پانامہ لیکس ، قومی ہیجان اور دانشوری ٹیوے
(نعیم بیگ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(یہ اظہاریہ ۱۹، اپریل ۲۰۱۷.ء رات ساڑھے دس بجے لکھا گیا )
پانامہ لیکس کے بارے میں سپریم کورٹ کے اس اعلانیہ کے بعد کہ محفوظ شدہ فیصلہ ۲۰ اپریل کی دوپہر ۲ بجے سنا دیا جائے گا، پورے ملک میں ایک ہلچل سی مچ گئی ہے ۔ اس اعلانیہ کے چند گھنٹوں کے اندر ہی لاہور میں بیشتر مقامات پر وزیراعظم نواز شریف کے پوسٹرز آویزاں کر دئیے گئے ہیں ۔ جس سے مثبت تاثر کی بجائے ایک منفی تاثر فوراً ابھر آیا ہے ۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کیا وزیراعظم جا رہے ہیں؟
فیصلہ کیا ہوگا ؟یہ تو پوری قوم کل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی زبانی ہی سن سکے گی؟ تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کیس کو سپریم کورٹ کے اعلیٰ ، سینئر اور مقتدر جج صاحبان نے ۹۰ گھنٹے تک مسلسل سنا ہے ۔ اس کیس میں پٹیشنز دائر کرنے والی پارٹیوں نے اپنے اپنے نکات اپنے وکلاٗ کے ذریعے پیش کئے ۔ اس پورے کیس میں سپریم کورٹ کے ججز گاہے بگاہے اپنے ریمارکس دیتے رہے ہیں جس سے مختلف اوقات میں میڈیا اپنے دعوے کرتا رہا ہے ۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ ۱۸ مارچ کی ضمنی کاز لسٹ میں اس کیس کے فیصلے کا سن کر بیسیوں چینل اپنی محفلیں سجائے ، دانشوروں کو عوام کے سامنے لاکر ریٹنگ بڑھا رہے ہیں ۔ ہر چینل وقت سے پہلے اپنی اپنی خواہشات کے مطابق سپریم کورٹ کی مختلف وقتوں میں کئے گئے ریمارکس کی روشنی میں تاویلیں ، دلائل اور استدلال پیش کر رہا ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ وہ راتوں رات ہی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو جناتی عمل سے عوام کے سامنے پیش کردیں۔
میرٹ پر سنے گئے اس کیس کے تھیلے سے کونسی بلی باہر نکلتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا ،لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے کہ آج اس وقت پیپلز پارٹی کے کو چیرمین سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد پیش آنے والے حالات میں اپنے لائحہ عمل کو اپنے چیرمین بلاول اور دیگر رفقاٗ کار کے ساتھ طے کرنے میں مصروف ہیں ۔ دوسری طرف شام کو پی ٹی آئی کے عمران خان اپنی پارٹی کے چیدہ چیدہ عہدے داروں کے ساتھ کئی ایک ملاقاتیں کر چکے ہیں جس میں فیصلے کی منفی یا مثبت نوعیت کے باوجود عوام سے رجوع کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ۔
دوسری طرف جماعت اسلامی اور جمیت علماٗ اسلام اپنی اپنی جماعتوں کے نقطہ نظر کو ممکنہ فیصلے کے مطابق عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں۔
اب یہ ممکنہ فیصلہ ہے کیا؟ اس پر سبھی جماعتوں کا صرف اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ بھی ہو مِن و عن قبول ہوگا ۔ کوئی بھلا ان سے پوچھے کہ کیا یہ فیصلہ آپ کے کہنے سے قبولیت کا شرف حاصل کرے گا۔ عدالت عظمی کا فیصلہ ہے ۔ سبھی کو قبول کرنا ہے۔
