ترقیاتی منصوبوں کا سراب
(ملک تنویر احمد)
پانامہ کیس فیصلے میں سیاسی و اخلاقی طور پر بری طرح مجروح ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف جب اپنے سیاسی مخالفین کے احتجاج پر انہیں آڑے ہاتھ لیتے ہوئے انہیں انتشار و منفی سیاست کا الزام دیتے ہیں تو یہ ایک ہارے ہوئے شخص کے لہجے کا قطعی طور پر اسی طرح پتا دیتا ہے جس طرح انقلاب ایران کے درو بام پر دستک دے رہا تھا تو شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی ایرانی عوام کو خبردار کر رہے تھے کہ میرے مخالفین آپ کو وحشت کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔شہنشاہ اور جمہوریت کے لبادے میں شہنشانہ مزاج رکھنے والے حکمران ان تلخ زمینی حقائق سے صرف نظر کرنے کی روش پر مضبوطی سے کاربند ہوتے ہیں وگرنہ اپنے گرد و پیش میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات و واقعات کو کچھ اس طرح نظروں سے نہ اوجھل ہونے دیتے۔
جس طرح شہنشاہ ایران نے اپنے خلاف پلنے والے عوامی جذبات کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا ہوا تھا یا آج میاں نواز شریف ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے سراب کا شکار ہو کر تلخی ایام سے بے بہرہ ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کی اس نام نہاد پالیسی نے اگر موجودہ حکومت کے آخری برس فروغ پذیر ہونا تھا اور وہ بھی پانامہ کیس کے اس فیصلے کے بعد جب حکمران خاندان کے سربراہ اور اس کے بچوں کے گرد جے آئی ٹی نامی پھندا کسا جا رہا ہے تو اس کٹھن وقت میں آسمانی قوتوں کے علاوہ کوئی بھی آپ کی داد رسی نہیں کر سکتا۔
لیکن آسمانی قوتیں بھی شاید اس وقت اس وقت کو ہ المپس بیٹھے ہوئے دیوتاؤں کی طرح آپ کے خلاف فیصلہ صادر کر چکے ہیں جن کا کام انسانی قسمت سے کھیلنا ہو تا تھا۔ یہ دیوتا کسی سے فاش غلطی کا ارتکاب کروا ڈالتے تھے اور پھر انہیں پیہم غلطیوں کی اس راہ پر ڈال دیتے تھے جس کا منطقی انجام انسان کی مکمل و تباہی و بربادی ہوتا تھا۔پانامہ لیکس تو ویسے بھی آسمانی قوتوں کی کارستانی لگتی ہے جس نے ہمارے کم گو و مرنجاں مرنج صدر مملکت ممنون حسین کو بھی بولنے پر مجبور کر ڈالا تھا جو گزشتہ برس پانامہ لیکس کو آسمان سے نازل کردہ ناگہانی آفت قرار دے چکے ہیں۔میاں نواز شریف ترقیاتی منصوبوں کے دھڑا دھڑ افتتاح کے جس سیل رواں میں بہے چلے جا رہے ہیں وہ اقتدار کے آخری برس با عث تعجب اور مضحکہ خیز ہے۔
اقتدار میں آنے سے پہلے میاں نواز شریف نے جن بلند و بانگ اور دلنشین انتخابی نعروں کے ساتھ اس قوم کو لبھایا تھا وہ روز اول سے ناقابل عمل تھے اور آج حکومت کے آخری برس جب وہ منصوبوں کے افتتاح کے فیتے کاٹ رہے ہیں تو یہ اور بھی با عث حیرت او ر افسوس ناک ہے کیونکہ ان چار سالوں میں توبر سر زمین ان منصوبوں کو فعال ہوتا نظر آنا چاہئے تھے جس کا انہوں نے انتخابات کی مہم کے دوران بلند آہنگ سے قوم سے وعدہ کیا تھا ۔اقتدار کے آخری برس اگر وہ فقط ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے سرخ فیتے کاٹنے کے بیکار شغف میں مبتلا ہیں تو اس پر شیکسپےئر کے دو جملے میاں نواز شریف کے پورے دور اقتدار کو کوزے میں بند کر دیں گے ۔بقول شیکسپیئر
