بچوں کے لیے سائنسی ادب کی ضرورت اوراہمیت
ذوالفقار علی
(افسر تعلقات عامہ ، اردو سائنس بورڈ، پاکستان)
یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی تشکیل، ترقی اورترویج کے لیے ادب نے ہمیشہ کلیدی کرداراداکیاہے۔ہر دورمیں انسان کی فلاح، خوشحالی اورترقی کی غرض سے نئی نسل کی اچھی تعلیم وتربیت ، تعمیر اورتشکیل کے لیے سائنسی ادب بے حد اہمیت کا حامل رہا ہے۔ سائنس ہمیں ترقی کی راہیں دکھاتی ہے اورادب ان راہوں کو سمجھنے میں مدددیتاہے۔ سائنس ہمیں علم سے روشناس کرتی ہے اورادب ہمیں اس علم سے استفادہ کرنے کا شعوردیتاہے۔ بچوں کوکس عمرمیں سائنس میں کیا پڑھا یا جائے ، کیوں اورکیسے پڑھایاجائے ؟ ہمارے معاشرے میں بچوں کے لیے سائنسی ادب کی کیا اہمیت ہے؟یہ بہت اہم سوالات ہیں اورعام طورپر ہمارے ہاں اس موضوع پر بات نہیں کی جاتی ۔اس بات کو مدنظررکھتے ہوئے اردو سائنس بورڈ، قومی تاریخ وادبی ورثہ ڈویژن نے اکادمی ادبیاتِ اطفال اورماہنامہ ’’پھول‘‘ کے اشتراک سے ’’بچوں کے سائنسی ادب کی ضرورت اوراہمیت‘‘ کے موضوع پر سیمینارمنعقدکیا۔سیمینارمیں بچوں کے لیے سائنسی ادب کے حوالے تفصیلی بحث کی گئی۔مقررین نے اس بات پر زوردیاکہ نئی نسل کو سائنس اورٹیکنالوجی بالخصوص کتب بینی کی طرف راغب کرنے کے لیے سائنسی ادب کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سیمینارکے مہمان خصوصی معروف ادیب اورڈائریکٹرمجلس ترقی ادب ڈاکٹر تحسین فراقی تھے ۔ سیمینارکی صدارت ڈائریکٹرجنرل اردو سائنس بورڈ ڈاکٹرناصر عباس نیّر نے کی۔
ڈاکٹر تحسین فراقی (جنھوں نے بچوں کے لیے بھی تین کتابیں لکھی ہیں )نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نئی نسل کے لیے عمدہ سائنسی ادب کی تخلیق کے ذریعے بچوں کی بہترتعلیم وتربیت ممکن ہے ۔اس سے بچوں کو آئندہ زندگی میں درپیش چیلنجوں کو احسن طریقے سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیارکیاجاسکتاہے ۔انہوں نے کہاکہ اردو دنیاکی تیسری بڑی زبان ہے ۔ اپنی زبان میں تخلیق کردہ ادب ہی معاشرے میں فروغ پاسکتاہے اوربچوں کو کامیاب انسان بنانے میں مددگارثابت ہوسکتاہے۔ہم بچوں کے لیے سائنسی ادب تخلیق کرنے کے لیے اپنے اسلاف اورمشاہیر کی تخلیقات سے آج بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ڈاکٹر تحسین فراقی نے زوردے کرکہاکہ نئے لوگ آگے آئیں اوربچوں کے لیے جدید خطوط اوردورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ اورنئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سائنسی ادب تخلیق کریں۔انہوں نے اسلام اورسائنس کے باہمی تعلق پر سیر حاصل گفتگو کی اور تاریخی مثالوں کے ساتھ واضح کیا کہ پہلے ادوار میں بھی مسلمان ادیب سائنس کو نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ انہوں نے ان پر بہترین کتابیں بھی تصنیف کیں۔
ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ ڈاکٹر ناصر عباس نیّرنے سیمینارکے شرکا کا شکریہ اداکرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہاکہ مغرب میں اٹھارویں صدی اور ہمارے یہاں انیسویں صدی کے اواخر میں بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے کا خیال پیدا ہوا۔بچوں کے ادب میں دو ہی مقاصد کو پیش نظر رکھا جاتاہے: تعلیم اور تفریح۔جہاں یہ دونوں اکٹھے ہوں،وہ ادب زیادہ مقبول ہوتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اکثر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ بچے پڑھتے نہیں، وہ سارا دن موبائل اور انٹرنیٹ پر کھیلتے رہتے ہیں۔ایک حد تک یہ شکایت بجا ہے ،لیکن اس کی ذمہ داری بچوں سے زیادہ بڑوں پر عائد ہوتی ہے۔اگر گھر ، سکول اور سماج میں کتاب کی اہمیت کا احساس موجود ہوگا تو بچے بھی اس کی طرف راغب ہوں گے۔نیز نصاب میں کتب بینی کو لازمی حصہ بنا کر ،اور اسے امتحانی نظام سے وابستہ کرکے، بچوں کومطالعہ کتب کی طرف راغب کیاجاسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ بچوں کے لیے جس طرح کے ادب کی ضرورت ہے وہ ہمارے ہاں کم ہی ستیاب ہے۔ بچوں کے ادیبوں کو وہ عزت اور مرتبہ نہیں ملتا جو بڑوں کے لیے لکھنے والوں کو ملتا ہے ۔