لینن محنت کشوں کا جانباز استاد
(ضیغم اسمعیل خاقان)
ممکنہ اشتراکی معاشرے کی منظرکشی بہت سے مفکرین نے کی جیسا کہ تھامس مور نے اپنی کتاب یوٹوپیا میں اس کے خدوخال بیان کیے۔ تھامس مور کو خیالی سوشلزم کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ دوسرا نام روبرٹ اوون کاہے جو ایک کامیاب کاروباری شخص تھا، جس نے سوشلسٹ سماج کی تشکیل کے لیے مختلف تجربات کیے، مختلف سوسائٹیاں بھی بنائیں لیکن ناکام رہا۔ اسی طرح اور بھی بہت سے نام ہیں جو سوشلسٹ سماج کے حامی رہے لیکن سماج کی طبقاتی ساخت کو سمجھنے سے قاصر رہے اور خلوص دل سے تجربات کرتے رہے جنھیں بہرحال سائنسی اساس نہ ہونے کے باعث ناکام ہی ہونا تھا۔ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز وہ پہلے مفکرین تھے جنہوں نے مادیت کے فلسفے کو جدلی بنیادوں پر استوار کیا،
سائنسی سوشلزم کی بنیاد رکھی اور سماج میں طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ سماج کی تشکیل کا لائحہ عمل دیا۔ اینگلز کے مطابق، “سوشلزم کسی ہوشیار ذہن کی حادثاتی دریافت نہیں ہے بلکہ دو طبقات۔ پرولتاریہ اور بورژوازی۔ کے درمیان طبقاتی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ اس کا مقصد ایک کامل معاشرتی نظام کی تشکیل نہیں بلکہ ایسے تاریخی اقتصادی واقعات و حالات کا معائنہ ہے جو ان طبقات کو جنم دیتے ہیں اور ان اقتصادی حالات میں ایسے لائحہ عمل کی دریافت ہے جو اس طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ کر سکے”۔
22 اپریل 1870ء کو روسی سلطنت کے شہر سمبرسک میں ایک ایسے ذہن کا جنم ہوا جس نے اینگلز کی اس تعریف کو عملی طور پہ ثابت کر دکھایا، جس نے مارکسزم کو ایک نئی جہت دی۔ یہ عظیم ذہن ہے ولادیمیر ایلیچ ایلیانوف جسے دنیا لینن کے نام سے جانتی ہے۔ کامریڈ لینن نے مارکسزم کو عمل کی کسوٹی سے گزارتے ہوئے کندن بنا ڈالا۔ لینن کا شمار مارکس اور اینگلز کے فکری جانشینوں میں ہوتا ہے جس نے مارکسزم کو اپنے عہد کے تناظر میں ترقی دی اور یوں مارکسزم کی سائنس میں لینن اسٹ مکتب فکر کی طرح ڈالی یہی وجہ ہے کہ سائنسی سوشلزم آج مارکسزم لیننزم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
لینن کا تعلق روس کے ایک کھاتے پیتے مڈل کلاس گھراانے سے تھا جہاں انقلابی نظریات پنپتے رہے۔ روس کے نرودنک (نراجی) رحجان سے متاثر لینن کا بھائی الیگزیندر رجعتی اور جابر زارشاہی کے خلاف لڑتا ہوا تختہ دار پر جھول گیا تھا۔ لینن کی بہن کو جلاوطنی کاٹنی پڑی، خود لینن عرصہ دراز جلاوطن رہے۔ لینن 1867ء میں مارکس سے اس وقت روشناس ہوئے جب انہوں نے مارکس کی شہرہ آفاق تصنیف داس کیپیٹل کا مطالعہ کیا۔ یہ ہی وہ نقطہ تھا جس نے روس کیا پوری دنیا کی تقدیر بدل کے رکھ دی۔ لینن نے باقاعدہ عملی سیاست میں قدم رکھا اور مارکسزم کا پرچار کرنے لگے۔ 1848ء میں مارکس اور اینگلز کی کتاب مینی فیسٹو آف کمیونسٹ پارٹی کا روسی ترجمہ کیا۔ لینن نے روسی مارکسی مفکر جورجی پیلخانوف جنھیں روسی مارکسزم کا باوا آدم کہا جاتا ہے، کا مطالعہ کیا اور سوشلسٹ نارودنک زرعی تحریک کا حصہ بنے۔ 