رمضان کا امتحان اور ہمارا رزلٹ
(رضا علی)
رمضان کے تین امتحان ہیں: ایک دل کا، ایک دماغ کا اور آخری جسم کا- رمضان لیکن صرف آخری امتحان سے پہچانا جاتا ہے- چاہے وہ گرمی میں بھوک پیاس برداشت کرنی ہو یا رات میں تراویح کے لمبے میراتھن والے قیام۔
پہلا امتحان میں ہم چھوٹتے ہی فیل ہو گئے- یہ تھا احترام رمضان کا قانون- رمضان آپ پر اس لئے فرض کیا گیا تھا کہ آپ اپنے دل پر قابو رکھیں اور دوسروں کا احترام کریں، بجائے یہ کہ دوسروں سے احترام کی ڈیمانڈ لے کے بیٹھ جائیں- کوئی بچہ ہے، کوئی بوڑھا ہے، کوئی بیمار ہے، کوئی غیر مسلم ہے یا کسی کے پاس کوئی بھی عذر ہے- وہ اگر کھاتا ہے تو کھائے، آپ اپنے نفس پر قابو رکھیں اور جو روزہ الله کے لئے اور اپنا تقویٰ بڑھانے کے لئے رکھا ہے اس کا مقصد پورا کریں- یہ کیا ہے کہ اپنے روزے کے لئے اوروں کے لئے عذاب جان بن گئے- ایسا لگتا ہے کہ روزہ نہیں رکھ رہے احسان کر رہے ہیں دنیا پر- روزہ الله کے لئے رکھا ہے، امید جنّت کی ہے، لیکن تکلیف کا تاوان اور خراج دوسروں سے لینا ہے- بھوک پیاس سے لوگ پہلے ہی اکھٹے ہی ہوتے ہیں، صرف سر پر تاج رکھنے کی دیر ہے، کیوں کہ بادشاہی تو رویے میں آ گئی ہے- تقویٰ تو خوف خدا کا نام تھا اور لوگ خود خدا بننے لگے۔
عقل کا امتحان ہمارے علماء پر تھا اور وہ بھی فیل ہو گئے۔ پھر دو مختلف دن رمضان کا اعلان کر دیا- پھر لوگ روئیں گے الگ دن کے روزے، مختلف تراویح، اور آخر میں لازمی دو عیدیں تو ہوں گی ہی- چاند جیسا حل مسئلہ آج بھی ہمارے لئے مصیبت بنا ہوا ہے- آنکھ سے دیکھنا ایک روایت ہے- کوئی کہے گا کہ یہ سنّت ہے، لیکن نسل در نسل اس کو اپنی اصل حالت میں سوچے سمجھے بغیر چلانا روایت ہے- لوگ پھر یہ سوال نہیں کرتے کے مقصد کیا ہے، بس کرتے چلے جاتے ہیں۔
جب بحث ہو گی تو لوگ فورا حدیثیں لے آئیں اور کہیں گے یہاں تو لکھا ہے کے آنکھ سے دیکھو اور قابل اعتماد گواہ لے کر آؤ- سوال یہ نہیں ہے کے ‘کیا’ لکھا ہے- سوال یہ ہے کے اس کے علاوہ بھی اور کیا لکھا ہو سکتا تھا؟ جس وقت جو بات کہی جائے گی وہ اپنے موقع محل کے حساب سے ہی کی جائے گی- جب آنکھ سے ہی دیکھنا پریکٹیکل تھا تو لوگ آنکھ سے ہی دیکھیں گے اور گواہی ہی تصدیق ہو گی- اگر اور کوئی ذریعہ موجود ہوتا، جو بہتر ہوتا تو وہی اپنایا جاتا- اب سائنس نے اسے اطمینان کی حد تک حل کر دیا ہے- اس سے بہتر اب کوئی چاند نہیں دیکھ سکتا، بلکہ دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں، تو پھر احسان کے قرآنی اصول پرعمل کرتے ہوئے موجودہ احسن ترین طریقے کو اپنائیں۔
