الزام لگ جانےکا جرم کبیرہ ۔۔۔ اداریہ
دنیا بھر میں ضابطہ فوجداری سے نا مانوس ترکیب ہمارے ہاں ایک بہت بڑا جرم بن گئی ہے۔ اس جرم کا نام کہا اور سنا جاسکتا ہے، ” الزام لگ جانےکا جرم کبیرہ “۔
ہمارے ہاں عوامی عدالت، عوام کی عدالت، عوام کیا سوچتے ہیں، عوام کیا کہتے ہیں، جیسی ترکیبیں بڑا اہم موضوع رہتی ہیں۔ بہت سے لوگ ان الفاظ کی معنویت کو صحیح اور حتمی طور پر جاننے پر اپنا اجارہ جتاتے نہیں تھکتے۔ اینکر کیا ہوں، تجزیہ کار کہیں کے ہوں، کالم کار یہاں وہاں کے ہوں، اعلٰی حضرت جو منبر افروز ہوں، پروفیسر جو روسٹرم کے سامنے ہوں، ہر کسی کو بھی اپنے تئیں رتی برابر بھی شک نہیں کہ عوام کیا کہتے ہیں۔ اس عوامی رائے کی جانکاری کے دعوؤں کے جھکڑ میں صرف عوام کو خود ہی نہیں پتا کہ وہ جو کچھ کرر ہے ہیں وہ کس بناء پر کر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں کچھ مذہبی معاملات اور مقدس ہستیوں کی بابت بھی بدقسمتی سے ایسا چلن ہوگیا ہے۔ نفرت پر مبنی مواد کو گوکہ کسی طور بھی سراہا نہیں جاسکتا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر، جس کی مرضی آئے، کسی پرالزام دھر کر مذہبی مقدسات کو اپنی ذاتی اغراض کا وسیلہ بنانے کو بھی کسی طور قابل قبول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن ناقابل قبول نام کے سانپ کب پوچھ کر یا اجازت لے اپنا ڈنگ مارتے ہے۔
اس جیسے رویوں کے سلسلے کی ایک تازہ مثال سامنے آتی ہے جب مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں عوامی عدالت لگتی ہے۔ اس کا شکار مشال خان نام کا نوجوان بنتا ہے۔ یہاں پر بھی ابھی تک کی دستیاب (سرکاری ذرائع کی) معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوامی رائے کے کچھ خودساختہ منصفوں نے ایک نوٹیفیکیشن نکالا ہے۔ اس نوٹیفیکیشن کی ایک خاص طرف کی جانب جھکی آنکھ والی نظر judgmental سے لکھی تحریر کی زبان نے “الزام کے جرم” کو واضح انداز سے پیش کیا۔ اس کے بعد عوام یک بہ یک ایک ہجوم میں metamorphose ہوجاتی ہے۔ اور وہ ہوگیا، جسے کب کا رک جانا چاہئے تھا۔
لیکن “الزام کے جرم” کا ہمارے معاشرے اور سیاست کی ثقافت میں ایک خاص بھیانک مقامو مرتبہ ہے۔ مذہب سے متعلق معاملات تو اور حساس بنا دیئے جاتے ہیں۔ مختلف ذمے دار ادارے کھڑے کھڑے دیکھتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی فوری ہجومی انصاف سے بچ جائے تو مقدمہ پیش ہوجانے پر نچلی عدالتوں کے جج خاموش ہوجاتے ہیں، یا وہ وہی فیصلہ لکھتے ہیں جو ہجوم تقاضا کرتا ہے۔ اور ہجوم کو علمی، فکری اور سماجی بالادست بتاتے ہیں کہ اصل میں وہ ہجوم کیا سوچ رہا ہے۔ ہجوم پر ایک کیفیت طاری ہوتی ہے جس میں سوچنا سمجھنا پوری طرح کسی غیر انسانی عامل اور قوت کو سونپ دیا جاتا ہے۔ یہی ہوتا آ رہا ہے اور یہی ہوا ہے۔
