آزادی اظہار کے خلاف کریک ڈاؤن

اللہ بخش راٹھور (اے بی راٹھور)
اللہ بخش راٹھور، صاحب مضمون

آزادی اظہار کے خلاف کریک ڈاؤن

(اللہ بخش راٹھور)

ترجمہ: ابراہیم صالح

پاکستان میں نظریہ پاکستان ہو یا انسانی حقوق کی بابت دیگر معاملات یہ کچھ ایسے الجھے ہوئے موضوعات ہیں جن کی وضاحت آج تک کوئی حکومتی دانشور نہیں کر پایا ۔ اب ایک بار پھر حکومتی سطح پر اظہار کی آزادی کے خلاف یہ کہہ کر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے کہ ڈان لیکس کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کے سب سے اہم ادارے کے خلاف مہم شروع کی گئی ہے۔ اس کریک ڈاؤن کا شکار حکمران پارٹی مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے سوشل بلاگرز اور نیٹ استعمال کرنے والے بھی ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر پارٹیوں کے اور عام سوشل میڈیا استعمال کرنے والے کئی افراد جیل یاترائیں تک کر رہے ہیں،جسکی بابت مکمل معلومات ظاہر نہیں کی جا رہیں۔

اس وقت دنیا میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد تین3 ارب 77 کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد دو2 ارب 88 کروڑ ہے۔ جبکہ 2017 کے دوران پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد چار4 کروڑ 40چایلس لاکھ کے قریب ہے اور جس میں سے اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ چوھدری نثار علی کئی بار برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان میں مادرپدر آزاد سوشل میڈیا کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کے مطابق بلاگرز اور نیٹ یوزرز جو فوج کے خلاف مہم چلا رہے ہیں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم کی شروعات کر دی گئی ہیں۔ دوسری طرف سینیٹ اور قومی اسمبلی میں حکومت کے ان اقدامات کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت سائبر کرائم کے قنون کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ اس سے قبل جب نوجوانوں کے ایس ایم ایس کے استعمال پر پابندی یا اسے محدود کرنے کی بات سامنے لائی گئی تھی توسینیٹ کے سابقہ ڈپٹی چیئرمین جن کا تعلق بلوچستان سے تھا انہوں نے اس تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے یہاں نوجوانوں کی تفریح کی سہولیات پہلے ہی ناپید ہیں اگر ایسی پابندیاں لگائی گئیں تو اس کے الٹے نتائج ظاہر ہوں گے۔ اس وقت سول میڈیا کے خلا ایسے ہی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جیسے انگریزوں اور فوجی آمریتیوں کے ادوار میں فوجداری قوانین توڑنے کے الزمات لگا کر لوگوں کو بے گناہ قید کیا جاتا تھا اور ان قوانیں کا سیاسی دشمنوں کے خلاف اطلاق کیا جاتا تھا۔ کسی دور میں تو مویشی چوری کے الزامات لگا کر مخالفیں کے مویشی سرکاری باڑوں میں ھڑپ لیئے جاتے تھے۔ اور بڑے بڑے لوگوں کے خلاف گائے اور بھینسوں کی چوری کے مقدمات درج ہوتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح اب سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں کو مختلف الزامات لگا کر چوھدری نثار کے باڑوں میں بند کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں فوجداری قوانیں کا سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اسے سیاسی مخالفین کو سزائیں دلوانے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔ میڈیا سے تعلق کی بنا پر ہمیں یہ سبق پرائمری ہی میں پڑھایا جاتا ہے کہ ملک کے اہم اداروں جیسے فوج، عدلیہ اور حساس ادارووں سمیت مذھب کے خلاف کوئی بھی بات نہیں لکھی جا سکتی۔ اگر ان حساس معاملات پر کچھ لکھا بھی گیا ہو تو اس بابت سینیئرز سے مشاورت کی جائے یا متعلقہ قوانین کے ماہر وکلا سے بات کی جائے اور اسی طرح سے ہی پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کے آؤٹ لیٹس کو بچایا جا سکتا ہے اور منسلکہ صحافی کو تحفظ دلوایا جا سکتا ہے ۔ لیکن گذشتہ کچھ سالوں سےسوشل میڈیا کچھ اتنی تیزی سے پروان چڑھا ہے کہ اس کا شکار ہو کر کئی مالک کی حکومتیں گھر بھیجی جا چکی ہیں۔ یہ سوشل میڈیا ہی کی کرامت تھی جو عرب اسپرنگ کے دوران لاکھوں کی تعداد میں عوام کو سڑکوں پہ لے آئی اور انہوں نے تیس تیس سالہ پرانے آمروں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا جس کی ایک مثال مصر بھی ہے ۔ اس لہر سے وہ عرب ممالک بھی متاثر ہوئے جہاں اظہار رائے پر سخت ترین بندش لاگو ہے اور جہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی تھی۔

