استاد منگو کے دن اب کے پھر نہیں بدلے
از، نوید احمد
استاد منگو اب کوچوان نہیں بل کہ چنگ چی ڈرائیور ہے، اور چنگ چی بھی ایسا جو 69 سال 6 ماہ اور 6 دن کی مسافت طے کر چکا ہے، اس دوران منصفوں کی روایتیں اور فیصلوں کی عبارتیں مملکت خدا داد میں الفاظ کے گورکھ دھندے سے باہر نہیں نکل سکیں، وہ حقے کی بجائے سگریٹ پیتا ہے، اس کا مفکرانہ انداز بدستور قائم ہے، سوشل میڈیا کا بلا خوف صارف ہے۔ اگر چہ اس کی تعلیمی قابلیت آج بھی صفر ہے لیکن اڈے میں موجود دیگر ڈرائیور اس کو ان پڑھ ہونے کے باوجود میڈیا سے زیادہ با خبر سمجھتے ہیں، اس کی زبانی قارون کے خزانے کی اعدادو شمار سمیت مکمل تفصیل سن کر حیران بھی ہوتے ہیں۔
’’عدالت عظمیٰ کو ایسا فیصلہ سنانا چاہیے جس سے عوام میں پائی جانے والی تشویش اور عدم اعتمادی ختم ہو سکے،‘‘ استاد منگو کے چنگ چی میں سوار ایک مسافر دوسرے سے بات کر رہا تھا، اس دوران استاد منگو سڑک پر نظریں جمائے دونوں کی گفتگو غور سے سن رہا تھا،دوسرا مسافر کہنے لگا ،یاریہ کتنی عجیب بات ہے کہ مشرقی روایات کا حامل خاندان تمام الزامات اپنے والد مرحوم کے ذمے لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہا ہے، پہلے مسافر نے سر ہلایا اورکیس کی تفصیل بتانے لگا کہ اس کیس کی ابتداء 3 اپریل 2016ء کو اس وقت ہوئی جب انٹرنیشل میڈیا میں پاکستان کے حکمران خاندان کے بارے میں راز فاش ہوا کہ اس خاندان کے تین بہن بھائی آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں جن کی ملکیت انہوں نے تاحال ظاہر نہیں کی، اس پر ملک میں کافی لے دے ہوئی۔
اپوزیشن جماعتوں نے کافی شور مچایا،29 اگست 2016ء کو ایک اپوزیشن جماعت اس کیس کو سپریم کورٹ میں لے گئی، یکم نومبر سے عدالت عظمیٰ میں اس کیس کی شنوائی شروع ہوئی،پھر کہانی میں نئے کردار شامل ہوتے گئے، میڈیا دن رات اس کی کوریج میں مصروف رہا،اور یوں ہوا 23فروری 2017ء کو سپریم کورٹ نے اس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، آج خبر آئی ہے کہ 20 اپریل کو دن دو بجے اس کیس کا فیصلہ سنایا جا رہا ہے، امید کی جا رہی ہے کہ یہ فیصلہ ملک کی تقدیر بدل دے گا، اسے صدیوں یاد رکھا جائے گا۔
کرپشن، اقربا پروری اور نا انصافی کا دورختم ہو گا، ریاست ہو گی ماں کے جیسی ہر شہری سے پیار کرے گی، دوسرے مسافر نے لقمہ دیا امید پر دنیا قائم ہے، ان کی گفتگو سن کر استاد منگو کی خوشی دیدنی تھی، وہ سوچنے لگا 20 اپریل دن دو بجے کے بعد سرکاری ٹھیکوں سے حصہ وصول نہیں کیا جائے گا، محکمہ تعمیرات ایمان داری سے سڑکیں بنائے گا، میونسپل کمیٹی سے پرچی مافیا سمیت ہر مافیا کا خاتمہ ہو گا،پولیس واقعی عوام کی مدد گار ہو گی۔
آخر کار 20 اپریل کا دن آ پہنچا، استاد منگو نے صبح سویرے تیار ہو کر اپنا چنگ چی سٹارٹ کیا، اور شہر کی جانب نکلا، تاہم سڑک پر سفر کرتے ہوئے اسے تبدیلی کے کہیں آثار نظر نہیں آئے، بل کہ دن سیاہی مائل نظر آیا، وکیلوں کے کالے کوٹ، میڈیا کے کالے کیمرے، چارہ گروں کی آنکھوں پر کالے چشمے، سیکورٹی اہل کاروں کی کالی وردی، اور صاحبان حل و عقد کی کالی گاڑیاں، پھر اس کے ذہن میں خیال آیا کہ جیسے ہی دن دو بجے فیصلہ آئے گی تمام سیاہی اتر جائے گی، جس سے اس کو کچھ اطمینان ہوا، دن دو بجے پورا ملک ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھ کر فیصلہ سن رہا تھا۔
جب کہ استاد منگو شہر کی سڑکوں پر رواں دواں امید سے تھا گویا اس فیصلے کا فیصلہ ہو چکا،کافی دیر شہر کی سڑکوں پر گشت کرنے کے بعد سہ پہر کو استاد منگو کو یقین ہو گیا کہ وہ فیصلے کے بعد کی دنیا میں موجود ہے،چنانچہ وہ اپنا ہنر آزمانے میونسپل فیس جمع کرنے والے اہلکاروں کے سامنے سے گزرا،انہوں نے اسے پرچی لینے کے لئے فوراً روکا، پرچی کا مطالبہ کرنے پر استاد منگو نے انہیں عجب ترنگ میں کہا وہ زمانے چلے گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے، اب نا انصافی کا دور ختم ہو چکا، جاؤ اپنے افسران کو بتا دو سپریم کورٹ کے ’’تاریخی فیصلے‘‘ کے بعد اب چنگ چی ڈرائیور جگا ٹیکس دینے سے انکار کرتے ہیں، بلدیہ اہل کاروں نے اس سے فیصلے کی تفصیل پوچھنے کی بجائے ایک ہی وار میں استاد کو زمین پر گرا لیا، اور بے دردی سے مارنا شروع کر دیا۔
لوگ اکٹھے ہوئے، پولیس آ پہنچی، بلدیہ ملازمین نے پولیس کو بتایا کہ اس ڈرائیور نے کارِ سرکار میں مداخلت کی ہے، پولیس نے لہو لہان استاد منگو کو زمین سے اٹھایا، تھانے لے جا کر حوالات میں بند کر دیا، اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 186 کے تحت اس پر مقدمہ درج کر دیا، پھر استاد منگو کو احساس ہوا کہ فیصلے سے پہلے اور بعد کی دنیا ایک جیسی ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.