وزراء کے آپسی بیر کے یرغمال وزیر اعظم

ملک تنویر احمد، Malik Tanvir Ahmed
ملک تنویر احمد، صاحبِ مضمون

  وزراء کے آپسی  بیر کے یرغمال وزیر اعظم

(ملک تنویر احمد)

وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف یرغمال بن چکے ہیں۔میں یہ پورے ہوش و حواس سے کہہ رہا ہوں کہ میاں نواز شریف وفاقی دار الحکومت کی سرسبز و شاداب مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع وزیر اعظم ہاؤس میں شاید اس وقت یر غمالی کے طور پر رہ رہے ہیں۔میاں صاحب کو فوج کے ادارے نے یر غمال بنایا ہے اور نا ہی عدلیہ وزیر اعظم صاحب کی اس حالت کی ذمہ دار ہے۔میاں نواز شریف کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے یر غمال بنایا ہوا ہے اور نا ہی سابق صدر آصف علی زرداری کو اس میں کوئی دخل ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو اس کے لئے مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے اور ناہی عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید نے میاں صاحب کو یر غمال بنانے کے لئے کوئی اقدام اٹھایا ہے۔در اصل میاں صاحب اپنی ہی کابینہ کے ان اراکین کے ہاتھوں یر غمال بن چکے ہیں جو ہمہ وقت ٹی وی اسکرینوں پر جلوہ افروز ہو کر پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد میاں صاحب کے وزارت عظمیٰ میں رہنے کے لئے قانونی اور اخلاقی جواز تراشنے کے ’’نیک مشن‘‘ میں جتے ہوئے ہیں۔پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلے میں دو ججوں نے میا ں صاحب کی صداقت و دیانت پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے ان کی نااہلی کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا۔ تین نے اگرچہ ان کی نااہلی پر مہر تصدیق ثبت نہیں کی تاہم اس معاملے کی چھان بین کے لئے مزید تحقیقات کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کچھ اس طرح سامنے آیا کہ دودھ اور پانی میں صراحت سے تخصیص کی جا سکے۔

اپوزیشن جماعتوں نے میاں صاحب کی بطور وزیر اعظم پاکستان اہلیت پر جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا ہے کہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں میاں نواز شریف کو چار سال اقتدار میں رہنے کے بعداخلاقی طور پر کچھ ایسے شکست دینا چاہتی ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات میں ایک بری شہرت کے ساتھ انتخاب لڑیں ۔ پانامہ کیس نے وزیر اعظم نواز شریف کی اخلاقی ساکھ کو شدید مجروح کیا اور فیصلے نے اس پر مزید تصدیق کی مہریں لگا دیں۔اس فیصلے کے بعد شاید میاں نواز شریف نے عالم تنہائی میں میں ایک پل کے لئے سوچا ہو کہ ان کے لئے اقتدار میں رہنے کا کوئی اخلا قی جواز اب نہیں بچا کہ پانچ جج صاحبان میں سے کسی ایک نے بھی انہیں ایمانداری کی سند عطا نہیں کی اور ان کے اور ان کے خاندان کے بیرون ملک اثاثوں اور جائیدادوں کے بارے میں مزید چھان بین کے لئے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا حکم دیا ۔

میاں صاحب کی اس فیصلے کے بعد جو بھی سوچ ہو ان کی کا بینہ کے کچھ وزراء میاں صاحب کو ہر صورت میں وزارت عظمیٰ پر براجمان دیکھنا چاہتے ہیں اور یہیں سے سارا معاملے بگاڑ کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ وزراء وزیر اعظم صاحب کی محبت وعقیدت میں اگر واری صدقے ہو رہے ہیں تو اس خوش فہمی کو دماغ سے نکال دینا چاہئے کیونکہ ’’حب نوا ز شریف‘‘ کی بجائے یہ ایک دوسرے کے بارے میں بغض و عناد کے ہاتھوں یہ سب کچھ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔یہ سب ایک معاملے پر یکسو ہیں کہ کسی بھی صورت میں میاں نواز شریف کو اقتدار سے الگ نہیں ہونے دینا کیونکہ اگر میاں نواز شریف اقتدا ر سے الگ ہو ئے تو ان وزراء میں سے کسی ایک کو وزیر اعظم کو منصب سنبھالنے کے لئے چننا پڑے گا جو ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے بارے میں نہیں چاہتا۔

