالوجی کی مدد سے جین کو تقسیم کرنیوالاخامرہ(Enzyme) متعارف کروایا ہے جو مالیکیول کی رہنمائی کرتا ہے۔ ایک خلیہ میں غیرمعمولی اشتراک والے حروف اے، جی، سی اور ٹی والے ڈی این اے داخل کریں اور تب وہ جینن میں موجود ہدف کو کاٹ کر تبدیل کریں گے۔ (CRISPR-Cas9) سسٹم کو بندروں میں داخل کرنے کیلئے فینگ کے طلباء صرف تولیدی انڈوں کے زائی گوٹ (Zygot) میں ایک کیمیکل داخل کرتے ہیں یہ جنین کی تقسیم سے ذرا پہلے کا مرحلہ ہے۔
فینگ کا کہنا ہے کہ بیضہ دانی میں سی آر آئی ایس پی آر کی مدد سے بیمار جین کو 40 فی صدمعذور یا ختم کیا جا سکتا ہے جبکہ خصوصی ترمیم یا ڈی این اے کے حروف کو تبدیل کرنا، کم نتائج دیتاہے۔ کسی شخص کی طرح، بندر میں بھی زیادہ تر جینز کے دو جوڑے ہوتے ہیں جو والدین میں سے ایک ایک ملا ہوتا ہے۔ بعض اوقات دونوں جینز میں ترمیم ہو جاتی ہے بعض اوقات صرف ایک میں ہوتی ہے یا پھر کسی ایک میں بھی نہیں ہوتی۔ قریباً آدھے جنین پیدائش کے عمل کیلئے زندہ رہتے ہیں اور ان میں سے اکثر میں ترمیم شدہ ڈی این اے کے خلیے موجود ہو سکتے ہیں اور کچھ میں نہیں ہو سکتے۔
جب فینگ کو ایم آئی ٹی کی نسل کشی کی کالونی سے بندروں کے تولیدی انڈے مل جائیں گے تو اس کیلئے یہ ناقابل حل مسئلہ نہیں رہے گا۔ وہ ان کی مدد سے بہت سے جنینبنانے کا اہل ہو جائے گا۔ تاہم انسانوں میں اس کے خاصے مسائل ہیں۔ ایم آئی ٹی کا بائیولوجسٹ رڈولف جینسک (Rudolf Jaenisch)انسانی ترمیم شدہ جنین بنانے کی کوششوں کو مکمل طور پر خام قرار دیتا ہے۔ جینسک نے اس ٹیکنالوجی پر فینگ کے ساتھ کام کیا اور 1970ء کی دہائی میں تبدیل شدہ جین کا چوہا تخلیق کیا، اسے امید ہے کہ یہ تحقیقی دستاویز مسترد ہو جائے گی اور شائع نہیں ہو گی۔ وہ کہتا ہے کہ یہ صرف سنسنی خیزی ہے جو چیزوں کو گھما دیتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کام ممکن ہے لیکن کیا اسکا عملی استعمال ہو سکتا ہے؟ مجھے اس پر شبہ ہے۔
جہاں تک فینگ کا تعلق ہے اس نے مجھے بتایا کہ اس نے جرم لائین انجنیئرنگ کے نظرئیے کی منظوری دیدی ہے۔ کیا ادویات کا مقصد یہ نہیں کہ تکلیفیں دور ہوں؟ ٹیکنالوجی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس کا خیال ہے کہ ترمیم شدہ جینز کا انسان ابھی 10 سے 20 سال دورہے۔ کوئی بھی انسانی جنین جو (CRISPR-Cas9)سے بدلا گیا ہے اس کیلئے یہ خطرہ موجود ہے کہ اس کا جینن غیر متوقع طریقے سے تبدیل ہو جائے۔
بوسٹن میں ایک اور جگہ سائنسدان جرم لائین کے ایک دوسرے نظرئیے پر کام کر رہے ہیں۔ اس میں حکمت عملی سے سی آر آ ئی ایس پی آر اور سادہ بنیادی خلئے(Stem Cell) کے چھپے ہوئے رازوں کو جمع کرتی ہے۔ چرچ سمیت بہت سے سائنسدان سوچتے ہیں کہ وہ جلد لیبارٹری میں سادہ بنیادی خلئے سے تولیدی انڈے اور تولیدی مادہ حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ جنین کے برعکس سادہ بنیادی خلئیوں کو بڑھایا اور ان میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ تب وہ وسیع پیمانے پر بہتر طریقے سے سی آر آئی ایس پی آر ٹیکنالوجی سے ترمیم شدہ جینز والے بچے کی تخلیق کر سکتے ہیں۔ اس کی ترکیب کچھ اس طرح ہو گی: پہلے سادہ بنیادی خلئے کے جین میں ترمیم کی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں انھیں تولیدی انڈے یا تولیدی مادے میں بدلا جائے گا اور تیسرے مرحلے پر بچے کی پیدائش کا عمل ہو گا۔