ہمارے یہاں پاکستان میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے اور اس کی آزادی کے تعین کی بابت ’اینٹی سائبر لاز‘ اور ’رائیٹ ٹو انفارمیشن‘ جیسے قوانین سامنے لائے گئے۔ اب انہی قوانین کو حکمران اپنے مفادات کے لیئے استعمال کر رہے ہیں ۔ اس سے قبل ملک کے دستور میں اظہار کی آزادی کی ضمانت دی گئی اور یہ آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے لیکن اس کے باوجود ان حقوق کی پامالی ایک عام سی بات ہے۔ ملک کے آئین میں شامل دفعات 19 اور 19 A موجود ہیں جس میں بھی شہریوں کو مشروط اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے اور اس آزادی کا تب خاتمہ ہوجاتا ہے جب ملک کی سلامتی ، فوج ، عدلیہ کا ذکر ہوتا ہے۔ مذھبی توہین اور رسالت کا بھی خاص ذکر مذکور ہے۔ ان قوانین میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر شہری کی نیت مذکورہ اداروں کو بدنام کرنے کی ہو گی تو ان کے خلاف کاروائی ہوگی۔

اب آدمی کی نیت کے بارے میں تو صرف اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے نا۔ لیکن پھر بھی کسی عمل کو یا کسی اور چیز کو بنیاد بنا کر شہریوں کو گھیر گھار کر پھنسایا جاتا ہے۔ اس کے پس پردہ حکمرانوں یا حکومتی اداروں کی نیت کیا ہے اس بابت کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی۔ ملک کے بنیادی قوانین کی دھجیاں اڑا کر شہریوں کو جس طرح غائب کیا گیا اور ہزاروں کی لاشیں ملیں یا جنہیں مار کر ان کے گھروں کے سامنے پھینکا گیا اور یہ سب کچھ ملک کی سلامتی کے نام پر ہی کیا گیا اور یہ سب کچھ کرنے والوں کوکبھی قانون کے کٹہڑے میں لایا تک نہیں گیا۔

اس وقت پاکستان میں سوشل میڈیا کسی بھی سیاسی پارٹی سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہمارے یہاں chattering class وجود رکھتی ہے جو زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا کا جائز اور ناجائز استعمال کرتی ہے ۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں زیادہ تر پڑھے لکھے لڑکیاں، لڑکے اور گھرانے ہیں، لیکن کبھی کبھار تمام تر کاوشوں کے باوجود وہ اپنے جذبات پرقابو نہیں رکھ پاتے اور ان کے ایسے عمل کے لیئے قانون میں رعایت بھی رکھی گئی ہے۔ لیکن جب ریاست طاقت کے غلط استعمال پر اتر آئے تو شہریوں کو کیسی رعایت؟ جبکہ دوسری طرف شہریوں سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ قانون کے مطابق برتاؤ کریں۔ موجودہ سوشل میڈیا جس سے اتنی زیادہ تعداد میں لوگ وابستہ ہیں جتنی تعداد میں ملک کے جملہ ووٹ دھندگان بھی شاید ہی ہوں۔ وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جن کے ووٹ تک رجسٹر نہیں وہ بھی سوشل میڈیا پر ایک بڑی طاقت ہیں۔ یہی لوگ رائے عامہ پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کے لکھے الفاظ ساری دنیا پر وار کرتے ہیں۔ دور دراز جگہوں تک ان کی رسائی کے سبب وہ ایک ایسا بم شیل ہیں جو کسی بھی حکمران پر گر سکتا ہے۔

اس میڈیا کے آنے کے بعد روایتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی موناپلی بھی ٹوٹ چکی ہے اسی سبب سوشل نیٹ ورکنگ کو متبادل میڈیا کا نام دیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ ’وکی لیکس‘ وغیرہ نے تو وہ دھمال مچایا کہ دنیا کی طاقتور ترین حکمرانوں کو ڈانوا ڈول کر کے رکھ چھوڑا ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کی طاقتور ترین حکومتیں بھی اپنی لاکھوں کوششوں کے باوجود اس سوشل میڈیا کے جن کو قابو نہیں کر سکیں۔امرکی دستور کی پہلی ترمیم کے تحت پریس کے حوالے سے کسی بھی قسم کی قانوں سازی نہیں کی جا سکتی ۔ ہمارے یہاں توہین عدالت جیسے قوانین موجود ہیں لیکن برطانیہ جس کے آئینی نظام سے ہم متاثر ہیں وہاں بھی ڈیڑھ صدی قبل ہی توہین عدالت جیسے کئی فرسودی قوانین ختم کیئے جا چکے ہیں ۔لیکن ہم تو اب بھی غلاموں کے غلام جو ہیں ۔

اس وقت سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کی بجائے اس کے استعمال کرنے والوں کی درست تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ شہریوں کو اپنے حقوق کی بابت آگہی دینے کی ضرورت ہے۔ ایسا میکنزم ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس سے خودبخود ہی ایسا مواد بلاک ہو جائے جوواقعی ریاست مذھب یا اہم اداروں کے خلاف ہو۔ اس ساری صورتحال میں یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ کہیں یہ پابندیاں ملک میں موجود قوانین ہی کے خلاف تو نہیں؟ ملک کے حکمران چاہے لاکھ کوشش کرکے دیکھیں، چاہے ان ہزاروں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو پابند کیا جائے پھر بھی اس کا حکمرانوں کی جانب سے کہا جانے والا ’غلط استعمال‘ روکا نہیں جا سکتا۔ کروڑوں انسانوں کویہ کریک ڈاؤن کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لہٰذا انہیں ایک ذمے دار شہری کی حیثیت دلوانے کے لیئے تعلیم کی ضرورت ہے!


اللہ بخش راٹھور (اے بی راٹھور) کراچی میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ سندھی، اردو صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ بالخصوص سندھ کے سماجی، سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