His promises were, as he then was, mighty;
But his performance, as he is now, nothing
گزشتہ چار برسوں میں حکومتی کارکردگی کو اگر ایک دو میٹرو منصوبوں اور چند سڑکوں سے جانچنے کا نسخہ میاں صاحب کے ذوق تخیل کا آئینہ دار ہے تو اسے ان کی سادہ لوحی سے زیادہ ان کی نا عاقبت اندیشی پر محمول کرنے کو جی کرتا ہے۔انفراسٹرکچر کے چند منصوبے اگر قوم کی ترقی و کامرانی کا معراج سمجھے جاتے تو آپ کو بجا طور پر ان تاریخ ساز ہستیوں میں شامل ہونا چاہئے تھا جو آج تاریخ انسانی میں عظمت و رفعت کی بلندیوں پر متمکن ہو کر چار دانگ عالم میں اپنا سکہ منوا چکی ہیں تاہم حکمران خاندان کی وجہ شہرت بین الاقوامی سطح پر فقط ایک شے کی رہین منت ہے وہ ان کے بیرون ملک اثاثے اور جائیدادیں ہیں جو پانامہ لیکس کی صورت میں حکمران خاندان کے انداز حکمرانی کو پوری دنیا میں طشت ازبام کر چکی ہیں۔ انفراسٹرکچر کے چند ترقیاتی منصوبوں کے سراب سایوں کے پیچھے دوڑ کر اسے حقیقی اور با معنی ترقی سمجھنے والوں کے لئے ان کی اپنی حکومت کے زیر انگشت چلنے والے منصوبہ بندی و ترقی ڈویژن کے اعدا د و شمار حکمرانوں کے لئے چشم کشا ہونے چاہئے تھے کہ ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد غربت اور بھوک کا شکار ہے۔
جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگ ایک وقت کے کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔منصوبہ بندی ڈویژن کے یہ اعدا د و شمار وژن2025 کا راگ الاپنے والے وفاقی وز یر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کے لئے سبق آموز ہونے چاہئیں جو بیشتر وقت تخیلاتی نخلستانوں کی سیر کو نکلے رہتے ہیں اور پاکستان کو 2025میں دنیا کی بیس پچیس بڑی معیشتوں میں شامل کرنے کے سنہری سپنے دن دیہاڑے دیکھنے میں مگن رہتے ہیں۔چار سالوں کے بعد بھی اگر میاں نواز شریف اور ان کے پانی و بجلی کے ’’وزیر بے تدبیر‘‘ گزشتہ حکومت پر سارا ملبہ ڈال کر اس لوڈ شیڈنگ کے مسئلے سے اپنی جان خلاصی کرانا چاہتے ہیں جو جن کے بوتل کی طرح گرمیوں میں قوم پر چنگھاڑنے لگتی ہے تو پھر ’’داستان کہن‘‘ کو دوہرانے سے بجلی تو پیدا نہیں ہو سکتی۔
اقتدار کے آخری برس میاں صاحب اور ان کی حکومت اگر پی پی پی پر ملبہ ڈال کر اپنی کوتاہیوں اور خامیوں پر پردہ ڈال کر قوم کو بیو قوف بنانے کی تدبیریں لڑا رہی ہے تو شو ق سے کریں لیکن اس ذہنی خناس سے با ہر نکلے کہ چار برسوں میں ایک مدبرانہ قیادت کو پاکستان کو شاہراہ ترقی پر ڈال دیا ہے۔ جب حکمران مصائب و مشکلات کے تیز بگولوں کے نشانے پر ہوں تو پھر حواس با ختگی دامن گیر ہوجاتی ہے۔میاں نواز شریف پر بھی یہ کیفیت طاری ہو چکی ہے جب وہ کہتے ہیں کہ ملک میں کرپشن کے بحر بے کراں کے سامنے کون پل باندھے۔ حکمران تو ویسے بھی اس کے سامنے پل نہیں باندھ سکتے کیونکہ وہ تو خود اس بحر کرپشن کے ایسے کامیاب شناور رہے ہیں کہ انسان ان کی مہارت پر انگلیاں دانتوں تلے داب لے کہ اس آلودہ دامن پر بھی پاکئی دامن کی ایسی فسانہ طرازی کہ انسان حیرت و تعجب کے گہرے سمندر میں غرقاب ہو جائے۔