جاں بلب معاشرہ کے لیے اشفاق احمد کا ’گڈریائی‘جام
(عزہ معین)، سنبھل ، بھارت
تغیر وتبدل کی ڈور سے مکمل کائناتی نظام مربوط ہے۔ اسی سے زمانہ کی نیرنگیاں ہیں۔ حالات کی شادابی ہے۔ علامہ اقبال نے خوب کہا ہے :
سکون محال ہے قدرت کے کارخانہ میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانہ میں
چنانچہ زمانے تبدیل ہوتے رہیں گے۔ مہ وسال ، یہاں تک کہ صدیاں بیتی جائیں گی لیکن ایک چیز ’’ہیومنٹی ‘‘ (انسانیت ) اپنے مکمل معنی کے ساتھ قیامت تک باقی رہے گی۔ادب چونکہ سماج کا آئینہ ہوتا ہے، اس لیے نوکِ قلم کے نیچے وہی موضوعات ومسائل آتے ہیں، جن سے سماج نبرد آزما ہوتا ہے۔ جس طرح علامہ اقبال نے قدرت کے کارخانے میں نیرنگیوں اور تغیر وتبدل کو ضروری قراردیا ہے ، اسی طرح ادبی افق پر بھی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں ، مگر انسانی درد اور انسانی سوز کی اپنی حقیقت مسلّم رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فنکار انسانیت کو مختلف پیرایوں میں بیان تو کرتا ہے ، تاہم انسانی درد وکسک کا رنگ نہیں بدلتا ہے۔
نفسیاتی تناظر میں دیکھیں تو ا دیب عام انسانوں سے منفرد ذہن رکھتا ہے۔ وہ حساس ہوتا ہے۔ اسے معاشرے کی وہ بیماریاں پریشان رکھتی ہیں جن کا علاج ناممکن نظر آرہا ہو۔ اس لئے اس کی تخلیقات میں معاشرہ کی بے کلی ہوتی ہے ۔ وہ بھی ایسی بے کلی اور پریشانی ، جس کا ازالہ ازحد لازم وضروری ہوتا ہے ۔ اسی لئے ادب ایک طرف جہاں سماج کا اشاریہ ہوتا ہے ، وہیں دوسری جانب جاں بلب معاشرہ کے لیے مداوا کی بھی حیثیت رکھتا ہے ۔ کیوں کہ ادب فقط ، دلجوئی اور لذت یابی کا سامان نہیں ، بلکہ ایک رازحیات اس میں پوشیدہ ہے ۔ ادب ایک فلسفۂ حیات بن کر سامنے آتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر عہد کا ادیب اپنے عہد کانباض بھی ہوتا ہے اور ناقد بھی ۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر زبا ن کے ادب کا تشکیلی دور فلسفۂ حیات لے کر نہیں آتا، بلکہ گزرتے زمانہ کے ساتھ ادب سے لذت یابی کا عنصر غائب ہوتا رہتا ہے اور لذت سے حقیقت کی طرف ایک غیر مرئی سفر کی شروعات ہوتی ہے۔ اس طرح ایک وہ دور بھی آتا ہے کہ ادیب سماج کا نوحہ گر بھی ہوتا ہے تو نباضی کا بھی فریضہ انجام دیتا ہے ۔ یہ بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ اردو افسانہ نے اپنے ابتدائی ایام سے ہی ان مسائل کو مس کرنا شروع کردیا تھا ، جو سماج کا ناسور ہیں۔ مثلاً ، پریم چند نے اردو افسانہ کے بنیاد گزار ہونے کے باوجود بھی ایسے ایسے مسائل کو پیش کیا ہے ، جو نری لذت یابی سے کوسوں دور ہیں ، بلکہ ان کے یہاں شروع سے ہی آدرش کے رویوں کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ گویا پریم چندنے بڑی شد ومد کے ساتھ انسانیت کی نفع رسانی کی وکالت کی ہے ۔