کرپشن کی بلا کیسے ٹلے گی ؟
(شیخ خالد زاہد)
کوئی بھی اس بات یا الزام سے اختلاف نہیں کررہا کہ ہمارے ملک میں اعلٰی عہدہ پر فائز افراد میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کسی نا کسی طرح سے کرپشن میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہیں۔ کرپشن کرپشن ہے، بے ایمانی کو بے ایمانی ہی کہا جائے گا اور اگر یہ کرپشن یا بے ایمانی ملک کے رہبر و رہنما کریں تو ملک کا عام آدمی کیا کریگا اور پھر ایسے افراد کی پکڑ بھی سخت ہونی چاہئے۔
کرکٹ کے کھیل میں شک کا فائدہ بلے باز کو دے دیا جاتا تھا مگر جب سے تکنیکی سہولیات کو بروئے کار لایا گیا ہے تو تمام شکوک و شبہات کو یکسر مسترد کردیا گیا ہے اور امپائر اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہیں۔ بعض اوقات امپائر کو ان سہولیات کی وجہ سے اپنا فیصلہ معذرت کے ساتھ واپس بھی لینا پڑتا ہے۔ اس طرح سے کھیل بے ایمانی سے کافی حد تک پاک ہوگیا ہے۔
آخر کرکٹ کو ہی مثال کیوں بنایا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جس خطہ زمین پر آباد ہیں یہاں لوگ کرکٹ کی زبان زیادہ بولتے اور سمجھتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ان پڑھ آدمی بھی کرکٹ کی انگریزی کمنٹری اتنے انہماک سے سن رہا ہوتا ہے اور کسی کی مداخلت پر خاموش رہنے کا اشارہ بھی کرتا ہے۔
بات فیصلے کی ہورہی ہے، معلوم نہیں ہمارے ملک میں کبھی کرپشن اور بے ایمانی کے خلاف کبھی کوئی فیصلہ دیا گیا ہو اور اگر فیصلہ کیا بھی گیا ہے تو وہ اتنا سہل اور آسان ہو کہ کوئی بھی کرپشن کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ اس کی بہت واضح وجہ یہی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ کرپشن کی زد میں آکے رہے گا۔ معلوم نہیں میں کہیں عدالتوں کی توہین کا مرتکب ہوجاؤں، ہم نے کم از کم محترم اور ملک کہ اہم ترین عہدے پر فائز جج صاحب کے از خود نوٹس تو دیکھے ہیں یا پھر سنے ہیں مگر شائد ہی کوئی نوٹس اپنے منتقی انجام کو پہنچا۔
بس قصہ پارینہ بن کر ہی رہ گیا۔ حاکم حاکم ہے اور محکوم محکوم ہی ہے یہاں جو حاکم ہے وہ تمام قوانین سے بالا تر ہے جو ہمارے معاشرے اور ہمارے ملک کی تباہی کا سبب بنتا جا رہا ہے اور یقیناً اگر اب بھی ہم نے قانون کی بالادستی کو یقینی نہیں بنایا تو لوگ سڑکوں پر ہونگے اور کچھ بھی کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ معاشرے کو اس نہج تک لانے والے لوگ اس ملک سے اڑ کر کسی بھی پررونق اور پر امن ماحول میں جا بسیں گے ۔جہاں ہمارے خون پسینے کی کمائی سے ان لوگوں نے محلات بنا رکھے ہیں۔
یہاں ایک روٹی اٹھا کے بھاگنے والے بچے کو تو سب چور چور چلاتے پکڑنے دوڑ پڑتے ہیں جبکہ دوسری کرپشن اور چور بازاری کے بادشاہوں کو چور کہتے زبان جلتی ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں امیر تو غریب کی زندگی اجیرن کر ہی رہا ہے مگر غریب بھی غریب کے مسائل میں اضافہ کئے جا رہا ہے۔ ایک عام آدمی کیلئے یہ طے کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے کہ کرپشن کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام آدمی کی جوحالت ہے اگر آپ بھی عام آدمی ہیں تو خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ ایک طبقہ ایسا بھی ملے گا جو کہتا ہے “سب کے سب کو لٹکا دو” تاکہ آنے والی نسلوں کو کہ پیغام پہنچ جائے کہ اگر ہم نے ایسا کیا یا کرنے کی کوشش بھی کی تو ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔
ہمارا معاشرے کی اشرافیہ جو صاحبِ اقتدار بھی ہے نسل در نسل بے ایمانی، ناانصافی یا حرفِ عام میں کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام ہمارے احتساب کرنے والے ادارے سب کہ سب محکوموں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور حاکمِ وقت جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے اور کرواتا ہے کوئی ایسا ہاتھ نہیں ہے جو ان کے ہاتھوں کو روک سکے یا پکڑسکے۔
پچھلے زمانوں میں خدا کے قہر سے بچنے کیلئے اور اپنے گناہوں کا کفارہ اتارنے کیلئے قربانی دی جاتی تھی۔ یہ قربانی کسی دوشیزہ کی بھی ہوسکتی تھی یا پھر کسی جانور کی بھی ان لوگوں کا ماننا تھا کہ دیوتا کو ایسے منایا جاسکتا ہے اور شائد ان کے دیوتا ایسے مان بھی جاتے ہوں۔ جبھی تو وہ ہر بار ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ ہمارا ملک آئے دن کسی نا کسی مصیبت میں مبتلا رہتا ہے، آئے دن قدرتی آفات کسی نا کسی صورت میں ہمارے ملک کو گھیرے رکھتی ہیں۔ان حالات سے نجات حاصل کرنے کیلئے کہیں ہمیں بھی تو کسی قربانی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں تو صرف اور صرف انصاف کو بحال کروانا ہے باقی سارے قدرتی معاملات خود با خود ٹھیک ہوجائیں گے۔
یہ سیلاب یہ زلزلے یہ وبائی امراض اور سب سے بڑھ کر یہ کرپشن کا ناسور ختم ہوجائےگا۔ کرپٹ حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی فہرستیں مرتب دی جا چکی ہیں۔ اب بس انتظار اس گھڑی کا ہے کہ پہلے “قربانی” کون دے گا اور دے گا یا پھر لی جائے گی۔ ملک کو اور ملک کہ حالات کو سدھارنے کیلئے ہمیں کوئی نا کوئی بڑی قربانی دینی پڑے گی اور ابکی دفعہ یہ قربانی عوام نہیں خواص میں سے ہوگی۔