ستمبر 65 کے وہ 17 روز
لاہور کے بعد سیال کوٹ محاذ پر بھارتی فوج نے پاکستانی فوج کا نفسیاتی امتحان لیا اور سینکڑوں ٹینکوں کے ساتھ حملہ کر دیا۔ اسے دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی بڑی لڑائی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بھارتی فوج میں فرسٹ انڈین آرمر ڈویژن بھی شامل تھا جسے نا قابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ جب کہ بھارتی آرمی چیف جنرل چودھری کی 16 کیولری جس کو فخرِ ہند بھی کہا جاتا تھا وہ بھی سیال کوٹ کی جانب گام زَن تھی۔
از، حسین جاوید افروز
قوموں کی زندگی میں بسا اوقات ایسا وقت آتا ہے جب ان کی بقاء اور سالمیت داؤ پر لگ جاتی ہے اور اس وقت لمحوں میں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آگے بڑھ کر آزمائشوں کا سامنا جواں مردی سے کرنا ہے یا خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے۔
ایسا ہی کڑے وقت کا سامنا پاکستانی قوم نے ستمبر 1965 میں کیا جب ملکی سرحدوں پر آتش و آہن برسنے لگے۔
ستمبر کی یہ سترہ روزہ لڑائی پاکستانی قوم میں جذبۂِ حب الوطنی کو کچھ اس طرح سے تر و تازہ کر گئی کہ آج انھی سترہ روز میں دکھائے گئے جذبے کے پیشِ نظر ہم یومِ دفاع مناتے ہیں۔
یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری میں سب سے بڑی رکاوٹ تنازعۂِ کشمیر ہے جو کہ گزشتہ ستر سال سے حل طلب چلا آ رہا ہے۔ 1965 میں بھی جنگِ ستمبر کے پس منظر میں یہ مسئلۂِ کشمیر ہی تھا جس کی بَہ دولت دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کی بلندیوں، پنجاب کے سونا اگلتے کھیتوں اور سندھ کے ریگ زاروں میں گھمسان کا رَن پڑا۔
رن آف کَچھ، کشمیر میں ابتر حالات اور آپریشن جبرالٹر کے نتیجے میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی اس کے بعد بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو یہ کہنا پڑا، ”اب ہم اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے جب چاہیں گے۔“
یوں دونوں ممالک کے ما بین کشیدگی انتہاء کو پہنچ گئی۔ یوں بھی موسمِ برسات ختم ہو چکا تھا جو کہ دفاعی حوالے سے ٹینکوں کی نقل و حرکت کے لیے ایک رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔
بھارتی فوج کا پلان بہت واضح تھا کہ لاہور، سیال کوٹ اور قصور کی جانب سے تین اطراف سے تیز رفتاری سے حملہ کر کے پاکستان کو مکمل سرپرائز دیا جائے تا کِہ پاکستان کو مدافعت کا وقت ہی نہ مل سکے۔
یوں جنگ کا آغاز ہوا۔ بھارتی افواج لاہور کے نواح تک پہنچ گئی اور ہڈیارہ کے گاؤں پر قبضہ کر لیا۔
پاک فوج نے جوابی کارِروائی کرتے ہوئے برکی کے محاذ پر بھارتی فوجوں کے اجتماع کو نو گھنٹے تک کام یابی سے روکا جس کے نتیجے میں پاک فوج کو اپنی پوزیشن بہتر کرنے کا موقع ملا اور بھارتی پلان ڈگ مگا کر رہ گیا۔
بی آر بی نہر لاہور اور بھارتی فوجوں کے درمیان ایک مضبوط دیوار بن کر ابھری۔
یہ معرکہ میجر راجہ عزیز بھٹی نے انجام دیا جنھوں اسی محاذ پر انھوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور اس جنگ میں نشانِ حیدر حاصل کرنے والے واحد سپاہی رہے۔
دورانِ جنگ ٹائمنگ کی بہت اہمیت ہوتی ہے اسی حوالے سے وسائل استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر جارِح ملک کو مطلوبہ نتائج ایک مقررہ وقت میں نہ ملیں تو بعد میں شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
لاہور کے محاذ پر بھارتی فوج کے بڑھتے قدم رک گئے۔ اس موقع پر لاہور کے عوام نے بے مثال جذبۂِ حب الوطنی کا مظاہرہ کیا۔ حتیٰ کہ وہ پاک فوج کے ساتھ اگلے محاذوں پر جانے کی ضد کرنے لگے مگر فوج نے یہ کہہ کر بھیج دیا کہ ابھی ان کی ضرورت نہیں فوج اپنا کام کر رہی ہے۔
اگلے دو روز تک پاکستانی فوجوں نے بھارتی علاقے میں 8 کلومیٹر تک پیش قدمی کی اور کھیم کرن نامی بھارتی قصبہ پر سبز ہلالی پرچم لہرا دیا۔
لاہور کے بعد سیال کوٹ محاذ پر بھارتی فوج نے پاکستانی فوج کا نفسیاتی امتحان لیا اور سینکڑوں ٹینکوں کے ساتھ حملہ کر دیا۔
اسے دوسری عالمی جنگ کے بعد ٹینکوں کی بڑی لڑائی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بھارتی فوج میں فرسٹ انڈین آرمر ڈویژن بھی شامل تھا جسے نا قابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ جب کہ بھارتی آرمی چیف جنرل چودھری کی 16 کیولری جس کو فخرِ ہند بھی کہا جاتا تھا وہ بھی سیال کوٹ کی جانب گام زَن تھی۔