انھوں نے افسانوں کے ذریعے مظلوم طبقے کو اجاگر کیا۔ اس کے غم ،اس کی مجبوریوں ،آہوں اور سسکتی بلکتی زندگی سے ادب کو واقف کردیا۔ اس کے بعدیہ روایت ومیراث سنبھالنے کے لئے مختلف فنکار میدان میں آئے اور صفحہ قرطا س پر ایک طرف جہاں ادبی موشگافیوں کو جگہ دی ، وہیں انسانیت اور رواداری کورائج کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے اور تخلیق کار کے یہاں انسانی رویوں کی پرت در پرت سامنے آتی ہیں ۔ یہاں تک کہ اکیسویں صدی کے بہترین فکشن نگار اشفاق احمد نے افسانے ’’گڈریا‘‘کی تخلیق سے ان تمام اقدار کو جو انسانیت کی پیش قدمی کرتی ہیں ،نہ صرف زندہ کر دیا بلکہ انھیں رائج کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ بدلتے زمانہ میں انسانیت اور آدرش کے رویوں کی حقیقت مسلم رہتی ہے ۔
انسانی رواداری کااظہار مختلف پیرایوں میں ہوتا ہے ۔ روادای کا تعلق ایک طرف سماج سے ہے ، وہیں فرد سے بھی ہے ۔ گویا اس طرح دیکھیں سماج کی تمام اکائیوں کو رواداری کی ڈور سے جوڑ دیا گیاہے ۔ اسی ضمن میں استاد اور شاگرد کے درمیان کی رواداریاں بھی ہوسکتی ہیں بلکہ اساتذہ اور طلبا کے درمیان رواداری میں تقدس کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ تاہم اشفا ق احمد کے افسانہ کے تحزیہ کے درمیان رواداری کے پہلو کو ہی مقدم رکھیں گے ۔ عہد حاضر میں روز بر وز متعلم کی حیثیت زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے ۔ مقام افسوس ہے کہ اساتذہ کرام کے لئے طلبا میں وہ ادب مفقودہوتا جارہا ہے جو ہماری روایات کا اہم ترین حصہ تھا۔ ماضی میں جو ادب و احترام اساتذہ کو اپنے شاگردوں سے حاصل تھا وہ آ ج عنقا ہے ۔ایسا نہیں کہ اس کے لئے صرف اور صرف شاگردہی ذمہ دار ہیں بلکہ اس کے پیچھے اساتذہ کرام کاحالیہ طریقۂ تدریس بھی کارفرما ہے۔افسانے ’’ گڈریا ‘‘ میں ہم دیکھتے ہیں کہ داؤ جی نے اپنے استاد کی کس قدر عزت کی ہے ۔اس کا ذکر آگے وضاحت سے آئے گا ۔
جس تر غیب کے لئے اس افسانے میں زور دیا گیا ہے وہ وہی طریقہ ہے جسے سرسید احمد خاں نے مغربی طریقہ تعلیم ہندوستان میں را ئج کرنے کے لئے دن رات محنت کی اورایک ایسا قابل فخر کام اپنی قوم اور اپنے ملک کے لئے کیا جس کے متعلق اس چھوٹے سے مضمون میں بات کرنا دریا نہیں سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہوگا ۔ ا س ادارے کا انسانیت کے فروغ میں کتنا حصہ ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔البتہ ہم اگر اپنے ماضی پر نظر ڈالیں تو ہمیں وہی ماحول نظر آتا ہے جہاں پچیس برس تک کسی آشرم و دیگر تربیتی اداروں میں رہنا اور ودیا ( علم ) کاحاصل کرنا اسی ہوسٹل لائف کی قدیم شکل ہے ۔ جہاں ’کرشن‘ اور’ سداما‘ تمام ذات برادریوں سے پرے صرف ایک انسا نیت کا درس حاصل کر رہے تھے۔