سنکلیئر نے پیش گوئی کی ہے کہ صحیح انڈے اس پوزیشن میں ہیں کہ انھیں کب استعمال کیا جائے وہ اگر مگر کی حالت میں نہیں۔ ایک بار ٹیکنالوجی نے کام شروع کر دیا تو بانجھ عورت سینکڑوں کے حساب سے تولیدی انڈے دینے کے قابل ہو جائے گی اور ممکن ہے سینکڑوں کی تعداد میں جنین بھی ہوں۔ جینز کا جائزہ لینے کیلئے ڈی این اے کی ترتیب کو استعمال کرتے ہوئے وہ ان میں سے صحت مند ترین جین کو لے سکتے ہیں۔
ٹیلی (Tilly) نے بتایا کہ یہ آگ سے کھیلنے والا معاملہ ہے۔ لیبارٹری میں وراثتی جینیاتی بیماری سے نجات حاصل کرنے کیلئے اس وقت (CRISPR-Cas9)ٹیکنالوجی کے ذریعے سادہ بنیادی خلیے کے تولیدی انڈوں میں ترمیم کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ٹیلی نے اس بات پر زور دیا کہ تاحال دو الجھنوں کا سامنا ہے جن میں ایک سادہ بنیادی خلیوں کا معاملہ ہے اور دوسرا جین میں ترمیم ہے۔ سادہ بنیادی خلیوں کے انڈوں کو بڑی تعداد میں تخلیق کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا خاصا مشکل ہے کیونکہ سی آر آئی ایس پی آر کے استعمال سے ایک محدود تعداد کے خلیوں میں ہی جینیاتی تبدیلی پیدا کی جا سکتی ہے۔جس سے ڈی این اے کے حروف کو ترتیب دینا اور تولیدی انڈوں کی پیداوار سے پہلے غلطیوں کو درست کرنے کیلئے ان کی نہایت احتیاط میں دیکھ بھال کرنا شامل ہے۔
ٹیلی نے پیش گوئی کہ ،خواہ یہ تجربہ اس کی لیبارٹری میں ہو یا دیگر کمپنیاں کریں ،شروع سے آخر تک ٹیکنالوجی کے اس عمل میں خواہ وہ سادہ بنیادی خلیوں یا ان سے تولیدی مادے یا تولیدی انڈوں کی تخلیق ہو اور پھر ان سے بچوں کا حصول ہو، اس کا اختتام بالآخر پہلے جانوروں پر کام کرنے سے ہو گا۔
اگر جرم لائین انجینئرنگ طبی تحقیق کا حصہ بنتی ہے تو اس سے انسانی فلاح و بہبود میں انقلابی تبدیلی آئے گی جس میں لوگوں کی زندگی کے دورانئے پر اثرات، شناخت اور معاشی نتائج شامل ہوں گے۔ لیکن اس سے اخلاقی الجھنیں اور سماجی تبدیلیاں بھی پیدا ہوں گی۔ کیا یہ سہولت صرف امیرلوگوں کو ہی حاصل ہو گی؟ امریکہ میں ایک تولیدی عمل پر 20 ہزار ڈالر خرچ اٹھتا ہے اگر اس میں جینیاتی تجزئیے، تولیدی انڈوں کا عطیہ، متبادل ماں کے اخراجات بھی شامل ہوں تو یہ خرچ 10,0000 ڈالر تک پہنچ جاتا ہے۔
سٹینفورڈیونیورسٹی میں پڑھانے والا ہینک گریلی (Hank Greely)کہتے ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کس طرح اچھا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ متاثرہ بیضہ دانی کے ڈی این اے کا تجزیہ کرنا اور اس سے صحت مند تولیدی انڈے حاصل کرنا تو پہلے ہی ممکن ہے اور اس میں بانجھ پن کے عمل کو دور کرنے کیلئے صرف 4000 ڈالر لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر دماغی خلیوں کی بیماریHuntingtonوالا شخص اتنا تولیدی مادہ رکھتا ہے کہ وہ اپنی شریک حیات سے مل کر اپنے تخم کا اس کے تولیدی بیضے سے ملاپ کرا سکے۔ا س میں سے آدھے جینین میں ہنگٹنگٹن (Huntington) بیماری نہیں ہو گی اور یہ جنین پیدائش کے عمل کیلئے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
