لکھنو سے واپس آ رہے ہیں
(عزہ معین)، سنبھل ، بھارت
لکھنو سے واپس آ رہے ہیں۔ طویل سفر ہے.سنبھل سے لکھنو کی دوری یہی کچھ 350 کیلو میٹر کے قریب ہے. آپ بس سے سفر کریں یا ٹرین سے سات سے آٹھ گھنٹے لگ ہی جاتے ہیں. سفر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ آپ چاہیں جو طریقہ اختیار کر لیں اس کی پریشایاں بہر حال جوں کا توں رہتی ہیں. سفر ہوائی جہاز کا ہو یا اے سی ٹرین کا آپ سفر کی صعوبتوں سے چھٹکارا نہیں پا سکتے. میں بذریعہ ٹرین ہی اپنے گھر لوٹ رہی ہوں. یہاں یعنی ٹرین کے اندر بہت ہی بیڈ نیٹ ورک ہے.نیٹ چلا نہیں سکتی. کتاب کھولنے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے. ٹرین سے باہر فطرت کے کھلے مناظر کی طرف آنکھیں دیکھتے دیکھتے تھک گئی ہیں.اور اب تو اندھیرا بھی ہو چلا ہے . دل میں خیال آیا کہ اپنے لکھنو کے سفر کی روداد ہی قلم بند کیوں کروں.یہ دیکھئے ادھر دل نے خواہش ظاہر کی اورادھرمیری انگلیوں نے قلم تھام لیں.چلئے تو لکھتی ہوں روداد سفر. پتہ نہ گھر پہنچ کر موقع ملے یا نہ ملے۔
ملک زادہ منظور احمد کی برسی کے موقع پرلکھنو میں ایک سیمنار منعقد کیا گیا.اس میں ناچیز کو بھی مقالہ پڑھنے کی دعوت ملی تھی.یہ سمینارایک مرتبہ پھر لکھنو دیکھنے کی وجہ بنا ۔میں نےلکھنو کے بارے میں تقریبا دس گیارہ برس پہلے ایک ناول میں پڑھا تھا. جس طرح رشید احمد صدیقی کی تحریروں کو پڑھ کرقاری علی گڑھ میں تعلیم حاصل نہ کرپانے کی وجہ سے خود کو بڑا بد نصیب تصور کرنے لگتا ہے.اس ناول نگار نے بھی لکھنو کے لوگوں کی، وہاں کے بازاروں کی اور اس شہر کی قدیم عمارتوں کی تعریف بھی کچھ اس انداز سے کی تھی کہ میں اس شہر اور وہاں کی تہذیبی وراثت کے باقیات کواپنی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش مند ہو گئی تھی. اب جیسے ہی مجھے اس سیمنار میں اپنا مقالہ پڑھے جانے کا علم ہوا تو میں نے بھی ضد شروع کر دی کہ اب جانا ہے تو جانا ہے.لیکن میرے لئےایک مسئلہ تھا. اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہتا ہے. میں تنے تنہا تو سفر کرتی نہیں. ساتھ میں کوئی جانے والا ہونا چاہئے.بھائی اعظم کو دہلی کے لئے نکلنا ہے اور ایک فرد کا آفس دیکھنا بھی ضروری ہے.تواس کا مطلب یہ ہوا کہ بھائی فرحان آفس کی دیکھ ریکھ کریں گے. اب مجبوری ہے کوئی ساتھ نہیں جا رہا. تو کیا لکھنو کا دورہ کینسل؟؟ پروگرام آج پھر رد ہوتا ہوا محسوس ہوا. ادھر سیمنار کے کنوینرسعید ہاشمی صاحب کے گھر کسی فردکی طبیعت کی خرابی کے سبب فون موصول نہیں ہوا. دیگر مقا لہ نگاران بھی حیرت میں کہ اب جانا ہے یا نہیں جانا ۔الله دلوں کے حال سے خوب واقف ہے. اس نے میری دلی کیفیت کا اندازہ کر لیا.