ہمارے دماغ کوئی ودیعت کردہ چیز نہیں
(بی بی سی اردو سائنس)
ادراکی سائنس دان ڈینیئل ڈینیٹ سمجھتے ہیں کہ ہمارا دماغ ایک ایسی مشین ہے جو اربوں چھوٹے چھوٹے ‘روبوٹوں’ یعنی عصبی خلیوں پر مشتمل ہے۔ تو کیا واقعی انسانی دماغ حقیقیت میں ایسا ہی ہے؟
1965 میں فلسفی ہوبرٹ ڈرائفس نے بیان دیا کہ انسان ہمیشہ کمپیوٹر کو شطرنج میں شکست دیتا رہے گا کیوں کہ انسان کے پاس وجدان کی صلاحیت ہے جس سے کمپیوٹر عاری ہے۔ ڈینیئل ڈینیٹ نے ان سے اختلاف کیا تھا۔
چند برس کے اندر اندر ڈرائفس کو اس وقت خجالت کا سامنا کرنا پڑا جب انھیں ایک کمپیوٹر نے مات دے دی۔
پھر مئی 1997 میں آئی بی ایم کے کمپیوٹر ‘ڈیپ بلو’ نے شطرنج کے عالمی چیمپیئن گیری کاسپاروف کو شکست دے کر دنیا کو چونکا دیا۔
بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ کیوں کہ شطرنج منطق کا کھیل ہے، اس میں وجدان کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ڈینیئل ڈینیٹ ہمیشہ سے یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ انسانی دماغ بھی مشین ہی ہے۔ ان کے لیے اہم سوال یہ نہیں ہے کہ کیا مشینیں انسان جیسی ذہین ہو سکتی ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا انسان اتنے ذہین ہیں؟
بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ وجدان بھی کوئی خصوصی حیثیت کی حامل شے نہیں ہے۔ ‘وجدان محض کسی چیز کا ادراک ہے، بغیر یہ جانے کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا۔’
ڈینیٹ مشہور فلسفی رینے دیکارٹ کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ انھوں نے ہمیشہ کے لیے انسانی ذہن کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کر دیا ہے۔
دیکارت کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ کوئی مشین سوچ، محسوس، یا تصور کر سکتی ہے۔ اس لیے ایسی صلاحیت صرف خدا کی طرف ہی سے ودیعت ہو سکتی ہے۔ لیکن دیکارت کی مشکل یہ تھی کہ وہ 17ویں صدی میں تھے جس زمانے کی مشینیں ریم اور سی پی یو کی بجائے پلیوں اور چرخیوں پر مشتمل ہوا کرتی تھیں۔
روبوٹوں سے بنے ہوئے روبوٹ
ہمارے دماغ میں تقریباً ایک کھرب عصبی خلیے ہیں۔ یہ تمام خلیے دراصل چھوٹی چھوٹی مالیکیولر مشینیں ہیں۔ ڈینیٹ کہتے ہیں کہ اگر آپ کو یہ بات سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے تو پھر آپ کا تخیل کمزور ہے۔
وہ کہتے ہیں: ‘کیا آپ ایک ایسی مشین کی طاقت کا تصور کر سکتے ہیں جو دس کھرب پرزوں سے بنی ہوئی ہو؟ ہم صرف روبوٹ نہیں ہیں، ہم روبوٹوں کے بنائے ہوئے روبوٹوں پر مشتمل روبوٹ ہیں۔’
ہمارے عصبی خلیے کیمیائی سگنلوں کی مدد سے کام کرتے ہیں۔ وہ ایسی پروٹینز بناتے ہیں جو بذاتِ خود روبوٹ ہیں۔
موبائل کی سکرین کی مانند
ظاہر ہے شعور حقیقی ہے۔ ہم ہر وقت اس کے تجربے سے گزرتے رہتے ہیں۔ لیکن ڈینیل ڈینیٹ کے لیے شعور اتنا ہی حقیقی ہے جتنی آپ کے موبائل یا کمپیوٹر کی سکرین ہے۔
سکرین پر ہم جو چیزیں دیکھتے ہیں انھیں کمپیوٹر کے ماہرین ‘صارف کا التباس’ قرار دیتے ہیں۔ ہم آئیکون دباتے ہیں جو مطلوبہ کام سرانجام دے دیتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم اس ڈیوائس کے ہارڈ ویئر کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ لیکن یہ اس کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے جو اس ڈیوائس کے اندر ہو رہا ہے۔ اور اس سے ہمیں ہارڈ ویئر کے کام بارے کچھ پتہ نہیں چلتا۔