جہاں نہ کو ئی امیر تھا اور نہ کوئی غریب، بہرحال وہ سب ماضی کا حصہ تھا ۔افسانے ’گڈریا ‘ میں اس طرح کے تمام تعصبات کو پرے رکھ کر اسماعیل صاحب نے ’ چنتو ‘ کی تعلیم پر دھیان دیا ۔عہد اور وقت کے ساتھ ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کا اثر تعلیم اور اس کے معیار پر بھی پڑا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک ادارے قائم ہوئے اور زمانہ کی ہمہ جہت شخصیات کی سرپرستی انہیں حاصل رہی۔ عصر حاضر میں بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، بنارس ہندویونیورسٹی جیسے ادارے اپنی ماضی کی روایات پر قائم رہ کر قابل فخر خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن ایسے ادارے خال خال ہی نظر آتے ہیں جو اپنی روایات کو سینے لگائے ہوئے ہیں۔ ان اداروں میں تلامذہ اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور اپنے لئے ان اساتذہ سے علم کا ایک موتی بھی حاصل کرلینے پر فخرمحسوس کرتے ہیں لیکن ان گنے چنے اداروں کے علاوہ بیش تر تلامذہ اساتذہ کے ادب سے کوسوں دور ہیں ۔
ہمارے ملک کی تاریخ میں انسانیت کے لئے سانحہ عظیم کہی جانے والی تقسیم ہند کی واردات کو،کون نہیں جانتا ۔کتنا گھناؤنا عمل تھا یہ ۔ اسی کو مرکوز نظر بنا کر ’’ گڈریا‘‘ لکھا گیا ہے۔ جس میں تقسیم ہند کے ہندوپاک پر پڑنے والے منفی اثرات کی وضاحت کی گئی ہے ۔ خصوصاً عورتوں اور بچوں پر ہونے والے مظالم کی منظر کشی کی گئی ہے ۔ ہندوستانی ثقافت اور ایک ہندو مذہب سے منسلک فرد کی مسلم ثقافت کی قدر و منزلت، انسانیت کی پاسدار ی اس افسانے کی خصوصیات میں چار چاند لگادیتی ہے ۔اس کے علاوہ افسانہ ان تمام سیاست دانوں اور ملک کے نام نہاد خیر خواہوں پر اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ ہندوستان ثقافتی اعتبار سے اتنا بھی منقسم نہیں تھا کہ جتنا تاثر ہماے سیاستدان دے رہے تھے اور جس کی بنا پر تقسیم ملک کو ناگزیر ماناگیا۔ یہ افسانہ قاری کے ذہن کواس طرف متوجہ کرتا ہے کہ علیحدگی کی مانگ کرنے والے لوگ کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار تھے یااس سچائی سے آنکھیں چرائے ہوئے تھے کہ ہندو اور مسلم خاندانوں کی مشترکہ ثقافت میں کس حد تک اتفاق تھا ۔ اس افسانے میں داؤ جی کھتری ہیں یہ ہندو مذ ہب میں دوسرے درجے کی قوم ہوتی ہے جس کے ذریعہ فوج کے فراءٗض انجام دئے جاتے ہیں ۔ اس افسانے میں واضح کیا گیا ہے کہ نیچ قوموں کو کس طرح بے عزت کیا جاتا ہے ۔انسانیت کو کیوں رسوا کیا جارہا ہے ۔