اسحاق ڈار میاں نواز شریف کی ناک کا بال ہیں اور اس وقت وہ عملاً نائب وزیر اعظم کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو وزیر اعظم پاکستان کی راہ میں چوہدری نثار علی خان مزاحم ہوں گے جو میاں نواز شریف کے بعد اس عہدے کے لئے اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔چوہدری نثا ر علی خان کو اگر وزرات عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لئے اگر میاں نواز شریف کہیں تو وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کسی صورت اس پر آمادہ نہ ہوں گے۔ خواجہ آصف اور چوہدری نثا ر علی خان کے درمیان آپس میں بات چیت عرصہ دراز سے منقطع ہے اور وفاقی کابینہ کا حصہ رہتے ہوئے بھی وہ ایک دوسرے سے کچھ ایسے ہی قطع تعلق کئے ہوئے ہیں جیسے ایک گھر میں دو سو کنیں ایک دوسرے سے ترک تعلق کئے ہوتی ہیں۔

چوہدری نثار علی خان کی موجودگی میں خواجہ آصف کی بطور وزیر اعظم نامزدگی قطعی طور پر خارج از امکان ہے۔نواز لیگ کا سافٹ فیس چوہدری احسن اقبال وزارت عظمیٰ کے لئے ایک چوائس ہو سکتے ہیں لیکن اسحاق ڈار، نثار علی خان اور خواجہ آصف جیسے ہیوی ویٹس کی موجودگی میں ان کی دال گلنے سے رہی اور شاید کچھ وزراء اسے قبول کرنے پر آمادہ بھی نہ ہوں ، شاہد خاقان عباسی بھی اسی صف میں کھڑے ہیں جن کی راہ میں بہت سے مسلم لیگی وزراء حائل ہو جائیں۔

بزبان واقفان حال نواز لیگی وزراء کا آپس کا بیر اتنا شدید ہے کہ وہ کسی طور اپنی صفوں میں سے کسی کو وزیر اعظم نامزد ہوتا نہیں دیکھ سکتے اس لئے وہ میاں نواز شریف کو ہمہ وقت یقین دلاتے رہتے ہیں کہ ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف۔ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔ان وزراء نے اپنے عزائم کی آبیاری کے لئے میاں نواز شریف کو یر غمالی حالت کا شکار کر ڈالا ہے اس لئے ان میں سے ایک نے بھی وزیر اعظم کے گوش گزار نہیں کیا کہ میاں صاحب!

تاریخ نے آپ کے ہاتھ میں ایک سنہری موقع تھما دیا ہے ۔آپ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ساری گرد کو اپنے دامن سے جھاڑ سکتے ہیں جو پانامہ کیس کی صورت میں اڑائی گئی اور جس نے آپ کی دیانت اور صداقت پر بدبودار نقش ثبت کر دیے ہیں۔آپ اس فیصلے کے بعد اخلاقی ساکھ بحال کر سکتے ہیں۔وزیر اعظم کے عہدے سے رضا کارانہ دو ماہ کے لئے الگ ہو کر آپ ملک کی تاریخ میں ایسے امر ہو جائیں گے کہ جس کی نظیر آج تک ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔آپ پاکستان کے خوش قسمت ترین فرد ہیں کہ تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے۔

اقتدار و اختیار کے چشموں سے بارہا فیض یاب ہونے کے بعد اب آپ کو قدرت نے موقع فراہم کیا ہے کہ تاریخ میں زندہ رہ جائیں تاہم آپ کے وزرائے کرام آپ کو اس اعزاز سے محروم کر رہے ہیں ۔ اپنے عزائم اور خواہشات کی تکمیل اور ان کی باہمی حریفانہ آویزش میں آپ بطور وزیر اعظم یر غمال بن چکے ہیں اور اس تاریخ ساز لمحے کو اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہیں جو شاید پھر پلٹ کر نہ آئے کیونکہ خوش قسمتی کا ہما آپ کی نہیں قدرت کے دام گرفت میں ہوتا ہے۔