بائیس کروڑ کھائی میں
کہانی از، فاروق احمد
بل کھاتی پہاڑی سڑک پر لوگ جمع تھے۔ مجھے کسی نے فون کیا تھا۔
اور میں ویڈیو کیمرہ لیے چلا آیا تھا۔ نیوز چینل کی نوکری جو ہوئی۔
لوگ سینکڑوں فٹ گہرے کھڈ میں کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے
”کوئی حادثہ ہوا ہے؟“ میں نے ایک سے پوچھا۔
”چھ ماہ پہلے ہوا تھا.. بس گری تھی… لیکن نہ کوئی لاش ملی نہ زخمی۔“
”پھر آج یہ سب لوگ کیا دیکھ رہے ہیں؟“
”یہاں سے راتوں میں بین کرنے کی آوازیں آتی ہیں۔
اور آج تو کچھ لوگ بھی نظر آ رہے ہیں۔ وہ دیکھو …“
نیچے کا منظر بھیانک تھا۔
درجنوں لوگ خون میں لتھڑے اوپر چلے آ رہے تھے۔
اوپر کھڑے لوگ چیخیں مار کر بھاگے۔
میں کھڑا رہا ۔۔۔ اس لیے نہیں کہ تیس مار خان ہوں۔ اس لیے کہ مارے خوف کے ٹانگوں سے جیسے جان نکل گئی تھی۔
پھر وہ اوپر آ گئے۔ لوگ نہیں لاشیں ٹوٹے ہوئے جسم، کٹے ہوئے ہاتھ پاؤں، بے سر کے دھڑ۔
میں تھر تھر کانپتا رہا۔ چیخنا بھی بھول گیا تھا۔
پھر اندر کا صحافی جاگ اٹھا۔ کیمرہ آن کیا اور پوچھا:
”کیا قصہ ہے۔ آپ لوگ کون ہیں؟“
”ہم اس بس کے مرے ہوئے مسافر ہیں جو چھ مہینے پہلے یہاں سے گری تھی۔ اس گہرے کھڈے میں۔ ہزاروں فٹ نیچے۔“ ایک زندہ لاش کے مُنھ سے نکلا۔
”ک ک… کیسے۔“
”ان لوگوں کی حماقت،“ اس نے پیچھے کھڑے لاشوں کی طرف اشارہ کیا۔
مزید دیکھیے: عدم تشدد کا بیانیہ اور منظور پشتین کی مشکل از، علی ارقم
”کیسی حماقت؟…“
”ان کا ماننا تھا کہ ایسی بس میں جائیں گے جس کا ڈرائیور نیک اور راست باز ہونا چاہیے.. پھر ایک مل گیا۔“
”کیسے علم ہوا کہ نیک ہے؟“
”اس نے خود ہی بتایا تھا کہ میں ایمان دار ہوں … بڑی بڑی باتیں کر رہا تھا۔ اس لیے ہم اس کی بس میں سوار ہو گئے۔“
”پھر کیا ہوا؟“
”بس اسٹارٹ ہوتے ہی فٹ پاتھ پر چڑھ گئی۔ اسے ڈرائیونگ نہیں آتی تھی۔“
”ارے … او ہو … اچھا۔۔ پھر؟۔۔۔“ میں حیرت سے چیخ اٹھا۔
”لیکن پیچھے والی لاشوں نے کہا کہ نہیں یہ ڈرائیور راست باز ہے، اسے وقت دو… سیکھ جائے گا۔ منزل پر پہنچا دے گا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔“
”لیکن … لیکن کیا؟…“ میں نے بے تابی سے پوچھا۔
”کبھی کوئی ایسے بھی سیکھتا ہے۔
بس کھڈے میں جا گری ۔۔۔ ہم سب مر گئے .. ہمیشہ کے لیے۔“
”او ہو.. سب کے سب مر گئے… کتنے مسافر تھے بس میں؟“
”بائیس کروڑ ۔۔۔“