بچوں کے لیے سائنسی ادب کی تخلیق کے لیے ان کی نفسیات ، دلچسپیوں اورذہنی استعداد کو خاص طورپر مدنظررکھاجاناچاہیے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ بچوں کے لیے سائنسی کتب پر اردو سائنس بورڈ جلد ایوارڈ کا اجراکرے گا اوربچوں کے سائنسی ادب کے بارے میں ایک ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ڈاکٹرناصر عباس نیّر نے بتایاکہ بورڈ نے اب تک تقریباًساڑھے آٹھ سو سے زائد کتابیں، لغات اور انسائیکلوپیڈیا شائع کیے ہیں جن میں سے ڈیڑھ سو کتب بچوں کے لیے آسان زبان میں شائع کی گئی ہیں ۔ان کتابوں میں سائنس فکشن ، سائنسی کہانیاں اورسائنسی معلومات شامل ہیں۔انہوں نے کہاکہ بچوں کے لیے لکھنا آسان کام نہیں ہے ۔بچوں کے ادیبوں کی خدمات قابل ستائش ہیں ۔اردو سائنس بورڈ سائنس اورٹیکنالوجی پر لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کئی انقلابی اقدامات کررہاہے۔بورڈ ہر ماہ مختلف موضوعات پر فکری نشستوں اورلیکچرزکا باقاعدگی سے اہتمام کررہاہے۔
ماہنامہ ’’پھول‘‘کے مدیرمحمد شعیب مرزانے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ یہ سیمیناربچوں کے لیے ادب کی تخلیق اوراس کے فروغ کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا۔بچوں کے ادب میں سائنس فکشن اورمزاح کی ہمیشہ کمی رہی ہے۔بچوں میں سائنسی ادب کے مطالعہ کا شوق پیداکرکے ان میں قوتِ تخیل ، تحیّر اورجستجو میں اضافہ ہوگا۔ سائنسی ادب کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ ادیبوں کو سائنس کے قریب کیا جائے ۔ بچوں کے لیے سائنسی ادب کے فروغ کے لیے سرکاری ادارے ادیبوں کی حوصلہ افزائی اورتربیت کا بندوبست کریں۔ قومی اورصوبائی سطح پر مختلف سائنسی مقابلوں کا اہتمام کیاجائے۔
ڈاکٹرطارق ریاض خان ، جو ادبی حلقوں میں سائنسی بابو کے نام سے مشہورہیں، نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ سائنس ایک طرزِ عمل، طرزِ فکر اورطرزِ زندگی کا نام ہے،اور مذہب سے اس کا ٹکراؤ نہیں ہے۔ معاشرے میں سائنسی طرزِ زندگی اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ کتاب ذہن سازی میں اہم کردارادا کرسکتی ہے۔ ہمیں مطالعہ کتب کو اپنے کلچر کا لازمی حصہ بناناہوگا۔
وائس چیئرمین اکادمی ادبیاتِ اطفال حافظ مظفر محسن نے کہا کہ بچوں کے لیے ادب کم اور سائنسی ادب تو اس سے بھی کم ہے۔ سائنسی ادب کو کہانی کے انداز میں دل چسپ پیرائے میں پیش کیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹراشفاق احمد ورک(مشہور مزاح نگار اور ایف سی کالج کے استاد) نے کہا کہ اردو میں بچگانہ ادب زیادہ لکھا جارہا ہے اور بچوں کے لیے کم ۔ ڈاکٹر غفور قاسم شاہ (استاد شعبہ اردو، ایف سی کالج،لاہور) نے رائے ظاہر کی کہ بچوں کو نصابی کتب کے ساتھ ساتھ دل چسپ سائنسی کتب بھی پڑھائی جانی چاہییں۔انھوں نے اردو سائنس بورڈ کی خدمات کو سراہا۔ ڈاکٹر حمیراارشاد (صدر شعبہ اردو ،لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی،لاہور)نے کہا کہ بچوں میں سائنسی فکر کو ان کی اپنی زبان اردو میں ہی میں پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ ،پروفیسر شاہ زیب خان(شعبہ انگریزی ، پنجاب یونیورسٹی) نے کہا کہ ہم بین العلومی عہد میں جی رہے ہیں،جس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس اور ادب میں وہ فاصلہ نہیں جو کبھی تصور کیا جاتا تھا۔پاکستانی ادیب ، سائنسی بیانیے کی تشکیل میں مدد دے سکتے ہیں،اور سائنس دان و سائنسی مفکر ادب کی تفہیم میں نئے رویوں سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ زاہد حسن( ممتاز پنجابی فکشن نگار) نے تما م ’’قومی زبانوں ‘‘ کی لوک کہانیوں کو اردو میں منتقل کرکے بچوں کو پڑھانے پپر زور دیا۔ نوید مرزا (بچوں کے ادیب)نے بچوں کے ادیبوں کے لیے قومی ایوارڈ کے اجرا کا مطالبہ کیا۔اس سیمینار میں اردو سائنس بورڈ کے ریسر چ آفیسر جمیل احمدا ورزاہد ہ حمید نے بھی اظہارِ خیا ل کیا۔سیمینارمیں معروف سائنس فکشن رائٹرتسنیم جعفری،نذیرانبالوی،امتیازعارف، خالدنجیب خان،تاثیر مصطفی، قمرعلوی،نادرکھوکھر، محمد اکرم ،حامدریاض کھوکھر، ضمیر آفاقی، شائستہ شریف،حمیرااسلم، اکرم سحرفارانی، حسیب اعجازعاشر،عمیرہ بودلہ، قیصرہ ناہید، عمارہ رشید، ڈاکٹر عروبہ صدیقی ،آغر ندیم سحر، حافظ جنیدرضاسمیت طلبا، اساتذہ ، بچوں کے ادب کے ماہرین ، کالم نگار، ادیب اور دیگر افراد نے بڑی تعدادمیں شرکت کی۔بورڈ کے افسرتعلقات عامہ ذوالفقارعلی نے نظامت کے فرائض انجام دیے اورسینئر ریسرچ آفیسر جمیل احمد نے بورڈ کا تعارف پیش کیا۔