ڈینیٹ کہتے ہیں کہ انسانی شعور کی بھی یہی مثال ہے۔ ‘یہ ہمارے دماغ کا ہمارے بارے میں پیدا کردہ التباس ہے۔’
یہ ہمیں بہت بڑی چیز لگتی ہے، لیکن اصل میں یہ کوئی اتنی خصوصی یا اہم چیز نہیں ہے۔ ڈینیٹ کہتے ہیں: ’دماغ کے لیے یہ سمجھنا ضروری نہیں ہے کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے۔’
ہم اتنے ذہین نہیں ہیں جتنا ہم خود کو سمجھتے ہیں
ہمیں معلوم ہے کہ ہم بندروں سے ارتقا پذیر ہو کر انسان بنے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا 99 فیصد ڈی این اے ہوبہو چمپینزی جیسا ہے۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارے رویے کے بہت سے اجزا ہماری حیوانی فطرت کے باعث ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری خصوصی صلاحیتیں، ہماری ذکاوت، تخلیقی قوت، بصیرت، یہ ساری چیزیں ہمیں خاص الخاص لگتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ چیزیں خاص ہیں اس لیے ان کا ماخذ بھی خاص ہو گا۔
لیکن ہمارے جسموں کی طرح دماغ بھی کروڑوں برس کے ارتقا کے بعد وجود میں آیا ہے۔ ارتقا لاکھوں صدیوں تک تجربات کرتا رہا، تب کہیں جا کر ہم نمودار ہوئے ہیں۔
ڈینیٹ کہتے ہیں کہ ارتقائی نقطۂ نظر سے ہماری سوچنے کی صلاحیت اور خوراک ہضم کرنے کی صلاحیت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
یہ دونوں حیاتیاتی عوامل ہیں جنھیں ڈارون کے نظریۂ ارتقا کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے، جسے عام طور پر ‘بقائے اصلح’ یعنی survival of the fittest بھی کہا جاتا ہے۔
کوشش و خطا
اگر ہم زیادہ ماضی میں چلے جائیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارا آغاز ایک جرثومے سے ہوا۔ ہمارے دماغ اپنی تمام تر حیرت انگیز صلاحیتوں کے باوصف کوئی ودیعت کردہ چیز نہیں ہیں بلکہ ان گنت حیاتیاتی تجربات کی پیداوار ہیں۔
جب کوئی جرثومہ خوراک کے ذرے کی طرف بڑھتا ہے تو خوردبین میں دیکھنے والے سائنس دان ان کی ذہانت کی داد نہیں دیتے۔ لیکن جب کوئی سائنس دان سوچ کو حیاتیاتی عمل قرار دیتا ہے تو لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
یہ تخفیف لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہے۔ یہ کہنا عجیب لگتا ہے کہ ذہن اعصابی خلیوں کے گچھے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
دیکارت نے مشینیوں کی قوت کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ ایلن ٹورنگ البتہ درست تھے۔
انھوں نے کہا تھا کہ 20ویں صدی کے اختتام تک ‘الفاظ کا استعمال اور پڑھے لکھے لوگوں کے تصورات اتنے بدل چکے ہوں گے کہ لوگ سوچتی مشینوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے نہیں ہچکچائیں گے۔’
1960 کی دہائی میں کمپیوٹر شطرنج کھیلنے کے زیادہ ماہر نہیں تھے۔ اب وہ جان کولٹرین کی طرح سیکسو فون بجا سکتے ہیں۔
سپر کمپیوٹر اور سمارٹ فونز کے اس دور میں یہ تصور کرنا محال نہیں رہا کہ اربوں کھربوں پرزوں پر مشتمل کوئی مشین انسانوں کی مانند سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھ سکتی ہے۔