ستر برس میں لالی وڈ کا سفر
اگلے پندرہ سال ہماری فلم گنڈاسہ اور انجمن کے پنجاب کے کھیتوں میں ناچ گانے کے گرد گھومتی رہی۔ فلم مولا جٹ سے نکلنے والے اثرات اتنے گہرے رہے کہ اس کردار سے متأثر ہو کر کئی سو فلمیں تخلیق کی گئیں۔ ان میں یملا جٹ، پتر جگے دا، وحشی جٹ، وحشی گجر، رستم تے خان، کالے چور وغیرہ شامل ہیں۔
از، حسین جاوید افروز
فلم کو جملہ فنونِ لطیفہ آرٹ، ٹیکنالوجی اور تجارتی تقاضوں کا مجموعہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے تفریح، تعلیم، معاشرتی، سیاسی اور نظریاتی پہلووں اور مسائل کی مؤثر انداز سے عکاسی کی جا سکتی ہے۔
دنیا بھر میں فلم سازی میں ارتقاء کا سفر جاری ہے۔ فلم میکنگ کے حوالے سے جدید تصورات، جدت اور نئی ٹیکنالوجی نے فلم کی تاریخ گویا بدل کر رکھ دی ہے۔ کہاں ایک زمانے میں خطیر بجٹ کے ساتھ بڑے بڑے سیٹ لگائے جاتے تھے، اور اب تھری ڈی اینی میشنز کی بَہ دولت گویا سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ ہالی وڈ کی فلم Avatar اس کی زندہ مثال ہے۔
لیکن ہم یہاں پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ اور کئی دھائیوں پر پھیلے اس کے سفر کا جائزہ لیں گے۔ یہ سفر کام یابیوں نا کامیوں اور عروج و زوال کا ایک مجموعہ رہا ہے۔
تقسیمِ ہند سے قبل بر صغیر میں لاہور اور بمبئی فلم سازی کے بڑے مراکز کے ساتھ مکمل آب و تاب سے دمکتے رہے۔ کئی ہندوستانی فن کاروں نے لاہور سے ہی فلمی سفر کا آغاز کیا جن میں نام ور بھارتی ولن پران اور کامیڈین اوم پرکاش شامل ہیں۔
اس دور میں کپور خاندان پشاور سے ابھر کر اپنا لوہا منوا رہا تھا۔ پشاور کے ہی یوسف خان دلیپ کمار بن کر فلمی دنیا کے سب سے قد آدم اداکار بن کر ابھرے۔ لاہور کے ہی گورنمنٹ کالج کے طالب علم دیو آنند اپنے دور کے مشہور رومانوی ہیرو کہلائے۔ گویا بر صغیر کی مشترکہ فلمی صنعت پاکستان اور بھارت کے قیام سے قبل ہی اپنی ساکھ بنا چکی تھی۔
کئی مسلم فن کار، بمبئی میں اپنا مقام بنانے کے لیے اپنے نام کی قربانی بھی دے رہے تھے۔ جن میں پاکستانی فن کار کمال بھی شامل ہیں جنھوں نے بمبئی میں اپنا نام بدل کر کمل کمار رکھ لیا تھا۔
تقسیم سے قبل لاہور میں چھ سٹوڈیوز تھے۔ جہاں ہندو فلم سازوں کی اجارہ داری تھی۔ لاہور میں ڈسٹری بیوشن اداروں کی تعداد سولہ تھی جن میں مسلمانوں کے پاس صرف تین ادارے تھے۔
تقسیم کے ہنگاموں میں ایک سٹوڈیو نذرِِ آتش بھی ہو گیا۔ اور ہندو فلم ساز اپنے سامان سمیت مجبوراً ہندوستان چلے گئے۔
یوں پاکستان فلم انڈسٹری کی ابتدائی بنیادیں نہایت کم زور رہی۔ اگر چِہ پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد سنہ 1948 میں رہلیز ہوئی مگر یہ اپنا رنگ جمانے میں نا کام رہی۔
سنہ 1947 سے 1951 تک فلمی صنعت بحران کا شکار رہی۔ اس ابتدائی دور میں بھارتی فلمیں نمائش کے لیے پاکستانی سینما گھروں کی زینت بنی رہیں، مگر یہ سہولت پاکستان فلموں کو ہندوستان میں میسر نہیں ہو سکی۔ البتہ 1951 کے بعد ساٹھ کی دھائی پاکستانی فلمی صنعت کے لیے نہایت کام یاب ثابت ہوئی۔