کیلیفورنیا میں بائیو ٹیکنالوجی کی لنگا موبائیو سائنس (Sangamo Biosciences) کے سی ای او ایڈورڈ لینفیئر(Edward Lanphier) ہیں جو ایک اور جین ترمیم کی تکنیک استعمال کرتا ہے۔ یہ زنک فنگر نیوکلینرز(Zinc Finger Nucleases) ٹیکنالوجی کہلاتی ہے۔ تاکہ خون کے خلیوں میں تبدیلی کر کے نوجوانوں میں ایڈز کا علاج کیا جا سکے۔ اس نے بتایا کہ ہم بیماری کی جڑ کو پکڑتے ہیں۔ تنقید کرنے والوں کو دراصل یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں بچوں پر تجربات نہ شروع ہو جائیں۔
والدین اس بارے میں تولیدی کلینکس کی طرف سے کی جانے والی اشتہار بازی سے متاثر ہو جائیں گے۔ جرم لائین کی انجینئرنگ خاص طور پر اعلیٰ خصوصیات کو پھیلانے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ یہ بات لوگوں میں بچوں کی پیدائش پر اثر انداز ہو گی۔ مثلاً امریکن میدیکل ایسوسی ایشن کہ جرم لائین انجینئرنگ پر اس وقت کام نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس سے مستقبل کی نسلوں کی فلاح پر اثر پڑتا ہے اور اس سے غیر متوقع طور پر ایسے نتائج سامنے آ سکتے ہیں جن کا ازالہ ہی نہ ہو سکے۔
کچھ لوگ پیش گوئی کرتے ہیں کہ ایسی طبی تحقیق کی مخالفت مشکل ہو جائے گی کیونکہ ایسا جوڑا جو بہت سی جینیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو ، وہ امکانی طور پر مناسب جنین حاصل کرنے کی حالت میں نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ایک اور امکان جرم لائین انجینئرنگ کی مدد سے بانجھ پن کا علاج ہے۔ کچھ مردوں سے تولیدی مادہ ہی خارج نہیں ہوتا جسے ہم نامردی( Azoospermia )کہتے ہیں۔ ایک وجہ جینیاتی خامی ہے جس میں کروموسوم میں موجود 10 لاکھ سے 60 لاکھ ڈی این اے کے حروف ہی نہ مل رہے ہوں۔ آسڑیا کانوجوان ڈاکٹر وارنر نیوہاسر(Werner Neuhasser)بوسٹن میں تولیدی کلینک کے نیٹ ورک اور سٹیم سیل انسٹی ٹیوٹ میں کام کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس سے ادویات بدل جائیں گی اور آپ بانجھ پن کا علاج کر سکیں گے۔
جارج چرچ کہتے ہیں کہ(CRISPR-Cas9) ٹیکنالوجی پر لوگوں کو اعتبار نہیں ہے تاہم اس کے خیال میں ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈی این اے کے حروف میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی پر کام کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ چرچ نے بتایا ہے کہ اس کی لیبارٹری میں زیادہ تر جانوروں پر تجربات توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ان کی لیبارٹری میں انسانی جنینمیں ترمیم پر کام نہیں ہو گا۔ چرچ کے خیال میں سی آر آئی ایس پی کو بیماریوں کے علاج سے ہٹ کر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
جارج چرچ(CRISPR-Cas9)کے حوالے سے وسیع پس منظر پر مشتمل ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ(CRISPR-Cas9)کا طریقہ جینز کی بیماری کو ختم کرنے سے زیادہ کارکردگی دکھا سکتا ہے۔ یہ نظام دوسرے طبی کاموں میں بھی رہنمائی کر سکتا ہے۔ چرچ سے ایک ملاقات میں چند انسانیت پرست گروہوں نے انسانی ارتقاء کے اگلے قدم میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ چرچ نے انہیں ایک سلائیڈ دکھائی جس میں اس نے 10 جینز پر مشتمل قدرتی طور پر شامل ہونیوالے عناصر ظاہر کئے، جب لوگ ان جینزکیساتھ پیدا ہوتے ہیں تو ان میں غیر معمولی صلاحیتوں یا بیماریوں کے خلاف مدافعت کرنیوالی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ان میں سے ایک جین آپ کی ہڈیوں کو اتنا مضبوط کر دیتا ہے کہ انھیں سرجیکل ڈرل سے توڑنا پڑتا ہے۔ ایک اور جین دل کے دورے کا خطرہ ختم کرتا ہے اور ان میں سے ایک جین اے پی پی (APP)پروٹین کو قابو کرتا ہے وہ الزیمر کی بیماری سے نجات دلاتا ہے۔ اس جین کی موجودگی میں لوگ بھولنے کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوتے اور بوڑھے ہو کر بھی ذہنی طور پر توانا رہتے ہیں۔
