باچا خان بابا اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی ملاقات
(شاہد خان)
خدائی خدمت گار اور باچا خان کا نام سنتے ہی عمومیت کے دل اور سوچ میں غدار اور پاکستان دشمن کے کردار سامنے آجاتے ہیں, جو کہ بلکل تاریخ سے نا آشنائی اور تاریخ سے دشمنی کا نتیجہ ہے۔
جناب شریف فاروق ایک کہنہ مشق صحافی ہیں, وہ ہیں تو پنجابی لیکن عالم شباب سے صوبہ سرحد کے دارلحکومت پشاور میں مقیم ہیں. کئی اخبارات کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں, روزنامہ جہاد پشاور اور اسلام آباد کے مدیر و مالک ہیں, صوبہ سرحد کے سیاسی , سماجی اور ثقافتی حلات پر کافی گہری نظر اور نشیب و فراز کے لئے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے ایک کتابچے میں لکھا ہے کہ :
” خان عبدالغفار خان پر پاکستان دشمنی ،اسلام دشمنی، مسلمانوں سے نفرت ، نظریہ پاکستان دشمنی اور مضبوط مرکز کی مخالفت کے الزامات مختلف حیلوں اور بہانوں سے عائد کیے جاتے رہے ہیں، مگر تاریخ نے اپنے حتمی فیصلے سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب الزامات جھوٹ کا پلندہ تھے، دراصل الزامات عائد کرنے والوں کے مجرمانہ ضمیر کی صدائے بازگشت تھی۔ “
ہمارے اس پاک وطن میں باچا خان بابا پر یہ الزام بھی مشہور ہے کہ باچا خان کا سیاسی جھکاؤ شخصیت کے اعتبار سے گاندھی کی طرف تھا، باچا خان محمد علی جناح سے نفرت اور ان سے ذاتیات کے بنا پر دور رہتے تھے، حالانکہ باچا خان اس بات کا خود اعتراف کرتے ہیں کہ جب 1929 میں انہوں نے خدائی خدمت گار تحریک بنائی تو انہوں نے سب سے پہلے رجوع مسلم لیگ اور محمد علی جناح سے کیا مگر ان کی غیر سنجیدگی اور انکار پر خدائی خدمت گار نے کانگرس میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ اور محمد علی جناح سے ملاقات باچا خان کی پاکستان اور محمد علی جناح سے رشتے کی نوعیت صاف صاف واضح کر دیتی ہے۔
23 فروری 1948 کو باچا خان نے پاکستان کی پارلیمینٹ کے اجلاس میں پہلی مرتبہ شرکت کی، وہ چاہتے تو ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے حسب سابق رکن رہ سکتے تھے لیکن انہوں نے پاکستان کی اسمبلی کا رکن رہنے کو ترجیح دی اور حلف وفاداری اٹھایا۔
اس پر بانی پاکستان محمد علی جناح بہت خوش ہوئے، انہوں نے باچا خان کو چائے پر مدعو کیا. دونوں رہنماؤں میں ملکی مفادات کے بارے میں گفتگو ہوئی، ماضی کی شکر رنجیاں اور چشمک کا دور لد گیا. محمد علی جناح اس حد تک مسرور تھے کہ انہوں نے باچا خان سے بلا تکلف کہا:
” آج میرا پاکستان کا خواب پورا ہوا .. “
باچا خان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملے اور انہوں نے مصافحہ کیا اور خلاف معمول معانقہ بھی. وہ واپسی پر کار چھوڑنے آئے. اپنے ہاتھ سےکار کا دروازہ کھولا اور کار کی روانگی تک کھڑے رہے. قائد اعظم کے حسن اخلاق نے باچا خان کو بہت متاثر کیا . اس ملاقات کی کامیابی اور اس پر خوشی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم نے مزید گفت و شنید کے لئے انہیں اگلے روز کھانے پر مدعو کیا. کھانے کے بعد قائد اعظم باچا خان کو ایک علیحدہ کمرے میں لے گئے جہاں ایک گھنٹے تک دونوں رہنماؤں کے درمیان پاکستان کے مستقبل کے بار میں بات چیت ہوئی۔
قائد اعظم نے باچا خان سے پوچھا :
” اب آپ کا کیا پروگرام ہے .. “
باچا خان نے کہا کہ:
” اب آزادی حاصل ہوگئی ہے. میں خدائی خدمت گار کا پرانا اصلاحی پروگرام شروع کرنا چاہتا ہوں۔ “
باچا خان نے قائد اعظم کو خدائی خدمت گار تحریک کے اغراض و مقاصد بتائے اور واضح کیا کہ انگریزوں نے کس طرح اس سماجی تحریک کا رخ سیاست کی طرف موڑا تھا. باچا خان کی باتیں سن کر محمد علی جناح اپنی نشست سے بڑے پر جوش انداز میں اٹھ کر کھڑے ہوئے اور خلاف عادت باچا خان کو گلے سے لگایا اور کہا کہ :
” ایسے کام کے لئے میں ہر قسم کی مدد کروں گا۔ “
باچا خان نے جواب دیا کہ :
” مجھے صرف آپ کے اعتماد اور اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔ “
قائد اعظم نے کہا کہ :
” میں ملک کا آئینی سربراہ ہوں. میری نظر میں سب جماعتیں یکساں حیثیت رکھتی ہیں۔ “
اس ملاقات سے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی خوشگوار صورت پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہونے لگے، باچا خان نے محمد علی جناح کو صوبہ سرحد دورہ کی بھی دعوت دی جس کو محمد علی جناح نے قبول بھی کیا مگر چونکہ پاکستان پر مسلط طبقہ مفاد پرست ٹولہ تھا اس لئے ان کا مستقبل تاریک ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے مفادات کو براہ راست ٹھیس پہنچ رہی تھی۔ اس لئے سازشی ٹولوں نے سازشوں کے جال بننے شروع کر دیئے اور بعد میں یہی جماعت پاکستان مخالف اور غدار جماعت ٹھرائی گئی، اور مستقبل میں ان کے ساتھ کون سے رویے اور مظالم ڈھائے گئے، تاریخ ماضی کی ان تمام کارستانیں پر قلم بند ہے۔