ملَکۂِ ترنّم نور جہاں کی انڈسٹری میں موجودگی اور پُر جوش شخصیت نے فلمی صنعت کو ایک پہچان دی۔ فلم چن وے اور پھیرے کی کام یابیوں نے فلم بینوں کو سنیما کی جانب آنے پر مجبور کیا۔ اس دھائی میں مکھڑا، انتظار، کوئل، دو آنسو، سات لاکھ، کرتار سنگھ، وعدہ، پھنے خان نے ہر جگہ میدان مار لیا اور یوں فلمی صنعت کے پاؤں جمنے لگے۔
عوام سنتوش کمار، درپن کے رومانوی انداز جب کہ مظہر شاہ کی بڑھکوں اور اکمل کے پنجابی گبھرو کے روپ میں زوردار ادا کاری کے گرویدہ ہو گئے۔ صبیحہ خانم اور نیر سلطانہ کی ادا کاری اور حسن نے بھی ہر طرف دھوم مچا دی۔
سنہ 1965 کی جنگ کے بعد بھارتی فلموں پر بندش لگ گئی۔ یوں اس فیصلے کے بعد پاکستانی فلموں کو گویا خالی میدان مل گیا اور روز بَہ روز پاکستانی فلموں کی نمائش ہونے لگی۔ بلا شبہ یہ فلمی صنعت کا سنہرا دور تھا۔
ساٹھ کی دھائی میں فلم ہیر رانجھا کو بھی ایک کلاسیک کی حیثیت حاصل ہے۔ نور جہاں کی آواز، اعجاز اور فردوس کی لا زوال ادا کاری نے وارث شاہ کی ہیر رانجھا کو امر کر دیا۔ اسی طرح زرقا، یہ امن، سوسائٹی گرل، تہذیب، یکے والی اور دوستی نے بھی اپنے نقوش چھوڑے۔
سنہ 1979 تک وہ دور تھا جب ایک سال میں سو سے زائد فلمیں رہلیز ہونے لگیں۔ سٹوڈیوز کے اندر شوٹنگز زور و شور سے کی جاتی اور سٹوڈیوز کے باہر عوام کا جمِ غفیر پنے محبوب فن کاروں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے برقرار رہتا۔
کراچی میں اردو فلمیں جب کہ لاہور اردو اور پنجابی فلموں کا مسکن بن گیا۔ محمد علی کی گرج دار آواز اور ندیم اور چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کی آمد نے فلمی صنعت میں دو عظیم رومانوی ہیروز سے رُو شناس کرایا۔
ہیرا اور پتھر سے فلمی کَیرِیئر کا آغاز کرنے والے وحید مراد اپنی مردانہ وجاہت، اور گانوں کو پکچرائز کرانے کی مہارت کے حوالے سے ایک عالم کو اپنے سِحَر میں مبتلا کر گئے۔ فلم چکوری سے ندیم نے اپنا لوہا منوا لیا۔ دوسری جانب اداکار شاہد، غلام محی الدین جاوید شیخ، اقبال حسن اور اسلم پرویز بھی خود کو کام یاب ادا کار کے طور پر جمانے میں کام یاب رہے تھے۔
فلمی ادا کاراؤں میں شبنم، بابرہ شریف، رانی، عالیہ، سنگیتا، شمیم آراء اور زیبا نے بھی فلم بینوں سے اپنی ادا کاری کی خوب داد وصول کی۔
اس دور میں خاندانی موضوعات اور معاشرتی مسائل پر بہترین فلمیں سامنے آئیں۔ لیکن جب سنہ 1979 میں ہدایت کار ناصر ادیب کی فلم مولا جٹ منظرِ عام پر آئی تو اس فلم نے پاکستانی فلم انڈسٹری کا دھارا ہی بدل دیا۔ مولا جٹ کے کردار میں سلطان راہی اور ولن نوری نت کے روپ میں مصطفیٰ قریشی نے گنڈاسہ کلچر لیے ایک ہیجان برپا کر دیا۔ یہ پنجابی فلموں کے عروج اور اردو سنیما کی تباہی کا آغاز تھا۔