وہ حالات موافق کرتا چلا گیا. یہاں پتہ نہیں کیوں علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آ رہا ہے کہ . خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے…. خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے.خیر کچھ ہی دنوں میں مجھے احساس ہو گیا کہ میری تقدیر میں پروگرام میں شرکت کرنا لکھا ہے.پروگرام سے ایک دو دن قبل اویس مامو نے فون کیا کہ بیٹا آجاو. پروگرام اچھا ہے سب ارینج ہو جائیگا. انھون نے کہا تو پھر میں اب کیوں رکتی. میں نے فرحان سے کہا بس اب چلنا ہے کوئی عذر نہیں. دکان ایک دن بند رہے گی.ماما نے سب معلومات دے ہی دی ہے.بہر کیف ہم نے لکھنو کا رخت سفر باندھ لیا.بڑے پروگرام میں شرکت کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے. لیکن اس کے ساتھ ایک انجانہ خوف بھی دل کے کسی گوشے میں چھپا رہتا ہے کہ پتہ نہیں کیا ہوگا. میرا مقالہ پسند کیا جائےگا یا نہیں. میں خود مقالہ پیش کرتے وقت کتنا پر اعتماد رہونگی. دوران سفر یہ اور اس طرح کے خیال آرہے تھے.میرے ماما ہر منٹ میری خبر دریافت کر رہے تھے ۔انہیں کی بدولت ہی ٹرین کا رزرویشن، قیام کے لئےہوٹل کا ارینج منٹ اور پروگرام میں شرکت کرنا سب آسا ن ہو سکا تھا. ان کے ہی ہوٹل ردا کونٹنینٹ میں قیام کیا اویس ماما نے ہر لمحے کی خبر گیری کی ۔ میں مامو کا شکریہ ادا نہیں کرونگی.یہ کام غیروں کے ہوتے ہیں.اور ویسے بھی ان کی محبتوں کے آگے لفظ شکریہ بہت بونا ہے۔
کسی بھی سیمنار میں مقالہ پڑھنے کا سب سے مناسب وقت ہوتا ہے پہلا نمبر یا پھر دوسرا ۔اس کے بعد موجود سامعین سننا نہپں چاہتے ۔اس سیمنار میں تو ویسے بہی جن شخصیات نے شرکت کی ان کے پاس وقت کی بے حد قلت تھی ۔دوسری بات بعد میں مقالہ پڑھنے والے کو ایک بہت اہم بات کا خپال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ جو بات پہلے کہی جا چکی اسے اپنے پیپر سے کاٹ دیا جائے. باتوں کی تکرار سامعین کو بہت ناگوار گزرتے ہیں ۔خیر مجھے دوسرے نمبر پر مقالہ پڑھنے کے لئے آواز دی گئی.میں نے مکمل تین پیج پڑھا. الحمدللہ شرکاء محفل نے میرے مقالے کو بے حد پسند کیا ۔میرا موضوع تھا ملک زادہ منظور احمد کی پہلی تخلیق اور نایاب ناول. جو بہت ہی تلاش کے بعد بھی لکھنو میں دستیاب نہیں ہوسکا ہے ۔یہ بات مجھے حفیظ نعمانی صاحب نے بتائی کہ بیٹا آپ اس ناول پر لکھ کر لائے ہو آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں اسے کب سے تلاش کیا جا رہا ہے ۔آپ نے اس ناول کو پڑھا ہے. ہم اسی سے اس کا ایک ایڈشن اور شائع کرانے کی کوشش کریں گے ۔یہ بات سن کر مجھے کچھ زیادہ ہی خوشی ہوئی. جس ناول کو لوگ تلاش نہ کر سکے اس کو نہ صرف میں نے پڑھا بلکہ اپنا مقالہ بھی لکھا. میں کہاں تھی.. ارے ہاں سیمنار میں… ہاں تو مہں کہہ یہ رہی تھی کہ لوگوں نے میرے مقالے کو پسند کیا. میرے بعد کے پرچے بھی اچھے تھے.لیکن جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا گیا لوگوں کی اکتاہٹ بھی بڑھتی گئی. سلما حجاب صاحبہ ،معصوم مراد آبآدی اور دوسرے لوگوں نے اچھے مقالے پڑھے………….یہ دیکھئے اب نیند نے آنکھوں پر دستک دے دی. اس سے قبل کے نیند کا غلبہ میرے وجود پر حاوی ہو جائے ایک دوسرے واقعے کا ذکر کردوں جو چیخ چیخ کر اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے. یہ واقعہ لکھنو سے روانگی کا ہے۔