یوں اس محاذ پر پاک فوج شدید دباؤ سے دوچار تھی۔ اس نازک موقع پر پاک فوج کے جوان بم باندھے بھارتی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے جس سے بھارتی فوج کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔
اس کے ساتھ ہی پاک فضائیہ حرکت میں آئی اور یوں بھارتی پیش قدمی سیال کوٹ میں چونڈہ کے محاذ پر رک گئی۔ پاک فضائیہ نے بھارتی بری فوج کا سیال کوٹ حملے کا منصوبہ بھی خاک میں ملا دیا۔ تقریباً پچاس بھارتی ٹینک تباہ ہو گئے۔
پاک فضائیہ کے قابلِ فخر ہوا بازوں سرفراز رفیقی شہید، یونس حسن شہید نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بھارتی فوجی ہوائی اڈوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان میں آدم پور، ہلواڑہ، جموں، پٹھان کوٹ، اور جام نگر کی ایئربیس کو شدید نقصان پہنچا۔
یہی وجہ ہے جنگ کے پہلے ہفتے کے بعد بھارتی ایئرفورس کی پاکستان میں کوئی قابلِ ذکر کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس موقع پر سرگودھا کی فضاؤں میں ایم ایم عالم نے اپنے سیبر طیارے سے چار بھارتی ہنٹر طیارے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں مار گرائے جس سے بھارتی فضائیہ کا مورال گر گیا۔
جہاں ایک طرف بری اور فضائی فوج اپنا کردار نبھا رہی تھیں وہاں بحریہ نے بھی اپنے جوہر دکھائے اور بھارتی ریاست گجرات کے قریب بھارتی بحری اڈے ”دوارکا“ میں موجود ریڈار سسٹم کو پیش قدمی کرتے ہوئے تباہ کر دیا۔ اس کے علاوہ پاک نیوی کی آبدوز ”غازی“ نے بھارتی جنگی بحری جہاز ”ککری“ کو تباہ کر دیا۔ یہ سب بھارتی سمندری حدود میں ہوا۔
بھارتی بحریہ نے اس جنگ میں مزید کوئی پیش قدمی نہیں کی یوں کراچی بھارتی بحری ناکا بندی کے خطرے سے محفوظ رہا۔ پاک فوج نے سندھ کے ریگ زاروں میں بھی پیش قدمی جاری رکھی اور راجھستان کے علاقے ”مناباؤ“ میں”گدارو“ کے مقام پر بھارتی فوجی قلعے پر بھی قبضہ کر لیا۔
مجموعی طور پر اس جنگ میں پاک فوج نے 1600 مربع میل تک پھیلے بھارتی علاقے کو اپنے قبضے میں لیا۔ 446 مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارت کے قبضے میں رہا۔
یہاں یہ امر دل چسپی سے خالی نہیں کہ امرتسر کے علاقے میں جب پاکستانی فوج نے پیش قدمی شروع کی تو بھارتی آرمی چیف جنرل چودھری نے بھارتی فوج کو پسپائی کا حکم دیا، مگر ایک بھارتی جنرل ہربخش سنگھ نے ہائی کمانڈ کا حکم ماننے سے انکار کیا اور ڈٹا رہا۔
ہربخش سنگھ کی ثابت قدمی کام آئی اور امرتسر بچ گیا ورنہ بھارت کو بہت ہزیمت اٹھانا پڑتی۔ البتہ میجرجنرل نرنجن پرشاد کی بوکھلاہٹ میں اپنی جیپ اور ملٹری ڈائری پاکستانیوں کے خوف سے چھوڑ کر میدان جنگ سے فرار ہونا انڈین فوج کے امیج کو مزید داغ دار ضرور کر گیا۔
اسی طرح یہاں بی بی سی نے بھی ایک غلطی کی کہ چھ ستمبر کی صبح یہ بریکنگ نیوز دی کہ “لاہور بھارتی فوج کے قبضے میں چلا گیا ہے“ بعد میں پتا چلا بھارتی فوج تو لاہور کے سرحدوں علاقوں سے آگے بڑھ ہی نہیں پائی۔
یہ جنگ 23 ستمبر کو ختم ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں معاہدۂِ تاشقند جنوری 1966 میں ہوا۔ ایوب خان کی خواہش تھی کہ کشمیر پر کوئی ٹھوس سفارتی پیش رفت کر لی جائے، مگر معاملہ بات چیت جاری رکھنے پر ختم ہو گیا۔ یہی معاہدہ ایوب کے سیاسی زوال کا سبب بنا۔
لال بہادر شاشتری پر دورانِ مذاکرات بھارتی عوام کی جانب سے شدید تنقید کی گئی کہ وہ بھارت کا مقدمہ جان دار طریقے سے لڑ نہ سکے اس صدمے میں مبتلا ہو کر لال بہادر شاستری کی تاشقند میں ہی موت ہو گئی۔
بھارتی صحافی اور دانش ور کلدیپ نیئر نے اپنی کتاب One life is not enough میں تفصیل سے ان واقعات کو قلم بند کیا ہے۔ جنگ کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، بل کہ جنگ ملک کو تعمیر و ترقی کے راستے سے پس ماندگی اور معاشی بد حالی کے راستے پر ڈال دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان جو 60 کی دھائی میں ایک حقیقی معاشی ٹائیگر بننے جا رہا تھا وہ صنعتی، زرعی اور معاشی ترقی کے راستے سے بھٹک گیا۔
کشمیر کا مسئلہ جس کی وجہ سے یہ جنگ ہوئی آج تک حل نہ ہو سکا۔
ضرورت اس مسئلے کو انسانی، حقِّ خود ارادیت کی بنیادوں پر حل کرنے کی ہے تا کہ جنوبی ایشیاء کے اربوں غریب عوام کے مصائب کم ہو سکیں اور جو خطیر رقم ہتھیاروں پر خرچ کی جاتی ہے وہ انسانی ترقی کی فلاح کے لیے وقف ہو سکے۔