چرچ کے خیال میں لوگوں کو سی آر آئی ایس پی آر ٹیکنالوجی سے موافق جینز فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ جب ان جینز کے ڈی این اے میں ترمیم کر دی جاتی ہے تو یہ بیماریوں کے خلاف ویکسین کا کام کرتے ہیں۔ چرچ نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بچوں کے بارے میں سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا۔ انہوں نے اپنی سینتھٹک بائیولوجی کے بارے میں کتاب ری جینسز کے تعارف میں لکھا کہ انسانی بچوں کے جینیاتی طور پر بہتر بنانے کے تصور پر ہمیشہ برا تاثر دیا گیا ہے۔ انہوں نے دفاعی جینز کے اضافے کی تجویز دی ہے۔ بیماریوں سے حتمی تحفظ کا تصور یہ ہے کہ جتنی جلدی علاج شروع ہو گا اتنی جلدی تحفظ ملے گا۔ انہوں نے ایم آئی ٹی میڈیا لیب میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیماریوں سے حتمی تحفظ اسی طرح ممکن ہو سکتا ہے جب یہ طریقہ کم قیمت، نہایت محفوظ اور قابل رسائی ہے۔ جینز میں تبدیلی کا عمل ایسے ہی ہے جیسے آپ اپنی جلد کی معمولی سی سرجری کرواتے ہیں۔
ایک سروے بتاتا ہے کہ 83 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ جنیاتی تبدیلی کی مدد سے بچوں کو زیادہ ذہین بنانے کے عمل سے ہم طبی تحقیق سے بہت دور چلے جائینگے۔ تاہم دیگر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ہمیں اعلیٰ ذہانت کے بارے میں سوچنا چاہئے ۔ آکسفورڈکے فلسفی نک بوسٹروم (Nick Bostrom) نے کمپیوٹرز میں مصنوعی ذہانت کے خطرے سے خبردار کیا تھا۔ انہوں نے بھی سوال کیا کہ کیا انسان کو اپنی ذہانت بہتر بنانے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہئے۔ ذہانت پر اثر انداز ہونے والے جینز کو ابھی اچھی طرح سمجھا نہیں گیا اور وہ دن ابھی دور ہے کہ اس سے متعلق جینز میں ترمیم کی جائے۔ یہ حقائق جینز کے بارے میں اعلیٰ ٹیکنالوجی پر تشویش اور امکانات کو کم نہیں کرتے۔
اگر ہر کوئی تھوڑا مزید ذہین ہو جائے یا چند لوگ زیادہ ذہین ہو جائیں کیا ہو جائے گا؟ بوسٹروم اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ چند ذہین ترین لوگ اپنی ایجادات، دریافتوں اور تخلیقی صلاحیتوں سے دنیا بدل سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جنیاتی تبدیلی ایک طویل مدتی منصوبہ ہے جس طرح ماحول کی تبدیلی یا قوموں کی مالیاتی سرمایہ کاری ہے۔ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے مسائل کو حل کرنے کی انسانی فطرت ایک اہم عنصر ہے۔
بعض سائنسدان کہتے ہیں کہ جنیاتی سائنس اور بائیو ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی کا مطلب ہے کہ جرم لائن انجنیئرنگ ہمارے لئے ناگزیر ہے۔ تاہم اس سلسلے میں تحفظات کو پہلے مدنظر رکھنا چاہئے اس سے پہلے کہ جنیاتی تخلیق کردہ بچہ ’’ماں‘‘ کہہ کر پکارے، ہمیں پہلے چوہوں، خرگوشوں اور بندروں پر تجربات کرنے چاہئیں کہ کیا وہ معمول کے مطابق رہتے ہیں یا نہیں لیکن جب اس کے فائدے، خطرات کو ختم کر دیں گے تو طبی تحقیق کو موقع دیا جائے گا۔