معاشرے کی بد نظمی کو اختیار میں کرنے ، اسے منظم کرنے اور انسانی رواداری کو قریب سے سمجھنے کے لئے بکری چرانے کا کام نبیوں کو سونپا گیا۔اور افسانے میں مرکزی کردار’’چنتو رام ‘‘جسے عرف عام میں ’’داؤجی‘‘کے لفظ سے مخاطب کرتے ہیںِ،بکریاں چراتے تھے۔ بکریاں چرانا سنت نبوی بھی ہے۔ اس کے پیچھے بڑی مصلحت پوشیدہ ہے ۔مختلف قسم کے انسانوں کو ایک ہی نہج پر مجتمع کرنے کے لئے یہ ایک ٹریننگ ہے جو انبیاء کرام کے لئے مخصوص کی گئی تھی ۔اس افسانے میں بھی’چنتو رام‘ جو ہندو دھرم کے معتقد، سر پہ چوٹی رکھتے اوربے وضع لنگوٹ اور کرتا پہنے جنگلوں میں ٹہلنے والے بے شعور چرواہے اورجہالت کی زندگی میں مگن رہنے والی شخصیت تھے ۔ خوش قسمت کہ ان کے گاؤں میں ایک تعلیم یافتہ بزرگ ’’اسمعیل چشتی ‘‘ جنھیں درس و تدریس کا بے حد شوق تھا ،جو اخلاق و عادات میں انسانیت کی بہترین مثال تھے ، رہتے تھے ۔ان کی ترغیب ایک چرواہے کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئی ۔اس مرد مسلمان نے صرف انسانیت کی تعلیم دی۔ اس نے کسی مذہب کی پابندی نہیں کی ۔بزرگ کی ہی وجہ سے چنتورام نے تعلیم کے بحرمیں غوطہ لگایا ،لگن ،محنت، پختگی، خلوص سے تعلیم حاصل کی ۔ایک چرواہے کے لئے یہ باعث مسرت بات تھی کہ منشی کے عہدے پر فائز ہو گیا ۔وہ چرواہا بذات خودبے حد ذہین ، ذوق وشوق سے علم حاصل کرنے والالڑکا تھا ۔متعلم کی حیثیت کو پہچان کراستاد کی بے انتہا عزت کرتا تھا اور خواہش رکھتاتھا کہ اس کے اقرباء،اس کے دوست احباب سبھی کو علم سے لگن پیدا ہو ۔اس کے لئے وہ نئے نئے طریقہ سے بچوں کو اس طرف رغبت دلاتا ۔اسے عرف عام میں لوگ داؤ جی کے نام سے جانتے تھے۔ داؤ جی کا طریقہء تدریس منفرد تھا ۔بچوں کو جتنی مطالعے سے نفرت ہوتی وہ اسی قدر ماہر نفسیات کی طرح سے بچوں کی ذہنیت سے کھیلتے تھے۔انکی طبیعت کو پڑھائی کی طرف مائل کرتے اور وہی اس افسانے کے مرکز میں اپنے ارد گرد کہانی کا جال بن رہے ہیں ۔
داؤ جی ظاہر نام سے ہندو مذہب کے ماننے والے تھے لیکن ان کی تمام تر حرکات و سکنات میں مذہب اسلام کے لئے عقیدت نظر آتی ہے۔عہد حاضر کے متؑ صب اذہان کے لئے یہ بہت اہم اشارہ ہے جو اس افسانے کے ذریعے عوام کو دیا گیا کہ انسانیت ،معاشرہ کسی مذہب کی یا کسی تعصب کی اجازت نہیں دیتا ۔ وہ ختم الرسل کو اپنا رہبر مانتے تھے ۔ ان کا مکمل رجحان مسلم معاشرت کی طرف ہے ۔ان کے کسی بھی فعل سے ایسا محسوس نہیں ہوتاکہ وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔بلکہ وہ دین و اسلام کے رنگ میں پوری طرح رنگے ہوئے ہیں ۔متعدد جملوں سے ان کی عقیدت واضح ہوتی ہے مثلا۔پہلی مرتبہ گولو سے ملنے پر اس سے سورۃفاتحہ کی تلاوت کرنے کو کہنا ،کلمے یاد ہونے کے بابت دریافت کرنا ،بیٹی کو وداع کرتے وقت لاحول پڑھنے کی تلقین کرنا ،پاؤں پر چائے کا گرم پانی گر جانے پر ذکر خدا و رسول ﷺ کے صبر سے مدد اور سکون محسوس کرنا،جن و پری کے اعتقاد پر گولو کے ذہن کی اس ساری صورت حال کو بے بنیاد قراردینا ،بیٹی کی شادی کے لئے استخارہ کرنا۔وغیرہ ایسے اشارے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ داؤ جی مسلم ثقافت کے کتنے دلدادہ تھے۔
