جنونی ہجوم اورقتل کا تجزیہ و تحلیل (اناٹومی)
از آتش تاثیر
مترجم و متعارف کار : ابو اسامہ، اسسٹنٹ پروفیسر، مولانا آزاد یونیورسٹی، حیدرآباد، بھارت
عوامی انٹلکچول شیو وسوناتھن کا یقین ہے کہ عصری تقاضوں کو پورا کرنے میں موجودہ سماجی ماہرین بے بس نظر آ رہے ہیں۔ یو. آر. اننت مورتھی سے لے کر آتش تاثیر کی تحریریں سماج کی عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ دانشورانہ ہیں بہ نسبت ان ماہرین کے جو جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی تھکا دینے والی کیٹگری میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ سماجی علوم محض خانہ پوری اور چند ڈسپلنری ضرورتوں کو پورا کرنے اور خیالات کو دہرانے میں مصروف ہے جب کہ خیالات کی تازگی آتش تاثیر جیسےناول نگاروں سے آرہی ہے۔ آتش نسبتا ایک کم عمرقلمکار ہیں جو مختلف موضوعات پر بین ا لاقوامی جریدوں اور اخباروں کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔ وہ کئی کتابوں کو مصنف ہیں جو فکشن اور غیر فکشن کی دنیا میں ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ آتش کی تحریریں قارئین کو سیاسی، سماجی اور تہذیبی حقائق سے روشناس کراتی ہیں۔
اپنی کتاب A Son’s Journey Through Islamic Lands :Stranger to History میں آتش نے اسلام اور اسلامی دنیا کے بارے میں بصیرت افروز تجزیے کیے ہیں جو نہ صرف تاریخی اور علمی بلکہ شناخت کے تضادات کے حوالے سے بھی اہم ہیں۔ انہوں نے یہ کتاب اس وقت لکھی جب ان کی عمر محض اٹھائیس سال تھی۔ علمی مشغولیا ت کےتحت اخباروں میں لکھے جانے والےان کےمضامین بھی بہت ہی منظم اور خیالات سے پر ہوتے ہیں۔ تقسیم کا المیہ درج کرنے والے سعادت حسن منٹو کو انگریزی دنیا میں روشناس کرانے کے سہرا بھی آتش کے حصے میں جاتا ہے۔ کم عمری میں ہی ادب اور صحافت کی دنیا میں آتش تاثیر ایک معتبر اور سنجیدہ نام ہے۔ آتش سطحی تنقیدوں سے بالا تر ہو کر سماجی اور ثقافتی مسائل پر کھل کر بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر مستند جریدوں، اخباروں اور اسکالرز نے آتش کی کتابوں پر تبصرے لکھے ہیں اورمختلف فورم سے ان کے انٹرویوز بھی کیے گئے ہیں۔ بر صغیر کے عوامی مسائل پر ان کو عبور حاصل ہے۔ ہندوستان کےتیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے کے زیر اثر سماجی رشتوں پر پڑنے والے اثرات سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ نفرت کی سیاست اور من گڑھت دشمنوں کا شوشہ لے کر فرقہ پرست ذہنیت کے لوگ ملک کے سیکولر اور روادار ٹیسٹ کو خراب کرنے لیے پیہم کوشش میں ہیں۔ ایسےماحول میں آتش کا یہ مضمون موجودہ سیاسی رویوں پرایک شاندار تجزیہ ہے۔ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں مگر اردو ریڈرشپ کو یقینا آتش کی تحریریں غور و فکر پر آمادہ کرےگی۔ اس مضمون کے ترجمہ کے لیے آتش تاثیر سے اجازت لی گئی ہے جو نیو یارک ٹائمز میں گزشتہ دنوں شائع ہوا تھا۔ (عرض مترجم: ابو اسامہ، اسسٹنٹ پروفیسر، مانو، حیدرآباد)
————————————————————-
جنونی ہجوم کے ذریعہ کی جانے والی لنچنگ (جنونی اور غیر قانونی قتل) ، عام طور پر کیے جانے والے قتل سے مختلف ہوتی ہے۔ قتل تو تنہائی میں بھی کیا جاسکتا ہے مگر لنچنگ ہمیشہ عوام کے سامنے ہوتی ہے کیوں کہ اس عمل کے لیے لوگوں کا ہونا ضروری ہے۔