1893ء میں لینن نے مارکسی انقلابی تحریک سوشل ڈیموکریٹس میں شمولیت اختیار کی جو کے مستقبل میں روسی انقلاب کی بانی رشین سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کہلائی۔ 1903ء میں آر ایس ڈی ایل پی کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی، بالشویک اور منشویک ۔ لینن نے بالشویک پارٹی کی راہ نمائی کی جو آگے چل کے کمیونسٹ پارٹی کہلائی۔
1917ء کے روسی انقلاب نے یہ ثابت کر دیکھایا کہ مارکسی افکار دیوانے کا خواب نہیں تھا بلکہ یہ حقیقتاً سائنسی بنیادوں پر استوار افکار ہیں جنہیں عملی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔
لینن کا اصل کام پرولتاری پارٹی کی تنظیم و تشکیل ہے۔ لینن کا ماننا تھا کہ محنت کشوں کے مفادات کی حفاظت محنت کش طبقے کی تنظیم ہی کر سکتی ہے اور ضروری ہے کہ محنت کشوں کی ایک ایسی تنظیم تشکیل دی جائے جو محنت کش طبقے کو نظریاتی و شعوری تعلیم دے، محنت کشوں کو منظم کرے اور سائنسی سوشلزم کی پیروی کرتے ہوئے پرولتاری انقلاب کی پیش رو بنے، جو استحصالی نظام کا خاتمہ کرے اور سوشلزم نافذ کرے۔ سماجی سائنس دانوں ( کیڈرز) پر مبنی لینن کا پارٹی تصور مارکسی سائنس میں ان کی بہت بڑی دین ہے۔ اسی طرح یہ لینن ہی تھے جنہوں نے سامراجی دور کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کی واضح تشریح و توضیع کی۔ لینن کی کتاب “سامراج، سرمایہ داری کی اعلیٰ سطح” اس موضوع پرایک جامع بنیادی تصنیف ہے جو سامراج، سامراجی ہتھکنڈوں اور مالیاتی سرمائے کی تفصیلی وضاحت کرتی ہے۔
لینن نے پرولتاری آمریت کو عملی طور پر ثابت کر دکھایا۔ سوویتوں کا نظام ایک جامع نظام خالصتاً پرولتاری آمریت کے اصولوں پر قائم کیا گیا۔ لینن کا پارٹی تصور جمہوری مرکزیت پر مبنی ہے جہاں پارٹی فیصلے نچلی سطح سے باہمی مشاورت سے کیے جاتے ہیں اور مرکز ان فیصلوں پر عملدرآمد کرانے پہ فائز ہوتا ہے۔ لینن کے اس پارٹی تصور کو کچھ دوسرے مارکسی مفکرین نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا اور کہا گیا کہ لینن نے ایک جابر آمرانہ نظام حکومت کی بنیاد رکھی ہے جبکہ محنت کشوں کی تنظیم کو ایک ڈھیلی ڈھالی تنظیم ہونی چاہیے اور کچھ مفکرین تو تنظیم سازی کے حق میں ہی نہیں تھے۔ ان مفکرین کے بقول محنت کشوں کے گروہ خود بخود منظم ہو جائیں گے جبکہ تاریخ نے لینن کو درست ثابت کر دکھایا۔ محنت کشوں کی تنظیم میں مفادپرست عناصر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، مفادپرست عناصر کی تنظیم میں سرائیت انقلاب کو ردانقلاب کی طرف دھکیلتے ہیں اور محنت کشوں کی تمام حاصلات ردانقلاب کی نظر ہو جاتی ہیں۔
لینن کو اگر بیسویں صدی کے سب سے با اثر شخص کہا جائے تو غلط نا ہوگا۔ وولکوگنوف کہتا ہے کہ
“شائد ہی تاریخ میں کوئی اور شخص رہا ہو جس نے معاشرے کو اتنے بڑے پیمانے پر کامیابی سے تبدیل کیا ہو”۔
مورخ البرٹ ریسس کہتا ہے کہ
“اگر ہم اکتوبر انقلاب کو بیسویں صدی کا سب سے اہم واقعہ قرار دیتے ہیں تو لینن اس صدی کا سب سے اہم سیاسی راہ نما تھا”۔
