بائیو میٹرک معلومات اور شخصی حقوق
(سوتک بسواس)
‘میری انگلیوں کے نشان اور میری آنکھیں صرف میری ہیں۔ ریاست میرے جسم کواپنے قبضے میں نہیں لے سکتی۔’ یہ جملے انڈیا میں شیام دیوان نامی وکیل نے سپریم کورٹ میں پچھلے ہفتے دلائل دیتے ہوئے کہے۔
شیام دیوان ایک اہم مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے دلائل دے رہے تھے جس میں ایک پیٹیشن کے ذریعے انڈیا میں نافذ ہونے والے ایک نئے قانون کو چیلینج کیا جا رہا ہے۔
اس قانون کے تحت عوام پر یہ لازم ہوگا کہ انکم ٹیکس کی تصفیلات جمع کراتے ہوئے وہ ایک نیا، اور متنازع بائیو میٹرکس پر مبنی شناختی کارڈ کا نمبر بھی جمع کرائیں۔
اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل مکل رہوتاگی نے دلیل دی کہ کسی انفرادی شخص کا ‘اپنے جسم پر مکمل اور غیر مشروط حق نہیں ہے۔’
‘آپ کا اپنے جسم پر حق ضرور ہوتا ہے لیکن چونکہ ریاست انسانی جسم کے اعضا کی تجارت کے خلاف پابندی عائد کر چکی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ریاست انسانی جسم پر حق رکھتی ہے۔’
اس مقدمے میں بنیادی تنازع بائیومیٹرکس ڈیٹا کی حفاظت اور سیکورٹی کا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ بائیو میٹرکس ڈیٹا کو شناختی کارڈ سے منسلک کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ انکم ٹیکس جمع کرانے میں کسی قسم کی دھوکہ دہی کو روکا اور پکڑا جا سکے۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک انڈیا کا بائیو میٹرکس ڈیٹا دنیا میں سب سے بڑا ہے۔
گذشتہ آٹھ سالوں میں حکومت نے ملک کی ایک ارب سے زائد آبادی کی انگلیوں کے نشانات اور آنکھوں کے سکین کر لیے ہیں جو کہ مکمل آبادی کا 90 فیصد بنتا ہے۔ اس تمام ڈیٹا کو ایک انتہائی محفوظ ڈیٹا سینٹر میں جمع کر دیا گیا ہے اور ہر شخص کو اس کے بدلے میں ایک 12 ہندسوں پر مبنی شناختی نمبر دیا گیا ہے۔
ایک عشاریہ دو ارب کی آبادی کے ملک میں صرف ساڑھے چھ کروڑ افراد کے پاس پاسپورٹس ہیں جبکہ صرف 20 کروڑ افراد کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہیں۔ اس صورتحال میں بائیو میٹرکس پر مبنی شناختی نمبر ان تمام افراد کے لیے بہت اہم ہے جن کے پاس حکومتی دستاویزات نہیں ہیں۔
‘ادھار’ کے نام سے مشہور یہ بائیو میٹرکس پر مبنی شناختی نمبر مختلف ریاستوں میں استعمال کیا جا رہا ہے جس کی مدد سے حکومت کے لیے پنشن کی منتقلی، طلبہ کے لیے سکالرشپ، غریبوں کو کھانا تقسیم کرنا اور مزید کئی کام کرنا آسان ہو گیا ہے۔
لیکن گذشتہ کئی سالوں کے بعد اس شناختی نمبر نے اتنی اہمیت اختیار کر لی ہے کہ کئی ناقدین کے مطابق اس نمبر نے لوگوں کی زندگیوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار پرتاپ باہنو مہتا کہتے ہیں کہ ادھار اب شہریوں کو حقوق اور اختیارات دینے کے بجائے اب ریاست کے لیے ایک ایسے آلہ بن گیا ہے جس کی مدد سے وہ شہریوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔
انڈیا میں 1200 سماجی بہبود کی سکیمز میں سے 500 سے زائد سکیمز اس نمبر کا استعمال لازمی قرار دینے والی ہیں جبکہ بینک اور دوسرے اداروں نے اس نمبر کی مدد سے صارفین کی تصدیق شروع کر دی ہے۔
انڈیا میں نیوز ویب سائٹ میڈیا نامہ کے مدیر اور ناشر نکھل پاہوا نے کہا کہ ‘اس نمبر کی مدد سے عوام کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے موبائل نمبر، بینک اکاؤنٹ، ٹیکس گوشوارے، پنشن، صحت اور بہت کچھ سب ایک ساتھ منسلک کر دیں جس سے ڈر ہے کہ عوام کی ذاتی معلومات خطرے میں پڑ سکتی ہے۔’
یہ خدشات بغیر کسی وجہ کے نہیں ہیں۔
گو کہ حکومت نے یہ بات مسلسل دہرائی ہے کہ عوام کی معلومات اور بائیو میٹرک ڈیٹا محفوظ ہے اور کوئی بھی شخص جو اس ڈیٹا کو لیک کرے گا اس کو جیل کی سزا ہوگی۔