اس مہینے کی ابتدا میں درجنوں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے اور لاکھوں لوگوں نے ویڈیو کے ذریعہ مغربی ہندوستان کے صوبے راجستھان میں پچپن سالہ پہلو خان کی موت کا نظارہ دیکھا ۔ پہلو خان پر گائے (جسے بیشتر ہندو مقدس مانتے ہیں) کا کاروبار کرنے کا الزام لگایا گیا ۔ اس واقعہ کوموبائل اور ٹی وی پر پورے ہندوستان نے دیکھا کہ کس طرح پہلو خان سڑک کے کنارے اکیلا بیچارگی اور حسرت کے ساتھ اپنی صفائی دیتا رہا ۔ “گائے کےنام نہاد محافظوں”نے بیلٹ اور ڈنڈوں سے خان کو مارنا شروع کردیا اور با ا لآخر اس کی جان لے کر ہی دم لیا۔ وہ کیمروں اور سمارٹ فونوں کے درمیان گھرا رہا ۔ تین روز کے بعد وہ زندگی سے ہار گیا، سال 2015 سے اس نوعیت کایہ چھٹا انسان تھا جو گائے کے محافظوں کے عدل و انصاف کا شکار ہوا۔
جنونی ہجوم کسی دہشت گردانہ حملے کی طرح بہت ساری زندگی لینے کے در پے نہیں ہوتا ہے بلکہ انہیں گنتی سے کچھ خاص سروکار بھی نہیں ہوتا ہے، انہیں ایسے لوگوں سے مطلب ہوتا ہے جو سر عام کسی انسان کو جان سے مار دینے کی فراق میں رہتے ہیں۔ یہ وہ سانحہ ہے جو ایک صدی قبل امریکی جنوب میں ہوا اور اب موجودہ ہندوستان میں ہو رہا ہے۔ مسٹر خان کے ارد گرد کا ہجوم اس کی جان پر تلا ہوا تھا ۔ یہ سب کچھ آخر کیا ظاہر کرتا ہے؟ در اصل یہ ایک انداز عمل ہے جس میں اکثریت اپنی اقلیت کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ دیکھو قانون بھی تمہیں نہیں بچا سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے جنوب میں بہت سارے افریقی-امریکی مرد جیلوں سے نکال کر عدالتوں کے سامنے پھانسی پر لٹکا دیے گئے جو قانون کی دھجیاں اڑانے کی ایک عبرت ناک مثال ہے۔ مسٹر خان کے معاملے میں نہ صرف قانون بے بس ہو گیا بلکہ اس نے تو قاتلوں کو بچانے میں سرگرمی دکھائی۔ وہ گیارہ لوگوں کے درمیان گھرا ہوا تھا جس پر گائے کی اسمگلنگ کا الزام تھا مگر (قابل غور اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ) اس پر قتل کا الزام نہیں لگا تھا۔ خان کی موت کے تین دن گزر جانے کے بعد تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا مگر عزت مآب وزیراعظم کی بی جے پی نے اس سانحہ کی سنگینی کو ہلکا کر دیا۔
راجستھان کے وزیر داخلہ (صوبائی قانون کونافذ کرنے کے سرکاری انچارج) پہلو خان کی موت کے کچھ گھنٹوں بعد قومی چینلوں پر اپنی ہمدردی جتانے بھی گئےجہاں انہوں نے مکمل طور پر اس سانحے کی حقیقی پہلوؤں کو بتانے کے بجائے کہانی کومزید الجھادیا ۔
مختار عباس نقوی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایسا کچھ حادثہ زمین پر ہوا ہی نہیں ہے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی اور وزیر اعلی محترمہ وسندھرا راجے نے تو ابھی تک اس معاملے میں مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے۔ (یہ سب کچھ ایک خاص سیاسی ذہنیت کی طرف اشارہ کرتا ہے: مترجم)
لنچنگ کا سب اہم عنصر خاموشی ہے۔ دوسرے اور تماشوں کی طرح یہ بھی کچھ ان کہی باتوں پر منحصر ہے: یہ پہلے ‘موڈ’ اورایک طرح کا ماحول بنا تا ہے۔ خوشی خوشی تشدد کیے جانے کے بعد خاموشی اختیار کرنا ، جب کہ عوام دیکھ چکی ہے ، در حقیقت اقلیتوں کو بتاتا ہے کہ اس معاملے کو درکنار کیا جا چکا ہے۔ اس طرح کے سنجیدہ ماحول میں اسٹیٹ اور خاموش اکثریت جرم کا ارتکاب کر رہی ہے جو ایک مخصوص آبادی کو جسمانی تشدد کے مانند، پست کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔
ہندوستان میں گائے کو لے کر ہسٹریا با قاعدہ طور پر ایک منصوبے کے تحت پیدا کی گئی ۔ پچھلےعام انتخابات کے دوران اپنی ریلی میں جناب مودی نے لوگوں سےگلابی انقلاب (Pink Revolution) کی چٹکی لی تھی اور مخالفین کو گوشت اور گائے کےذبح کو بڑھاوا دینے کا الزام کالگایا تھا۔ جناب مودی نے بڑے ڈرامائی انداز میں دوسرے مختلف قسم کے ریولیوشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ، ” کیا آپ ایسے لوگوں کے حامی بننا چاہتے ہیں جو اس ‘گلابی انقلاب’ کو لانا چاہتے ہیں ۔”