وائٹ لینن کے بارے میں کہتا ہے کہ
“لینن جدید تاریخ کے مسلمہ بقایا شخصیات میں سے ایک ہیں”۔
لینن کی شہرہ آفاق تصانیف میں “ریاست اور انقلاب”، “سامراج، سرمایہ داری کی اعلیٰ سطح”، “بائیں بازو کا کمیونزم ایک طفلانہ بیماری”، “کیا کیا جائے”، “پرولتاری انقلاب اور غدار کاؤتسکی”، “اقوام کا حق خودارادیت”، “ایک قدم آگے دو قدم پیچھے”، اور “جمہوری انقلاب میں سوشل ڈیموکریسی کے دو حربے” چند ایک ہیں۔
کامریڈ لینن کی وفات کے بعد ان کے انقلابی شاگرد کامریڈ استالین ان کی پالیسیوں کو کامیابی سے لیکر آگے بڑھے۔ کامریڈ استالن کی وفات کے بعد بالشویک پارٹی میں خروشیف کی قیادت میں ترمیم پسند عناصر غالب آ گئے جنھوں نے آخر 1991ء میں سوویت یونین کو انہدام سے دوچار کر دیا۔ آج دنیا میں کیوبا اور کوریا کی صورت میں اشتراکی ممالک بچے ہیں یا پھر چین، ویت نام وغیرہ ہیں جہاں کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت میں سرمایہ دارانہ پالیسیاں جاری ہیں۔
اس تناظر میں آج ہمیں مارکسی تعلیمات کو سمجھنے کی جتنی ضرورت ہے اتنی ہی لیننی تعلیمات کو سمجھنا ضروری ہے۔ کیونکہ مارکس بغیر لینن کے عمل کی کسوٹی پر کھرا نہیں اتر سکتا۔ اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں بالشویک پارٹی کی تنظیم سازی لیننی طریقہ کار کی سختیوں سے گزرنے کے باوجود مفادپرست، ترمیم پسند، رجعتی اور ردانقلابی عناصر کا شکار ہوگئی وہاں محنت کش طبقے کے مفادات کی پاسدار ایک ڈھیلی ڈھالی اور جو تنظیم سازی کی لیننی طریقہ کار کی سختیوں سے نا گزری کیوں کر کامیاب ہو سکتی ہے۔ ایسی تنظیم میں مفادپرست عناصر کا دخول آسان ہو جاتا ہے اور یہ عناصر تنظیم میں سرائیت کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے پرولتاری انقلاب کامیابی سے قبل ہی ردانقلاب کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور ویسے بھی بھانت بھانت کے مختلف نظریات کی حامل اس طرح کی ڈھیلی ڈھالی تنظیمیں کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر سکتیں ۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں کو سمجھا جائے اور ان غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرایا جائے تاکہ ایک مستقل اور مکمل پرولتاری انقلاب کی راہ ہموار کی جا سکے، سوشلسٹ ریاست کا قیام اور پرولتاری آمریت کا نفاذ ممکن بنایا جا سکے جو اشتمالی سماج میں ڈھل سکے۔ آج ایک لیننی پارٹی کی تنظیم سازی ضروری ہے جو محنت کشوں، کسانوں، دانشوروں، طلبا، نوجوانوں اور سماج کی تمام مظلوم پرتوں کو نظریاتی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے طبقاتی مبارزے کو فیصلہ کن موڑ دے سکے۔ یوں سرمایہ داری، جاگیرداری نظام کے استحصال کا خاتمہ اور ایک استحصال سے پاک غیر طبقاتی سماج کا قیام ممکن ہو گا۔ آج مارکسی لیننی افکار کا بغور مطالعہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ لینن آج بھی محنت کشوں کے جانباز استاد ہیں۔ سرخ سلام کامریڈ لینن۔