چوتھا معاشی انقلاب
از، معصوم رضوی
دنیا کی معشیت، کاروبار، روزگار تبدیل ہو رہے ہیں، ماضی کے بطن سے ایک نیا عالمی معاشرہ جنم لے رہا ہے۔ مواصلات کی ترقی رفتہ رفتہ ہمیں چوتھے معاشی اور ٹیکنالوجی انقلاب کی جانب لے جا رہی ہے، جدید ٹیکنالوجی نے روایتی کاروباری اداروں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ اب ملازمت کی ساخت، قابلیت اور تقاضے مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے، جو افراد اور ادارے ترقی کی اس دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے غربت، بے روزگاری اور کشکول ان کا مقدر ٹھہرے گا۔
ماضی قریب پر نظر دوڑائیں تو بے شُمار مصنوعات غائب ہو گئیں، ٹائپ رائٹرز، فیکس، ٹیلی پرنٹر، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، وی سی آر، آڈیو، وڈیو کیسٹس، کیمرے سمیت ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والی بے شمار مصنوعات رفتہ رفتہ غائب ہو گئیں کیوں کہ ٹیکنالوجی نے ان کے بہتر نعم البدل فراہم کر دیے۔
دنیا کے بڑے اخبارات اب سرکولیشن کے باعث نہیں بل کہ ویب سائٹس پر انحصار کرتے ہیں اور اسی پر اشتہارات لیتے ہیں۔ بات صرف مصنوعات غائب ہونے کی نہیں بل کہ اس سے بھی زیادہ ہے کیوں کہ یہ ان مصنوعات کو بنانے والے عظیم الشان ادارے بھی تاریخ کا حصہ بن گئے۔ مثال کے طور پر آج سے دس سال پہلے تک کوڈک دنیا کی معروف کمپنی تھی، یہ ادارہ کیمروں کے رول اور فوٹو پرنٹ بناتا تھا، اس صنعت میں دنیا کا 85 فیصد کاروبار کوڈک کے پاس تھا، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایک لاکھ ستر ہزار ملازمین، سالانہ اربوں منافع، مگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے عظیم الشان کاروبار کو نگل لیا۔
کوڈک کمپنی دیوالیہ اور لاکھوں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ یہ کہانی صرف کوڈک کی نہیں ہے بل کہ ایسی تمام مصنوعات بنانے والی کمپنیاں جو وقت کی تیزی کا ساتھ نہیں دے سکیں، ہماری زندگی سے مٹ گئیں اور ٹیکنالوجی کا آسیب دنیا پر چھاتا چلا گیا۔
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ دس سالوں میں ٹیکنالوجی دنیا کی معاشی شکل تبدیل کر دے گی، آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ Uber ، Careem اور دیگر ان جیسی کمپنیاں بغیر کسی گاڑی اور سرمایہ کاری کے دنیا کی کامیاب ٹیکسی سروس شمار ہوتی ہیں۔ Amazon اور Alibaba دنیا کے کامیاب ترین سپر اسٹورز اور جیف بیزوس اور جیک ما دنیا کے امیر ترین افراد ہیں، ان ڈیجیٹل اسٹورز پر قلم سے لے کر توپ تک ہر چیز دستیاب ہے۔
مائیکروسوفٹ، فیس بک، گوگل جیسی کمپنیاں عالمی کاروبار پر راج کر رہی ہیں۔ برطانیہ دنیا کا پہلا ملک ہے جس میں بغیر ڈرائیور کے چلنے والی روبوٹ گاڑیوں کو اجازت دی ہے، ایک اندازے کے مطابق 2021 تک برطانیہ میں بغیر ڈرائیور گاڑیاں عام ذرائع نقل و حمل کا حصہ ہوں گی، جرمنی نے بھی خود کار گاڑیوں کو سڑک پر چلنے کی اجازت دی ہے مگر ڈرائیور کے ساتھ، آئندہ دس سالوں میں دنیا میں بغیر ڈرائیور کی گاڑیاں عام ہو جائیں گی۔
ہائبرڈ گاڑیاں تو اب پاکستان میں بھی عام ہیں یعنی الیکٹرک اور پیٹرول پر چلنے کی صلاحیت کی حامل، دنیا اب الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دے رہی ہے کیوں کہ یہ آلودگی سے پاک اور بہتر کار کردگی کی حامل ہیں۔ برطانوی حکومت نے اس سلسلے میں 400 ملین پاؤنڈ مختص کیے ہیں تا کہ نہ صرف الیکٹرک کار استعمال کرنے والوں کو سبسڈی دی جا سکے بل کہ جگہ جگہ الیکٹرک اسٹیشن بھی قائم کیے جا سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ چند عشروں میں دنیا میں پیٹرول، ڈیزل جیسی مصنوعات کا استعمال کم ہو جائے گا اور الیکٹرک کاریں اور مشینری عام ہوں گی، ساتھ ہی ٹریفک یکسر نظام بھی تبدیل ہو جائے گا۔