افسانہ ایک ایسے منظر سے شروع ہوتا ہے جہاں گہری رات میں مرکزی کردار ’’داؤجی ‘‘ نیند کی وادیوں کا سفر کر رہے ’’گولو‘کووقت کی پروا کئے بنا جگا کر کچھ نصابی سوالات کرتے ہیں۔ اور انتھائی رکھائی سے جوابات دیتے ہوئے گولو ،داؤ جی کو جھڑک دیتا ہے ۔یہیں سے ان کی انسیت اور طریقہ تدریس کا احساس قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔مسلسل نالائقی اور جھلاہٹ کے ساتھ بے عزتی کرنے کے باوجودبچے کو اسی لگن سے تعلیم دینا اور اس کی طبیعت کو علم کی طرف راغب کرنے کا ہنر داؤ جی بہتر طور پر جانتے تھے۔ گولو اپنی یادوں کے ذریعہ ان کا نقشہ اس طرح کھینچتا ہے ۔
’’ وہ چٹائی بچھائے کوئی کتاب پڑھ رہے ہوتے ۔میں آہستہ سے ان کے پیچھے
جا کر کھڑا ہو جاتا اور وہ کتاب بند کرکے کہتے’’گول آگیا ‘‘پھر میری طرف مڑتے اور
ہنس کر کہتے’’ کوئی گپ سنا ‘‘اور میں اپنی بساط اور سمجھ کے مطابق ڈھونڈڈھانڈ کے کوئی
بات سناتا تو وہ خوب ہنستے ۔بس ہونہی میرے لئے ہنستے ۔حالانکہ مجھے اب محسوس ہو تا
ہے کہ و ہ ایسی دلچسپ باتیں بھی نہ ہوتی تھیں ،پھر وہ اپنے رجسٹر سے کوئی کاغذ نکال کر
کہتے لے ایک سوال نکال ۔اس سے میری جان جاتی تھی لیکن ان کا وعدہ بڑا رسیلہ ہو
تا تھا کہ ایک سوال اور پندرہ منٹ باتیں ۔اس کے بعد ایک اور سوال پھر پندرہ منٹ
گپیں۔چنانچہ میں مان جاتا اور کاغذ لے کر بیٹھ جاتا ۔لیکن ان کے خود ساختہ سوال
کچھ ایسے الجھے ہوتے کہ اگلی باتوں اور اگلے سوالوں کا وقت بھی نکل جاتا ۔‘‘
مرکزی کردار ’’داؤجی‘‘ نیک سیرت اور پر خلوص انسان ہیں ۔درس وتدریس کاہنر ان کے استاد اسمعیل کی طرف سے ودیعت ہے ۔سلام کا جواب اس خلوص سے دیتے ہیں کہ بار بار سلام کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے ۔ان کے کردار سے وابستگی درس و تدریس کے ذریعہ ممکن تھی اسی لئے گولو ان کے گھر سب سے پہلے کتاب لینے گیا ۔ داؤ جی باتوں باتوں میں بڑے اہم سبق دیتے ہیں ۔پہلی مرتبہ اپنے گھر گولو کو دیکھ کر پوچھا؛
’’آفتاب کا خط آتا ہے ‘‘
’’ آتا ہے جی ‘‘، میں نے ہولے سے کہا ’’ پرسو آیا تھا ‘‘
’’کیا لکھتا ہے؟ ‘‘
’’ پتہ نہیں جی ،ابا جی کو پتہ ہے ‘‘
’’اچھا ‘‘ انھونے سر ہلا کر کہا ۔تو ابا جی سے پوچھا کر نا !جو پوچھتا نہیں اسے کسی بھی
بات کا علم نہیں ہو تا ۔‘‘
معاشرے کی اصلاح کے لئے تخلیق کیا گیا ادب ہی قاری پراثر انداز ہوتا ہے۔ متاثر کن تخلیق میں زبان پر عبور ہونا ضروری ہے۔ افسانے میں زبان سے ادا کئے گئے مکالمات بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ اشفاق احمد کو زبان و بیان پر مکمل عبور ہے۔ افسانے میں ہر کردار کو اس کے منصب کے مطابق زبان دی گئی ہے ۔طبقہ اور عہدہ ہر فرد کی زبان متعین کرتا ہے ۔دو بھائیوں کا مکالمہ ان کے بیچ اختلافات ان کی ایک دوسرے پر سبقت لینے کی ہوڑ سب کو زبان کے صحیح استعمال کے ساتھ دکھایا گیا ہے ۔کتا ،حرامزادہ ،زبان زد گالیاں اور اصول گاؤں کے متعلق ماحول کے اعتبار سے ایک ایک فرد کو زبان کی اصلی شکل کے ساتھ متعارف کرایا ہے ۔