لیکن پھر روایت کہاں جائے گی اور یہاں مسئلہ خراب ہو جاتا ہے- کچھ لوگ اس میں یہ مسئلہ بھی اٹھا دیتے ہیں کہ آنکھ سے دیکھنا ہرجگہ اور ہر شخص کے لئے کام کرتا ہے- تو پھر ہمیں لاؤڈ سپیکر بھی چھوڑ دینے چاہئیں اور آواز لگانی چاہئے- گاڑی، بس اور موٹر سائیکل بھی چھوڑ دیں اور جانور پر سوار ہو جائیں- یا ٹانگیں تو عام طور پر سب کی کام کرتی ہی ہیں- روایت میں بھی آخر لوگ اپنی آسانی دیکھ ہی لیتے ہیں۔
رمضان کا تیسرا جسمانی امتحان ہے- برطانیہ میں اس سال اٹھارہ گھنٹے کے روزے ہیں- دن کی یہ لمبائی صرف پہلے روزے کی ہے اور آگے بڑھ کے یہ ایک گھنٹہ اور ہو جائے گی- کیونکہ یہ غیر مسلم ملک ہے اس لئے یہان آپ کو کوئی روزے داری کی رعایت نہیں ملتی- کوئی احترام رمضان بل نہیں ہے- وہی آٹھ گھنٹے جو عام دنوں میں کام کرنا ہوتا ہے، رمضان میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ آپ اپنا کام کر رہے ہوں گے اور برابر والا چائے پی رہا ہو گا- جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گا تو وہ اپنا لنچ نکال کے بیٹھ جائے گا- آپ کے رات کی نیند پوری ہو یا نہ ہو یہ آپ کا مسئلہ ہے- آفس بھی وقت پر آنا ہو گا اور کام میں کوئی کوتاہی بھی نہیں ہو سکتی۔
لیکن لوگ بہت ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں اگر آپ انہیں بتا دیں کے آپ روزے سے ہیں- کچھ اداروں میں باقاعدہ ایچ آر HR ڈیپارٹمنٹ ای میل بھیجتا ہے کے کل سے آپ کے مسلمان کولیگ colleague روزے رکھیں گے اس لئے ان کا احترام کریں اور جہاں تک ہو سکے ان کے ساتھ رعایت سے کام لیں- لیکن یہ ایک انفرادی اپیل ہوتی ہے- آپ کے لئے برابر والا اپنا معمول تبدیل نہیں کر لے گا- اگر آپ نے رمضان کو اس کی اصل میں دیکھنا ہو تو یہاں دیکھیں۔
یہ کیا کے رمضان آتے ہی کام کے اوقات پونے کر دے اور اس میں کام بھی آدھا کرنا- بیچ میں لمبی ظہر پڑھنے نکل جانا- منھ بنا کر بیٹھے رہنا، بات بات پر اکھڑ جانا کہ دیکھتے نہیں دنیا والو میں روزے سے ہوں- روزے کے ساتھ اسپیشل ٹریٹمنٹ اپنا حق سمجھنا- دن سو کے گزارنا اور پھر شام میں کھا کھا نے نڈھال ہو جانا- روزہ تو اس لئے فرض کیا تھا کے اپنی ساری ذمّےداریاں نبھاتے ہوئے، اور پوری طرح سے نبھاتے ہوئے، اپنے اندر اخلاق اور تقویٰ پیدا کیا جائے- رمضان کی مشکلات الله کے لئے اٹھانی تھیں، یہ اضافی اور انفرادی بوجھ تھا جس کا صلہ دینے کا وعدہ بھی الله ہی نے کیا تھا، اور لوگ دنیا سے امید لے کے بیٹھ گئے۔ ہو گئے نہ پھر یہاں بھی فیل۔