غربت ، حقوق کی کمی یا پیسے کی؟
( شاداب مرتضی)
ولیم ایسٹرلی ایک امریکی معیشت دان ہیں اور نیویارک یونیورسٹی میں اقٹصادیات پڑھاتے ہیں۔ اپنی ایک کتاب The Tyrrany of Experts میں وہ غربت کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں کہ غربت پیسے کی کمی نہیں بلکہ حقوق کی کمی کا نام ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ ہماری ناقص عقل کو اس تعریف سے یہ سمجھ آتا ہے کہ غریب وہ نہیں جس کے پاس دولت نہیں بلکہ غریب وہ ہے جس کو انسانی حقوق میسر نہیں۔ اس بات پر مزید غور کرنے سے ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ حقوق کا تعلق دولت سے نہیں ہے اور دولت کا کوئی لینا دینا حقوق سے نہیں ہے۔ گویا ضروری نہیں کہ جس کے پاس دولت ہو اس کو انسانی حقوق بھی حاصل ہوں اور نہ یہ لازم ہے کہ جو شخص اپنے جملہ حقوق سے مستفید ہو رہا ہے وہ دولت مند ہو۔ گویا ایسی بھی کافی مثالیں ہو سکتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس دولت تو ہے لیکن انہیں انسانی حقوق حاصل نہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس دولت نہیں لیکن وہ اپنے حقوق سے اچھی طرح فیضیاب ہو رہے ہیں! تجزیے میں یہاں تک پہنچ کر اگر آپ کے منہ سے غربت کی اس انتہائی احمقانہ، شعبدہ گر اور حقیقت سے کوسوں دور تعریف پر قہقہہ نہ نکل پڑا ہو تو جان لیجیے کہ آپ نیو لبرل ازم کی عامیانہ، خیالی اور طفلانہ منطق کے سحر سے باہر نہیں نکلے۔ لیکن ہمارا قہقہہ تو کب کا چھوٹ چکا۔ کیوں؟ یہ جاننے کے لیے آئیے کچھ سوالات پر غور کرتے ہیں جن کا تعلق ہماری روزمرہ زندگی سے ہے اور جن کا جواب تلاش کرنے کے لیے اقتصادیات کا ماہر ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔
سوالات یہ ہیں:
زندگی ہر شخص کا حق ہے اور زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز خوراک ہے۔ لیکن کیا ہم کھانے پینے کی چیزیں بغیر پیسے کے حاصل کر سکتے ہیں؟
ہم جانتے ہیں کہ ہر شخص کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے لیکن کیا پیسے کے بغیر ہمیں اور ہمارے بچوں کو تعلیم ملتی ہے؟
بیماری سے پاک صحت مند زندگی ہر شخص کا حق ہے لیکن کیا پیسے کے بغیر علاج معالجے اور صحت کی سہولیات ہمیں دستیاب ہیں؟
رہائش و گزر اوقات کے لیے گھر ہر شخص کا حق ہے لیکن کیا پیسے کے بغیر ہم گھر یا رہائشی سہولت حاصل کرسکتے ہیں؟
انصاف ہر شخص کا حق ہے لیکن کیا انصاف دلانے پر معمور وکیل فیس لیے بغیر ہمارا مقدمہ لڑے گا؟
ان عام بنیادی سوالوں کے جواب سب کو معلوم ہیں۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارے سرمایہ دارانہ معاشرے میں خوراک، تعلیم، علاج، رہائش، انصاف الغرض انسانی ضرورت کی ہر چیز ایک بازاری جنس ہے جسے خریدنے کے لیے ہمیں پیسہ درکار ہے۔ ہم جتنا زیادہ پیسہ خرچ کریں گے ہمیں اسی قدر اچھی چیز ملے گی۔ مثلا تعلیم کو لے لیجیے۔ جتنا مہنگا اسکول اسی قدر اچھی تعلیم۔ علاج کو لیں تو جتنا مہنگا ہسپتال اسی قدر اچھا علاج معالجہ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام انسان برابر ہیں اور سب انسانوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ لیکن ہم یہ بھی خبر ہے کہ لبرل سرمایہ دارانہ معاشی نظام پر استوار معاشرے میں یہ حقوق ملتے انہی انسانوں کو ہیں جن کے پاس انہیں حاصل کرنے کے لیے پیسہ موجود ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ایک عام آدمی کو اس ملک میں انصاف نہیں ملتا لیکن ایک کرپٹ دولت مند مجرم ہوتے ہوئے بھی قانون کی گرفت سے آزاد رہتا ہے؟ کیوں؟ اس لیے کہ عام آدمی کے پاس پولیس، وکیل اور جج کو رشوت دینے کے لیے پیسے نہیں اور نہ ہی غریب ہونے کی وجہ سے سیاسی یا انتظامی طاقت ہے۔ اس سے بڑے سیدھے سادھے طریقے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سب انسانوں کو حقوق خیالی، اصولی یا تجریدی طور پر حاصل تو ہیں لیکن لبرل سرمایہ دارانہ معاشرے میں حقیقت میں یہ حقوق صرف انہی انسانوں کو ملتے ہیں جو ان کے لیے پیسہ خرچ کر سکتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں غربت اور انسانی حقوق کا براہِ راست تعلق پیسے سے ہی ہوتا ہے اور پیسہ نہ ہونے کے سبب غریب طبقہ بنیادی حقوق سے جزوی یا کلی محرومی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
ویسے تو ہم سب کے زہن شعوری یا لاشعوری طور پر لبرل سرمایہ دارانہ فکر کے ایسے اسیر ہو چکے ہیں کہ یہ خیال ہی ہمارے لیے اجنبی، اچھوتا اور ناممکن یے کہ ہمیں خوراک، تعلیم، علاج معالجے اور صحت کی سہولیات، گھر، انصاف وغیرہ جیسے حقوق بغیر پیسہ خرچ کیے، یعنی مفت میسر ہوں! لیکن دنیا میں پہلے بھی اور آج بھی ایسے معاشرے موجود ہیں جہاں انسان ان بنیادی حقوق کے حصول کے لیے پیسے کا محتاج نہیں ہے۔ کیوبا اور شمالی کوریا کی سوشلسٹ ریاستیں اپنے تمام شہریوں کو یہ حقوق بغیر پیسہ لیے فراہم کرتی ہیں کیونکہ ان کی معیشت اور سیاسی نظام کا مقصد کاروبار سے دولت کمانا نہیں بلکہ اپنے شہریوں کی انسانی ضروریات پوری کرنا ہے۔
ہمارے سامنے ہمارے سماج میں گزشتہ ایک صدی سے دو مختلف معاشرے موجود ہیں۔ ایک طرف لبرل سرمایہ دار معاشرے ہیں جن میں غربت اور حقوق کے درمیان دولت کی فصیل حائل ہے۔ ان میں عوام بنیادی حقوق سے اور اضافی حقوق سے اس لیے محروم ہیں کہ وہ دولتمند نہیں اور دولتمند سرمایہ دار، تاجر، زمینداروں کو اپنی دولت کے سبب ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ دولت کی بے پناہ طاقت نے انہیں عوام کے حقوق سلب کرنے کا حق بھی دے رکھا ہے۔ دوسری جانب سوشلسٹ معاشرے ہیں جہاں غربت اور حقوق کے درمیان دولت کی دیوار گرادی گئی ہے جس کے سبب کوئی بھی شہری اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے پیسے کا محتاج نہیں ہے۔