لیکن اس وقت میں ذرا اس سے ہٹ کر کچھ عرضداشت پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اولاً کہ پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد کئی ایک ایسے سیاسی موڑ آئے کہ یوں لگا کہ جمہوری حکومت تب گئی کہ اب گئی ۔۔۔ لیکن ملٹری، سول اِن وزیبیل اختلافات کے باوجود جمہوری حکومت کو ایک ایج حاصل تھا اور عالمی جمہوریت کے ادارے اور طاقتیں پاکستان کے اندر کسی قسم کا سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نہیں چاہتی تھیں۔ان کا خیال تھا کہ اگر سخت عوامی رائے سامنے آتی ہے تو تب ایسا ممکن ہے، ورنہ جمہوری حکومت اپنے سارے کردہ ، ناکردہ جرائم کے باوجود جمہوریت کی پٹری سے نہیں اترے گی۔اس خطے کے علاقائی مفادات جہاں بظاہر چین کے لئے ساز گار ہیں، وہیں دیگر علاقائی ممالک اس ضمن میں اپنا ممکنہ رول ادا کر نا چاہ رہے ہیں ۔ وہ الگ بات ہے کہ ہندوستان اپنی شرائط پر ایسا چاہتا ہے۔ اسکی وجہ شمالی بالائی خطے کو گرم پانیوں سے ربط قائم کرنا مقصود ہے ۔ اور یہ وہ فیصلے ہیں جو اپنا ملکی تسلسل برقرار رکھیں گے بھلے کوئی بھی حکومت پاکستان میں برسر اقتدار ہو۔
ثانیاً موجودہ حالات میں ممکنہ فیصلے کی کڑیاں ملکی اندرونی حالات میں ایسے نظر آ رہی ہیں کہ متفقہ طور پر یہ طے کر لیا گیا ہو کہ نئے الیکشن سے پہلے پی ایم ایل نون کی حکومت تو رہے لیکن الزامات کی بوچھاڑ سے موجودہ حکومتی سٹریکچر کو نکال کر بذریعہ قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن نئی کیبنٹ کا اہتمام کر لیا جائے ۔ اس ضمن میں نواز شریف کا آج کا بیان بڑا واضح ہے۔ کہ حکومت رہے یا نہ رہے الیکشن اپنے وقت پر ہی ہونگے۔ یہ بیان بہت اہم ہے۔
اب چونکہ وزیر اعظم اپنے اسمبلی کے بیان کی بنیاد پر آئین کے ضوابط پر پورا نہیں اترتے تو اس کافیصلہ بھی ایوان ہی کو کرنا ہے کہ وہ خود دیکھے کہ کیا کوئی ممبر اس آئینی دفعات کے تحت نا اہل ہے یا نہیں۔ ایسی صورت میں ایوان کی مدد الیکشن کمیشن کرے گا۔
یہی وجہ تھی کہ سپریم کورٹ کے ایک معزز جج نے چند روز پہلے یہ کہا تھا کہ پانامہ لیکس پر ایسا فیصلہ آئے گا کہ لوگ صدیوں تک یاد رکھیں گے ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جمہوری تسلسل کو ماضی کی طرح اس بار نہیں توڑا جائے گا ۔ بلکہ حکومتی مرضی سے ہی نئی حکومت کا اہتمام کیا جائے گا۔
شاید یہی وجہ رہی ہو کہ پرائم منسٹر آفس میں چند روز پہلے ملازمین کو انکی ان تھک محنت کی وجہ سے روایتی آنریریا دے دیا گیا۔ عام طور پر یہ اعزازیہ اس وقت دیا جاتا ہے جب کوئی حکومت اپنی معیاد پوری کرکے معمول کے مطابق رخصت ہو رہی ہو۔ شنیدن ہے کہ سپریم کورٹ کے اس اعلانیہ کے سنتے ہی وزیر اعظم لاہور آنے کی تیاریوں میں ہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے وہ فیصلے کے وقت اسلام آباد میں شاید نہ ہوں ۔
تاہم بادلوں کی اوٹ سے سورج کل اپنی پوری تمازت کے ساتھ چمکے گا کہ ملک کی موسمی صورتِ حال ویسے ہی بہت گرم ہے اور دوپہر تک درجہ حرارت مزید بڑھ جاتا ہے ۔ دیکھئے اس بار کیا ہوتا ہے ؟ یار لوگ بہت دور کی کوڑیاں بھی سمیٹ رہے ہیں ۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.