اگلے پندرہ سال ہماری فلم گنڈاسہ اور انجمن کے پنجاب کے کھیتوں میں ناچ گانے کے گرد گھومتی رہی۔ فلم مولا جٹ سے نکلنے والے اثرات اتنے گہرے رہے کہ اس کردار سے متأثر ہو کر کئی سو فلمیں تخلیق کی گئیں۔ ان میں یملا جٹ، پتر جگے دا، وحشی جٹ، وحشی گجر، رستم تے خان، کالے چور وغیرہ شامل ہیں۔
مولا جٹ مجموعی طور پر ملک بھر میں 310 ہفتے چلی۔ لیکن اس گنڈاسے اور برادری کلچر نے اردو فلموں کو شدید نقصان پہنچایا۔ یوں سنجیدہ اور جدت پسند فلم بینوں کے لیے اس مار دھاڑ کے لیے کوئی دل چسپی نہیں رہی۔ پنجابی فلموں کا یہ دور سلطان راہی کی موت کے ساتھ ہی 1996 میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ لیکن بلا شبہ اب فلم انڈسڑی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔ اگر چِہ شمیم آراء اور سید نور نے اس مشکل دور میں جیوا، سنگم، گھونگھٹ، ہاتھی میرے ساتھی اور منڈا بگڑا جائے بنا کر بابر علی، سعود، ریمبو، ریشم، میرا اور ریما جیسے نئے چہروں سے انڈسٹری کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کی کوشش کی۔
لیکن جلد ہی چربہ سازی کی لعنت اور بھیڑ چال کی وجہ سے فلمیں نا کام ہونے لگی۔ مجبوراً شان جیسے خوب رُو ہیرو کو بھی سلطان راہی کے بد معاش امیج کو کاپی کرنا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1996 کے بعد ملک بھر میں 1200 سنیما گھروں میں محض 150 سنیما ہی حوادثِ زمانہ سے بچ سکے۔ کئی پرانے سنیما پلازوں اور پارکنگ ایریاز میں بدل گئے۔
یہاں سنہ 1989 میں ایک تبدیلی آئی جب پاکستان فلمی صنعت کو لولی ووڈ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ یہ نام کراچی کے ایک صحافی سلیم ناصر نے تخلیق کیا۔
اگر چِہ 1998 سے 2000 تک نکاح، چوڑیاں اور مجھے چاند چاہیے جیسی فلموں نے بھی سنیما کلچر کو اَز سر نو بَہ حال کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جلد ہی لولی ووڈ کے احیاء کی کوششیں نا کام ثابت ہوئیں۔
ایک زمانے میں جس انڈسڑی میں سنتوش، حبیب، وحید مراد، ندیم، جیسے ہیروز کا طوطی بولتا رہا، جہاں الیاس کاشمیری، ہمایوں قریشی اور شفقت چیمہ جیسے ولن موجود تھے؛ جہاں منور ظریف، ننھا، علی اعجاز، رنگیلا اور لہری جیسے معروف کامیڈین نے ایک جگ کو بہلائے رکھا۔ جہاں آغا طالش، علاؤ الدین جیسے کیریکٹر ایکٹر اپنی دَم دار پرفارمنس سے سماں باندھ دیا کرتے۔ وہاں اب ویرانیوں کا راج تھا۔
اَیورنیو سٹوڈیو، باری سٹوڈیو، شاہ نور سٹوڈیو اجاڑ بیابانوں میں تبدیل ہو گئے۔ بوسیدہ مشینری، فرسودہ فلمی تکنیکی سامان اور پوسٹ پروڈکشن کی سہولیات کے فقدان نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ اور یوں نگار خانے ویران ہو گئے۔
اگر چِہ اب 2007 سے شعیب منصور کی خدا کے لیے اور اس کے بعد بول نے ایک نئی امید پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی ایک طویل سفر باقی ہے۔
پچھلے چھ سات بر سوں سے سالانہ بیس سے بائیس فلمیں ہی نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہیں جن میں یقینی طور پر اضافہ کیا جانا بہت ضروری ہے۔