ستمبر 2015 کی لنچنگ کے بعد جناب نریندر مودی کو گائے کے محافظین کو وارننگ دینے میں تقریبا ایک سال لگ گئے ۔ عوامی تشدد کے معاملے میں وزیر اعظم صاحب تو استاد ہیں ۔ پچھلے مہینے شمال مشرقی اترپردیش (جہاں تقریبا 170 ملین مسلمان بستے ہیں) میں زبردست کامیابی کے بعد انہوں نے ایک بدکردار سادھو کا انتخاب کیا جو بھگوا رنگ میں آج اس صوبے کا وزیر اعلی ہے۔
اس انسان یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے گھر وں میں گوشت رکھنے کے جرم میں انسانو ں کی جان لینے کو کہا۔ اس نے ہندوؤں سے کہا کہ ایک ہندو کے بدلے دس مسلمانوں کی جانیں لو۔ کرسی سنبھالتے ہی اس نے غیر قانونی قصائی خانوں کو بند کرنے کا حکم صادر کیا جب کہ اس صوبے میں بہت سارے کاروبار لائسنس کے بغیربھی چل رہے ہیں مگر صرف گوشت انڈسٹری (جس کا کاروبار زیادہ تر مسلمان کرتے ہیں ) پر حملہ کرنے کا بالکل صا ف مقصد تھا کہ مسلمانو ں کی معاشی اور ثقافتی پہلوؤں پر چوٹ پہنچائی جائے۔ مسٹر یوگی کرسٹل نیخت (Kristallnacht ( واقعہ سے متاثر معلوم ہوتے ہیں ۔ (دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کےدور حکومت میں یہودیوں کے جانی، مالی اور تہذیبی اثرات کو مٹادینے کے در پے وہاں کے حکمرانوں نے 1938 میں ان کو ختم کردینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کو “ٹوٹے ہوئے شیشوں والی رات “کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیوں کہ یہودیوں کے گھروں، دکانوں اور مذہبی عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ کے بعد گلیوں میں صرف شیشے ہی شیشے پڑے ہوئے تھے: مترجم)
بی جے پی کے تمام وزرائے اعلی پورے ہندوستان بھر میں گائے کے تئیں اپنی عزت اور فکرمندی دکھانے میں لگے ہوئے ہیں جیسا کہ پہلو خان کی موت نے اس کو ثابت کیا ہے کہ مسلمانو ں سے نفرت اب اس ملک کا کلچر بن چکا ہے۔ پچھلے مہینے جناب مودی کے سابق صوبے گجرات میں گائے کو مارنا اب ایک قابل سزا جرم ہے اور بی جے پی کے زیر انتظام چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی نے یہ فرمان جاری کر دیا ہے کہ، “گائے کاٹنے والو کو ہم پھانسی پر چڑھادیں گے۔”
تقریبا 60% ہندوستان میں بی جے پی برسر اقتدار پارٹی ہے جہاں کوئی (مضبوط: مترجم) اپوزیشن بھی نہیں ہے۔ کسی زمانے میں جو معتدل آوازیں ہوا کرتی تھیں وہ اب یا تو ڈر گئیں ہیں یا بولنے کو سیاسی طور پر نا مناسب سمجھتی ہیں ۔
راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجےکے ساتھ تو میں نے دہلی میں کافی وقت گزارا اور جن سے میں ایک لمبے عرصے سے آشنائی رکھتا ہوں۔ وہ اشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں اور تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کے کئی ایک مسلمان دوست تھے اور ان کے بوائے فرینڈ بھی ایک مسلم ہی ہوا کرتے تھے ۔ میری والدہ کی طرح وہ بھی سنگل ماں تھیں۔ انہیں سگریٹ اور شراب دونوں سے شغف تھا اور مطالعے کے ساتھ ساتھ انہوں نے کافی جگہوں کا سفر بھی کیا ہے۔ وہ یقینا لبرل اقدار کی حامل خاتون معلوم ہوتی تھیں۔ اب اگر ایک غریب اور صاحب اولاد مسلمان کی انہیں کے صوبے میں اس طرح دردناک طریقے سے موت ہوجاتی ہے اور وہ خاموش ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ تین سال کے مختصر وقفے میں بی جے پی نے ماحول کو زبردست انداز میں آلودہ کیا ہے۔
ہندوستان اپنی روح (آہستہ آہستہ) کھو رہا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہےجس میں کبھی قدیم ہندو اخلاقیات کا ڈر اور ہم عصر زمانے میں گاندھی اور مارٹن لوتھر کنگ کا فلسفہ اہنسا اور عدم تشددتھا، جس کے تحت ہی کسی قتل کو جائز اور ثابت کرنا چاہئے۔ یہ فقط ایک انسان کا قتل نہیں ہے بلکہ ایک بڑے پیمانے پر کیا جانے والا ایسا عمل ہے جس میں ایک خاموش تماشائی قوم بھی شریک گناہ ہے۔
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.