ڈوڈنا کی درخواست پر قریباً 20 کے قریب سائنسدان اور اخلاقیات کے مفکرین 24 اگست ہفتے کے روز ناپا ویلی(Napa Valley)کیلیفورنیا میں جمع ہوئے۔ وہ اس بات سے آگاہ تھی کہ سائنسدان جرم لائن انجنیئرنگ کو نظر انداز کرنے کی سوچ رہے ہیں۔ اب وہ جاننا چاہتی تھی کہ کیا ان کو کسی طرح روکا جا سکتا ہے؟
ڈوڈنا نے مجھے بتایاکہ بطورسائنسدان ہم (CRISPR -Cas9)ٹیکنالوجی کو اس کے طاقتور ہونے کی وجہ سے سراہتے ہیں۔ مسئلہ خاص طور پر انسانی جنیاتی تبدیلی کا ہے اور سراہتے اس لئے ہیں کہ اب یہ ہر کوئی کر سکتا ہے۔ اس ملاقات میں گریلی(Greely) اور پال برگ (Paul Berg) بھی شامل تھے پال برگ سٹیفورڈ کا نوبل انعام جیتنے والا بائیو کیمسٹ ہے جس نے 1975ء میں ایسی لومر کانفرنس(Asilomen Conference)کا انعقاد کیا جس میں بائیولوجسٹ میں ڈی این اے کی تشکیل نو پر اتفاق ہوا تھا۔ یہ ڈی این اے کو بیکٹیریا میں داخل کرنے کا نیا طریقہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جرم لائن انجنیئرنگ کیلئے پھر کوئی ایسی لومر جیسی کانفرنس منعقد ہونی چاہئے؟ ڈوڈنا کا تو یہی خیال ہے لیکن اس میں اتفاق رائے کے امکانات کم ہیں۔ بائیو ٹیکنالوجی پر تحقیق اب عالمی سطح پر ہو رہی ہے جس میں ہزاروں لوگ شامل ہو چکے ہیں۔
ہر کوئی جینیاتی ترمیم کی ٹیکنالوجی کے بارے میں فکر مند نہیں ہے لہٰذا تجربات کو عارضی طور پر بند ہونا چاہئے۔ گریلی نے بتایا کہ امریکہ میں بہت سی سائنسی لیبارٹریز جنیاتی بچوں کی تخلیق پر کام کر رہی ہیں۔ گریلی کہتے ہیں کہ میں تحفظ کو بہانے کے طور پر استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہوں، تاہم انہوں نے بتایا کہ وہ بعد میں ڈوڈنا کے خیال سے متفق ہوں اور انہوں نے اب ایک گروپ بنا لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں سوچتا کہ یہ کوئی بحرانی کیفیت ہے میں سوچتا ہوں کہ شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اس پر بحث کریں۔ گریلی، برگ اور دیگر سائنسدانوں نے عالمی سطح پر(CRISPR-Cas9) ٹیکنالوجی کو جینیاتی تبدیل شدہ بچوں کی تخلیق کیلئے استعمال سے عارضی طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ تجرباتی لحاظ سے اس تصور کو پرکھا جا سکے کہ آیا ایسا ممکن بھی ہے یا نہیں اور(CRISPR-Cas9)کو جینن پر بھی استعمال سے روکا جائے۔ اس پر دستخط کرنے والوں میں چرچ بھی شامل ہے۔
جیسے ہی جنیاتی تبدیلی کے تجربات کے حوالے سے خبر پھیلی بعض کمپنیوں نے محسوس کیا کہ(CRISPR-Cas9)ٹیکنالوجی پر کام لینے کیلئے انھیں آواز بلند کرنا چاہئے۔ نسان برمنگھم (Nassan Bermingham) بوسٹن میں انٹیلیا تھراپیوٹکس (Intellia Therapeutics)کمپنی میں بطور سی ای اوکام کرتے ہیں۔ انہوں نے بچوں اور بڑوں میں جینیاتی علاج کیلئے(CRISPR-Cas9)ٹیکنالوجی پر مزید کام کیلئے 15 ملین ڈالر اکٹھے کئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد جرم لائن ٹیکنالوجی کو تجارتی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا نہیں ہے اور اس کی کمپنی اپنی بنائی گئی ادویات کر تجارتی بنیادوں پر استعمال سے روک سکتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ابھی نومولود ہے اور ابھی لوگوں پر اس کے استعمال کی نوبت نہیں آئی۔
Courtesy: technologyreview.pk