آج اب کمرشل فلموں کا دور ہے اور یقیناً پچھلے پانچ چھ سال سے فلم میکنگ میں جدت پسندی دکھائی دیتی ہے اور پروڈکشن میں بھی جدید اپروچ استعمال کی جا رہی ہے۔ لیکن تا حال ہمارے سامنے ایسے کُہنہ مشق ڈائریکٹر نہیں جو ایس سلیمان، شوکت رضوی، نذر الاسلام، جاوید فاضل شباب کیرانونی اور ریاض شاہد جیسی گہرائی کے حامل ہوں۔
یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے فلم میکنگ کی باریکیوں کو سمجھنے میں مہارت حاصل کی تھی۔ اس وقت ہمیں موضوعات کی کمی کا سامنا ہے۔ فلمیں محض لَو سٹوری یا دہشت گردی کے ایشو پر ہی بن رہی ہیں۔ فلم سازوں کو سسپنس، تھرلر اور آرٹ فلموں پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ماضی میں جاگو ہوا سویرا، نیلا پربت اور مٹی کے پتلے جیسی آرٹ فلمیں فلم نقادوں میں خاصی پذیرائی کا سبب بن چکی ہیں۔ اس کے علاوہ علاقائی سنیما جیسے سندھی، سرائیکی اور معیاری پشتو فلموں کے احیاء پر بھی کام ہونا چاہیے۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں آخری سندھی فلم ہمت تھی جو کہ 1997 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔
ہمارے نئے فلم ڈائریکٹر حضرات جن کی غالب اکثریت ٹی وی سے تعلق رکھتی ہے،کو بھی فلم کو محض بارہ مسالے کی چاٹ بنانے کے بَہ جائے سکرپٹ اور سکرین پلے کی پیچیدہ نزاکتوں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے تا کِہ فلم دیکھتے ہوئے ڈرامے یا ڈاکیُومنٹری کا گمان نہ ہو۔
ایک اور اہم مسئلہ خالصتاً فلمی اداکاروں کے فقدان کا بھی ہے۔ ایسا دیکھا گیا ہے کہ اب پرانے فلمی اداکار ڈرامہ آرٹسٹ جب کہ ڈرامہ آرٹسٹ، فلم سٹار بننے کی راہ پر گام زن ہیں۔ نئے فلمی چہروں کا فقدان ہماری دوبارہ ابھرتی ہوئی نوزائیدہ فلمی صنعت کے لیے ہر گز اچھا شگون نہیں ہے۔
اداکارہ ریما کا کہنا بالکل بَہ جا ہے کہ یہ المیہ ہے کہ 2000 کے بعد معمر رانا کی آمد کے بعد سے ہم کوئی نیا سپر سٹار تلاش کرنے میں نا کام رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ملک میں فلم اکیڈیمیز کا قیام اور لولی ووڈ میں کارپوریٹ سرمایہ کاری کی جانب بھی اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ تاہم یہ امر باعثِ طمانیت ہے کہ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں ملٹی پلیکسز کی تعمیر زور و شور سے جاری ہے۔ پچھلے آٹھ نو سال سے ایک نئے سنیما کلچر کا احیاء ہوا ہے جو کہ ایک صحت مند رجحان کا عکاس ہے۔
لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملٹی پلیکسز ناظرین کے لیے پاکستانی فلموں کے مقابلے میں ہندوستانی اور انگلش فلمیں زیادہ کشش کا سبب بنتی ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ساٹھ ستر کی سنہری دھائیوں کی طرح اردو فلم ایک بار پھر اپنے فلم بِینوں کی امیدوں پر کھری اترے اور ان کو تفریح فراہم کرنے کی ہمالیائی ذمے داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل بنے۔