تیل کی معشیت پر کھڑے عرب ممالک شدید مالی مشکلات کا سامنا کریں گے۔ شاید اس کے ساتھ ہی آن لائن کار سروس بھی جدید ترین خطوط پر استوار ہو جائے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بیش تر افراد ڈرائیونگ کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے اوبر یا کریم کو ترجیح دیتے ہیں، تو سوچیے اگر بغیر ڈرائیور کار مناست کرائے پر دستیاب ہو، کار میں نصب کمپبوٹر میں کریڈٹ کارڈ یا اے ٹی ایم کے ذریعے پیسے ادا کریں اور منزل کا پتا لکھ دیں اور کام ختم تو کار رکھنے کا شوق کتنے لوگ پورا کریں گے۔
مزید دیکھیے: عالمی سرمایہ داری، توانائی کی سیاست اور مشرقِ وسطیٰ
عالمی انقلاب کی طلسمِ ہوش رُبا
یہ صرف چند مثالیں ہیں، اپنے اطراف نظر ڈالیں، ماضی میں جھانکیں اطراف کا منظر اتنے غیر محسوس طور پر تبدیل ہوا ہے کہ پتا ہی نہ چل سکا، متعدد مصنوعات غائب ہو گئیں، بے یشمار نئی چیزیں زندگی میں اس طرح شامل ہو گئیں جیسے یہ ہمیشہ سے زندگی کا حصہ تھیں۔
اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ امریکہ میں IBM Watson نامی لیگل ایپ قانونی معاملات میں وکلا سے زیادہ مستند اور کہیں زیادہ سستا مشورہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، جلد ہی یورپ میں بھی اس قسم کی لیگل ایپس وکیلوں کے پیشے کو ہڑپ سکتی ہیں۔ آج امریکہ میں نوکری کا ویزہ حاصل کرنا مشکل نہیں بل کہ نا ممکن ہے مگر اگر آپ کمپیوٹر سائنس میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں تو یہ کام مشکل نہیں، ایک اندازے کے مطابق سالانہ تقریباً 70 ہزار افراد اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ماضی کے بیش تر پیشے اب کمپیوٹر کی واقفیت کے بغیر نہیں چل سکتے مگر مستقبل میں یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا، مثال کے طور پر اکاؤنٹنٹ اب بغیر کمپیوٹر کے کام نہیں کر سکتا مگر آگے چل کر چار افراد کے بجائے صرف ایک فرد کمپیوٹر سوفٹ وئیر پر کمپنی کا حساب کتاب رکھ سکے گا۔ اسی طرح کمپنی اکاؤنٹس آڈٹ کرنے کے لیے آپکو کسی کمپنی کی ضرورت نہیں پڑے گی بل کہ منظور شدہ سوفٹ ویئر کے ذریعے یہ کام نہایت آسانی سے ہو سکے گا۔ یہ صورت حال کم و بیش تمام پیشوں پر اثر انداز ہو گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ روایتی پیشے یکسر تبدیل ہو جائیں گے، جس طرح ماضی میں صنعتی انقلاب کے باعث دنیا کو شدید ترین بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا تھا بالکل اسی طرح ایک بار پھر عالمی بے روزگاری کا بحران جنم لے رہا ہے، ٹیکنالوجی کے باعث دنیا کو ایک اور معاشی بحران کا سامنا ہے۔
دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، آج کمپیوٹر سے واقفیت، سوشل میڈیا، واٹس ایپ، انسٹاگرام، فیس بک، یہ سب اب تیز رفتار پروفیشنل لائف کا ضروری حصہ ہیں۔ پاکستان میں بھی صورت حال تبدیل ہو چکی ہے، نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے نہ کاروبار کر رہے ہیں بل کہ ٹیکنالوجی کے باعث ملازمت کے نے دروازے بھی کھل رہے ہیں مگر ساتھ ہی پرانے در بند بھی ہو رہے ہیں۔
دنیا کی معشیت کروٹ لے چکی ہے، پاکستان میں بھی تبدیلی آ رہی ہے، کوئی ملک ہو ادارہ یا پھر افراد، جو اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا ٹیکنالوجی اسے کچل کر آگے بڑھ جائے گی، دوسری جنگ عظیم کے بعد یہی کچھ صنعتی انقلاب کے دوران ہوا تھا اور اب ٹیکنالوجی انقلاب دنیا کے در پر دستک دے رہا ہے۔