’’ شیخٰی خورے ،کتے‘‘وہ چیخا ۔جب میں نے کر دیا تھا تو تیری کیا ضرورت رہ گئی
تھی؟ہر بات میں اپنی ٹانگ پھنساتا ہے کمینہ ’’بھلا کون ہے وہ ؟‘‘
’’داؤجی‘‘میں نے بسور کر کہا
’’ کون داؤ جی ‘‘میرے بھائی نے تنک کر پوچھا ۔
’’وہ جو بیٹھے ہیں ‘‘میں نے آنسو پی کر کہا ۔
’’ بکواس نہ کر ‘‘میرا بھائی چڑ گیا اور آنکھیں نکال کر بولا ’’ہر بات میں میری
نقل کرتا ہے کتا شیخی خورا ۔‘‘
داؤ جی کی ہمہ گیر شخصیت ،انس و محبت انسان کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں ۔ اصل کردار معاشرے میں رہنے کا سلیقہ ان کے کردار کو خوشنما بناتا ہے ۔رنگ ،نسل ،بھید سے پرے ان کی انسان رواداری ان کے کردار کے ذریعے ایک پیغام ہے جو نسل انسانی کو دیا گیا ہے ۔دکھایا ہے درس و تدریس تعصب سے کوئی سروکار نہیں رکھتا ۔ ایک دوسری مثال داؤ جی کی شخصیت کو واضح کرنے کے لئے ۔
’’داؤ جی نے میری زندگی اجیرن کردی ،مجھے تباہ کردیا،مجھ پر جینا حرام کر دیا ،
سارا دن سکول کی بکواس میں گزرتا اور رات،گرمیوں کی مختصر رات ،ان کے سوالات
کا جواب دینے ،کوٹھے پر ان کی کھاٹ میرے بستر کے ساتھ لگی ہے اور وہ مونگ ،
رسول اور مرالہ کی نہروں کے بابت پوچھ رہے ہیں ،میں نے بالکل ٹھیک بتا دیاہے،
وہ پھر اسی سوال کو دہرا رہے ہیں ،میں نے پھر ٹھیک بتا دیا ہے اور انھونے پھر انھیں
لہروں کو آگے لا کھڑاکیا ہے ،میں جل جاتا اور جھڑک کر کہتا ’’ مجھے نہیں پتہ میں نہیں
بتاتا ‘‘تو وہ خاموش ہو جاتے اور دم سادھ لیتے۔‘‘
بے جی کے کردار سے عورتوں کی اصلاح کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ ہماری مستورات کیا ہیں ۔کہاں کمزوریاں ہیں اور کہاں ہمارے گھروں میں بیماریاں اور تعصباتی اذہان پل رہے ہیں ۔بے جی کو مخصوص عورتوں کی زبان میں لڑتے جھگڑتے پیش کیا گیا ہے ۔ان کا کردار اس روایتی عورت کی شکل میں ابھرتا ہے جو خود کفیل ہے اور گھر کے کام دھندھے کے علاوہ محلے کی عورتوں کے کپڑے سی کرگھریلو خرچ چلاتی ہے ۔اور تنگی کی وجہ سے بے جا خرچہ شاک گزرتا ہے ۔ہمیشہ گھر میں رہنے والے شوہر کی عام طور پر قدر نہیں ہوتی ۔داؤ جی کی زندگی کا بے جی والا پہلو بہت کمزور ہے وہ ہمیشہ کہا کرتے کہ ’’اس کی تو فطرت ہی ایسی ہے ‘‘ داؤ جی تعلیم یافتہ ہیں ۔ایسی باتوں کوبرداشت کرتے ہیں اور ان سب میں الجھنا ان کی فطرت میں نہیں ہے۔جب کہ بے بے کا با لکل گاؤں دیہاتوں جیسا ماحول ہے ۔ایک مرتبہ داؤ جی نے چائے بنائی۔ اتفاق سے بے بے جو ہم سائے کے گھر گئی ہوئی تھی واپس آگئی اور ۔
’’بے بے نے آگے بڑھ کر چولہے کی طرف دیکھا اور داؤ جی نے چو کے سے
اٹھتے ہوئے معذرت بھرے لہجے میں کہا ’’ چائے ہے ‘‘ !