لیکن اس کے باوجود ایسے کئی کیسز سامنے آئے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طلبہ، پنشن حاصل کرنے والے ملازمین، اور سماجی بہبود کے تحت مدد حاصل کرنے والوں کی تفصیلات لیک ہو گئی ہیں۔ حتی کہ انڈیا کے معروف کرکٹر مہندر دھونی کی ذاتی معلومات بھی سامنے آگئی تھیں۔
اور اب ایک پریشان کن رپورٹ سامنے آئی ہے جس کے مطابق تقریباً 13 کروڑ ادھار نمبر اور 10 کروڑ پنشن گزاروں کے بینک نمبر حکومت کی چار سماجی بہبود کی سکیمز نے انٹرنیٹ پر شائع کر دی ہیں۔
ملک بھر میں 23 کروڑ سے زیادہ افراد ان نمبر کی مدد سے سماجی بہبود کی سکیمز سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور رپورٹ کے مطابق ‘خدشہ ہے کہ لیک ہونے والے نمبروں کی تعداد اتنی ہی ہو۔’
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس نمبر کو مختلف ڈیٹا بیس سے منسلک کرنے کی وجہ سے معلومات کی چوری کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل مکل رہوتاگی کے مطابق یہ صرف بلاوجہ کی پریشانی ہے۔ انھوں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ‘بائیو میٹرکس کی تفصیلات نہیں بلکہ صرف ادھار نمبر لیک ہوئے تھے’۔
حکومت نے کہا ہے کہ انھوں نے 34000 سے زائد سروس دینے والے اداروں کو منسوخ کر دیا ہے جنھوں نے نقلی شناختی نمبر بنائے تھے۔ دو سال قبل حکومت نے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا جس نے اپنے پالتو کتے کے لیے شناختی نمبر حاصل کیا تھا۔
اس کے علاوہ حکومت نے 85 لاکھ شناختی نمبروں کو منسوخ قرار دیا تھا کیونکہ ان کے بائیو میٹرک غلط تھے یا وہ نمبر دہرائے گئے تھے۔
پچھلے ماہ 40000 سے زیادہ کسانوں کو اپنی فصلوں کے ضائع ہونے کے بعد بینکوں سے معاوضہ حاصل کرنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ان کے ادھار نمبر بینکوں نے غلط درج کیے تھے۔
اس کے علاوہ مزید خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ ان نمبروں کی وجہ سے حکومت عوام پر نظر رکھ سکتی ہے۔
حال ہی میں حکام نے جنوبی انڈیا میں ایک یونیورسٹی میں ہونے والی تقریب میں شریک ارکان سے ان کے ادھار نمبر طلب کیے۔
رپورٹ کے مصنف سری نواس کوڈالی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ یہ معاملہ صرف پرائےویسی کا نہیں ہے بلکہ اس بات کا ہے کہ ادھار نمبر اظہار رائے کے لیے بھی خطرہ ہے، جو کہ ہمارا آئینی حق ہے۔’
ناقدین کے مطابق اصل خطرہ یہ ہے کہ حکومت اس نمبر کو مختلف کاموں کے لیے لازمی قرار دے رہی ہے جو کہ سپریم کورٹ کے ایک حکم کی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ادھار نمبر حاصل کرنا رضاکارانہ ہوگا۔
ماہر اقتصادیات جین ڈریزے کا کہنا ہے کہ ‘ادھار نمبر کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عوام کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔’
ادھار نمبر کا پروگرام قائم کرنے والے ٹیکنالوجی کے ماہر نندن نلکانی کہتے ہیں کہ ذاتی معلومات اور بائیو میٹرک کی حفاظت کے خدشات صرف مبالغہ آرائی ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ یہ پروگرام بالکل محفوظ ہے۔
پرتاپ باہنو مہتا نے لکھا ہے کہ ادھار نمبر بہت آسانی سے حکومت کے لیے ایک ایسا آلہ بن سکتا ہے جس سے وہ عوام کو مسلسل دباؤ میں رکھ سکتے ہیں۔
اس لحاظ سے ادھار نمبر کے لیے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے بائیو میٹرک ڈیٹا بیس کو کیسے محفوظ کیا جائے۔ اور یہ شناختی نمبر کس حد تک لوگوں کی زندگی میں ملوث ہونا چاہیے۔
جیسا کہ وکیل شیام دیوان نے عدالت میں دلیل دی، ادھار نمبر کے بارے میں بحث انڈیا کے مستقبل کی بحث ہے۔
‘اگر ریاست لوگوں کی زندگیوں کو اس قدر قریب سے نگرانی کرے گی تو عوام ان کے لیے جاگیر بن جائیں گے۔’
بشکریہ: بی بی سی نیوز