پاناما پیپرز کے فیصلے پر پاکستانی اخبارات کے اداریے
(بی بی سی اردو، اسلام آباد)
’نواز شریف ایک جائز طور پر منتخب وزیر اعظم ہیں لیکن اب تک وہ قوم کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے ہیں کہ انھوں نے اور ان کے خاندان نے جو دولت جمع کی ہے وہ جائز طریقے سے کمائی ہوئی ہے۔‘
پاکستان کے سب سے مقتدر اخبار روزنامہ ڈان نے پاناما پیپرز پر سپریم کورٹ کے منقسم فیصلے پر اداریے کا اختتام مندرجہ بالا سطروں پر کیا ہے۔
پاناما پیپرز کے فیصلے پر جمعے کو پاکستان کے تمام اخبارات نے ادارتی صفحات پر عدالت عالیہ کے اس ‘تاریخی فیصلے’ پر اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے ایک اور اخبار ‘ڈیلی ایکسپریس’ نے اس موضوع پر اپنے اداریے کی ابتدائی سطروں میں کہا ہے کہ شریف فیملی کے علاوہ شاید چند ہی ایسے لوگ ہوں گے جو سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر شاد ہوں گے۔
انگریزی زبان کے ایک اور اخبار ’دی نیشن‘ نے اپنے اداریے کی ابتدا ہی میں یہ رائے دی ہے کہ یہ ایک ایسا فیصلہ نہیں تھا جو 20 برس تک یاد رکھا جائے اور نہ ہی اس فیصلے نے وزیر اعظم کو الزامات سے بری کیا ہے۔
انگریزی زبان کے لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ‘پاکستان ٹوڈے’ نے ‘منقسم فیصلے کے مضمرات’ کے عنوان سے اپنے ادارے کی پہلی سطر میں لکھا کہ جو فیصلہ تاریخی کہہ کر پیش کیا گیا اس نے بہت سے لوگوں کو حیران اور پریشان کر دیا ہے۔
تمام بڑے اخبارات اس بات پر متفق ہیں کہ یہ فیصلہ حکمران خاندان کے لیے خوشیاں منانے کا کوئی جواز فراہم نہیں کرتا اور ان پانچ ججوں نے وزیر اعظم کو کرپشن کے سنگین الزامات سے مکمل طور پر پاک نہیں کیا ہے۔
روزنامہ ڈان نے مشترکہ تحقیقاتی کمیشن میں فوج کے نمائندوں کو شامل کرنے کے اہم نکتے پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ روزنامہ ڈان کا کہنا ہے کہ ملٹری انٹیلیجنس اور پاکستان فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے نمائندوں کو اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں شامل کیا جانا ایک لحاظ سے سویلین اداروں پر عدم اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے سویلین امور میں فوج کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے اور ہونا تو یہ چاہیے کہ سویلین امور سویلین ادارے ہی حل کریں۔
’مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل میں فوج کے نمائندوں کو شامل کیا جانا خاص طور پر ایک وزیر اعظم کے خلاف مالی اور قانونی امور کی تحقیقات کے لیے ایک غیر معمولی قدم ہے اور ایک ایسی مثال ہے جو کہ قائم نہیں ہونی چاہیے تھی۔‘
اخبار کہتا ہے کہ ماضی میں سیاسی طور پر کشیدہ ماحول میں بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کا خاص طور پر ریکارڈ کچھ اچھا نہیں ہے اور یہ راستہ ایک بند گلی میں ختم ہوتا ہے۔
اردو زبان کا روزنامہ جنگ اپنے اداریے کے آخر میں لکھتا ہے کہ یہ فیصلہ اس اعتبار سے یقیناً تاریخ ساز ہے کہ پاکستان میں بھی ملک کے سب سے بااختیار منصب پر فائز شخصیت کو ملک کے تحقیقاتی اداروں کے سامنے پیش ہونا پڑے گا جس سے عدل و انصاف کی بالادستی کی نئی اور شاندار روایت قائم ہو گی۔
روزنامہ ڈیلی ایکسپریس نے اپنے اداریے کا اختتام بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس خزانے کے اصل ماخذ کا پتا چلنا ابھی باقی ہے لیکن اس ڈارمے کے ڈراپ سین کے لیے شاید فیوڈر ڈسٹووسکی کے مشہور ناول ’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘ سے کچھ نکالنا پڑے۔