ہم ابھی ٹرین میں بیٹھے ہی تھے کہ ایک غیرمسلم انکل سے تین طلاق والے مسلہ پر بحث ہو گئی بات ہوتے ہوتے مدرسوں اور مسلم معاشرے پھر مولویوں پر آگئی. انکل نے ایک اخبار یعنی اکیس اپریل کا اخبار اپنا بھارت پیج نمبر سات کھول کر سامنے رکھ دی ،خبر تھی ۔۔۔۔۔مدرسے ہڑپ گئے کروڑوں ۔۔۔۔اور سرخیاں دی تھیں ۔۔آدھنیکرڑ یوجنا کے ہڑپے روپئے ۔۔۔۔ہر ماہ ہوتا ہے بیانوے لاکھ کا کھیل ۔۔۔۔۔۔کس طرح سے ہوتا ہے گھوٹالا ۔۔۔۔۔۔سولہ مدرسوں میں آتے ہی نہیں تھے ماندے والے ٹیچر ۔۔۔۔لالمن نے کہا ۔۔۔گڑ بڑی۔ملنے پر کڑی کاروائی ہوگی ۔۔۔میں نے بہت کوشش کی اب مزید بحث نہ ہو. خیر بات ختم ہوئی مسلم معاشرےمیں کم علمی اور تعلیم سے لاتعلقی کے ذکر کے ساتھ.میرے پاس مسلم قوم کی تعلیم سے بیزاری اور قوم کی بے راہ روی کا کوئی جواب نہیں تھا.یقینا اس طرح کے مباحثے آپ کے لئے کوئی نئی بات نہیں.اور بہت ممکن ہے آپ بھی اپنی قوم میں پائی جانے والی تعلیمی بیزاری اور اخلاقی پسماندگی سے شرمندہ ہوئے ہوں. کیونکہ حقیقت بھی تو یہی ہے کہ ہم آج بھی تعلیم کے میدان میں اپنے ہم وطن بھایئوں اور بہنوں سے سے پیچھے ہیں.جس قوم کا نبی اخلاق بلند مرتبے پر فائز تھا اس کی امت اخلاقی دیوالیہ کی شکار ہے. خیر ہم نے شرمندگی مٹائی یہ کہ کر کہ نئی نسل تعلیم کی طرف راغب ہے.اور جہاں تک اخلاق کی بات ہے تو ہر جگہ اچھے اور برے لوگ پائے جاتے ہیں… ۔
اس مباحثے سے سیمنار اور اس کی خوشی کافور ہو گئی. افسردہ ہو کر بھی کیا فائدہ ہمارے معاشرے میں بالخصوص ہمارے حلقہ احباب میں سبھی لوگ بہت ہی زیادہ تعلیم و تربیت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں. یہ سب بے لوث محبت کرنے والے ہیں .کس کا نام لیں کسے چھوڑیں. الله کا شکر ہے تمام احباب ،اساتذہ ،والدین اور متعلقین ہمارے لئے تو جو کرتے ہیں کرتے ہی ہیں دیگر کام بھی قومی خدمت کے لئے انجام دیتے ہیں…چلتے چلتے یہ بتاتی چلوں کہ لکھنو میں یوں تو دیکھنے کی سب جگہیں اچھی ہیں لیکن امام باڑہ اور قدیم عمارتیں اپنے ماضی اور تارخی حیثیت کی وجہ سے اہم ہیں. لکھنا تو بھت تھالیکن نیند کے ہاتھوں مجبور ہوں. میں اپنی نیند کو ناراض نہیں کرتی. کیو نکہ جب یہ روٹھ جاتی ہے تو گھنٹو بلانے پر نہیں آتی. نیند سے بیدار ہونے پر دیکھون گی اس میں کیا شامل کرنا رہ گیا ہے.گاڑی کی رفتار کم ہو گئی ہے.. ارےیہ تو مرادآباد اسٹیشن آ گیا. اللہ حافظ …اب یہاں سے آگے کا ذکر نیند سے جگنے پر..۔