بے بے نے ایک دوہتڑ داؤ جی کی کمر پر مارا اور کہا ۔’’ بڈھے بروہا تجھے لاج نہیں آتی ۔
تجھ پر بہار پھرے ،تجھے یم سمیٹے ،یہ تیرے چائے پینے کے دن ہیں ،میں بیوہ گھر میں نہ
تھی تو تجھے کسی کا ڈر نہ رہا،تیرے بھانویں میں کل کی مرتی آج مروں ،تیرا من راضی ہو،
تیری آسیس پوری ہو ،کس مرن جوگی نے جنا اورکس لیکھ کی ریکھا نے میرے پلے باندھ
دیا تجھے ،موت نہیںآتیاں ہوں تجھے کیوں آئے گی ۔‘‘
داؤ جی کا ایک بیٹا ’’امی چند‘‘ اور ایک بیٹی ’’قرۃالعین‘‘ جسے داؤ جی نے خوب پڑھا لکھا رکھا ہے ۔امی چند اپنی جماعت میں ہمیشہ اول درجہ حاصل کرتا ہے ۔گولو کو داؤ جی کے گھر جانے کا اتفاق امی چند کی دوستی کی ہی وجہ سے ہوا تھا ۔یہ دو نو کردار بھی کہانی کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔بی بی اپنی والدہ کے ساتھ سلائی کے کاموں میں ہاتھ بنٹاتی ہے ۔ داؤ جی عمر کی اس نہج پر بھی اپنے استاداسمعیل چشتی کا جو ادب و احترام کرتے ہیں وہ لائق تحسین ہے ۔ان کے ادب و احترام کے لئے ان جملو ں پر غور فرمائیے۔
’’جان پدر یوں نہ پوچھا کر ۔میرے استاد،میرے حضرت کی روح کو مجھ
سے بے زار نہ کر ،وہ میرے آقا بھی تھے ،میرے باپ بھی اور میرے استاد بھی ۔‘‘
’’ایک ایک فقرے کے بعد فارسی کے بے شمارنعتیہ اشعارپڑھتے تھے اور بار بار
اپنے استاد کی روح کو ثواب پہنچاتے تھے ۔‘‘
افسانے میں ماحول اور داخلی کیفیات کے پس منظر میں اخلاقی قدروں کو ظاہر کیا ہے ۔ افسانے میں ارتکازکا لحاظ رکھتے ہوئے تمام تر پلاٹ کو سانچے میں ڈھالا گیا ہے ۔چونکہ تقسیم ہند کے واقعے کو اختتام میں بے حدمتاثر کن انداز میں پیش کیا ہے ۔اس لئے پورے افسانے کا تاثر اور اس کے کہانی پن میں جگہ جگہ اس طرف ذہن کو منعطف کیا گیا ہے کہ مولوی اسمعیل اور چنتو رام کے بیچ کیا رشتہ تھا اور ہندو،مسلم مذہبیت کا اثر ان دونوں کے تعلقات پر کس حد تک تھا۔ اس بات کا ایک اشارہ ذکر استاد کے ضمن میں بھی دیا گیا ہے ۔
’’اس باغیچے میں ان کا مکتب تھا۔در فیض کھلا تھا جس کا جی چاہے آئے ،نہ مذہب
کی قیدنہ ملک کی پابندی۔‘‘
خلاصہ کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اشفا ق احمد نے اس کہانی میں جزئیات نگاری کے سہارے متعدد واقعات کو فنکارانہ انداز سے جوڑنے کی کوشش ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے پلاٹ میں کہیں بھی جھول کا احساس نہیں ہوتا ہے اور ارتکاز کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی رہتی ہے ۔ اس کہانی میں انھوں نے جہاں اصلاحی پہلوؤں کو ٹچ کیا ہے ، وہیں شعوری طور پر تقسیم وطن کا درد بھی شامل ہوگیا ہے ۔ اس طرح یہ کہانی متوازی طور پر آگے بڑھتی ہے ۔ کہیں بھی اکہرے پن کا احساس نہیں ہوتا ہے ۔ اکہرے پن والے افسانوں میں سپاٹ بیانیہ کاعمل دخل ہوتا ہے ، جس سے بعض اوقات صحافت کا بھی گمان گزرتا ہے ، لیکن کہانی نگار نے بنت میں وہ فنکاری دکھائی ہے کہ یہ کہانی متوازی طور پر آگے بڑھتی ہے اور اختتام میں فنکاری اور بنت میں جدت نظر آتی ہے ۔ ساتھ ہی موضوعاتی سطح پر اصلاحی نقطہ بھی ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ۔اگر لسانی تناظرمیں اس کہانی کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اشفاق احمد نے تجربات بھی کیے ہیں ، کیوں کہ جگہ جگہ عربی وفارسی الفاظ کا کثرت استعمال کہانی میں نیا رنگ و آہنگ پیدا کردیتا ہے تو معدودے چند مقامات پر تفہیم تھوڑی مجروح ہوتی ہے ۔ ماحول و میزان کے اعتبار سے افسانے کی کڑیوں کو ملاتے ہوئے انھوں ں نے مکالموں کو سجاکر پیش کیا ہے ، جو اشفاق احمد کی زبان پر عبوریت کی مثال بن جاتی ہے۔ان تمام خصوصیات کی بنیاد پر اشفاق احمد ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔بلا شبہ اس افسانے میں معاشرے کی تشکیل کے بہت اہم پہلوؤ ں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