ہمارے ہاں سیاسی رہنما رہنمائی کرتے نہیں، بلکہ وہ اپنے آپ کو، اور اپنے فہم کو کسی اور کے سپرد کئے رکھتے ہیں۔ وہ حساس موضوعات پر انتہائی غیر حساس اعتدالی ذرہ کی صفت میں ڈھک جاتے ہیں۔ پولیٹیکل correctness کا تیل دیکھتے ہیں اور اس کی دھار دیکھتے ہیں، پھر ٹویٹ کرتے ہیں یا مذمت کرتے ہیں۔ ان کے اصول کوئی خاص نہیں، پر عادات و ضابطے مستقل ہیں۔
پر کیا کریں ہم اس بستر پر سونے کو ہی مجبور ہیں۔ مردان کا واقعہ ایسے رویوں کی کوئی ایک مثال نہیں۔ یہ معاشرے میں وحشت کے شدید تر ہوتے رجحان کا واضح پتا دیتے ہیں۔ اس بہیمانہ قتل کے سلسلے میں جو ردعمل کی بحث ہے وہ بھی پھانسیوں کی شبیہوں میں بات کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اور کچھ اردو اخباروں اور دلیل کے گھوڑوں کے شہسواروں کو اس جیسے بھیانک اور سر شرم سے جھکا دینے والے سانحات پر اٹھنے والے رنج و غم سے اپنا ایمان و دین داؤ پر لگتا نظر آتا ہے؛ وہ حسب دستور ریت میں منھ چھپا کر دفاع طالبانیت کے بعد اب اسے کسی عالمی pattern کا حصہ جتانے کی دلیل بازی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے لئے دعا کی جا سکتی ہے کہ پروردگار ان کے اندر ذرہ بھر زمینوں کے باسیوں کے درد و ہمدردی کو بھی ڈال دے۔
بہرکیف، اس مردان کے انسانیت سوز قتل جیسے فتنہ پرور مسائل و اعمال پر گفتگو اور وسیع تر مکالمے کے ماحول کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ پرکھنے اور جانچ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا معاشرے کے مختلف تانوں بانوں میں ایسی کون سی ایسی چیز ہے جو وحشیانہ رویوں کا چارہ بن رہی ہے۔
ایک چیز البتہ بہ ہرطور ہمیں باور کرنا ہوگی کہ اس طرح کی وحشیانہ کارروائیاں کسی انداز سے محض لاء اینڈ آرڈ، اور سزاؤں اور تعزیرات کی عینکوں اور اکائیوں سے دیکھنے کی متقاضی نہیں ہیں۔ بلکہ یہ معیار زندگی، ایمانی کیفیتوں کے متعلق کسی ضعف اور شکوک و شبہات کے احساس کی باہر سے اور مربیانہ وضعگی سے متعلق ہیں۔ ان رویوں کی ترویج میں ایسے بھی لگتا ہے کہ آنکھ جھپکنے میں کسی سماجی مثالیے کی حیثیت کو پا لینے کی تڑپ جاگزیں ہے۔ ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو شاید یہ خودکشیوں اور مذہبی شدت پسندیوں کےعصر میں جلد از جلد جنت کے حصول کے امکانات کو اپنے نام کرنے کی ایک جستجو ہے۔
ہمارے نظم اجتماعی اور معاشرت کو عوام کے ایک وسیع تر حصے کے اندر ضرورت سے کچھ زیادہ بڑھے ہوئے احساس گناہ کے سرطان کی نفسیاتی کیفیت کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے نئی اقدار، جن میں اچھے انداز سے جینا، اور دیگر حیات افروز ذہنی رویوں کے پالنے کو سراہنا ہوگا۔
یقیناً یہ زندگی قیمتی ہے اوریہ کچھ نا کچھ مثبت فعل سرانجام دینے کے لئے ہے، نہ کہ مر کے اور مارا ماری کرکے کسی خالص عرشی مثالی کیفیت کی جانب پہنچنے کی جستجو کرتے رہنے کو اوڑھنا پچھونا بنا لینے کو۔ اس دنیا کی زندگی کو آخرت کی کھیتی سمجھنے کے رویوں کی ترویج و تشکیل ضروری ہے نہ کہ اس کھیتی کی مٹی کو اچانک بیچ کھانے کو ہی منزل قرار دے دیا جائے۔