علامہ اقبا ل کا تصور اجتہاد
(ثاقب اکبر)
علامہ اقبال نے اسلام کے تصور اجتہاد کے بارے میں اپنے خطبے کی اساس اجتہاد کے حوالے سے اپنے اس نظریے پر رکھی ہے کہ یہ اسلام کا اصول حرکت ہے۔ اقبال کے اس تاریخی خطبے پر گذشتہ تقریباً ایک صدی میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے۔ جہاں اقبال کے پیغام کو خوش آمدید کہنے والے اہل دانش و فکر کی کمی نہیں وہاں اس ضمن میں ان کے افکار کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے والوں کی بھی ایک دنیا آباد ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ علامہ اقبال کے اجتہاد کے بارے میں خطبے کی بعض تفصیلات اور مثالوں پر زیادہ تنقید کی گئی ہے البتہ روح مطلب پراعتراض کی گنجائش بہت کم ہے۔ ہماری نظر میں ان کے خطبے کی بنیادی بات یہ ہے کہ وہ ہر دور میں اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھنے پر اصرار کرتے ہیں اور فقہ کی دنیا میں جمود اور ٹھہراﺅ کے مخالف ہیں۔ یہ وہ بات ہے جو آج عالم اسلام کے بیشتر علماءاور دانشورقبول کرتے ہیں ۔علامہ اقبال سے پہلے اور بعد میں ایسے قدآور علمائے اسلام اور مفکرین گزرے ہیں اور آج بھی ہیں جو اس نظریے کی اصابت کے قائل ہی نہیں مروج بھی ہیں ۔ علامہ اقبال کے پیش نظر خطبے کی دوسری اہم بات عمل اجتہاد کو عصری تقاضوں کی روشنی میں آگے بڑھانے سے متعلق ہے ۔پارلیمنٹ کے ذریعے اجتہاد کے بارے میں ان کی تجویز کا مقصد اس کے سوا کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ اسی کے ضمن میں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ علامہ اقبال انفرادی اجتہاد کے بجائے دور حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اجتماعی اجتہاد کے قائل ہیں ۔ ہم اقبا ل کے تصور اجتہاد کی ان ہی اساسات کی روشنی میں چند نکات ذیل میں اہل نظر کی خدمت میں غوروفکر کے لیے پیش کرتے ہیں :
٭ انسان کی فکری کاوشوں کو انسانی سطح پر رکھا جائے اور انھیں الٰہی سطح پر قرار نہ دیا جائے۔تمام علماءکے فتاویٰ اور اجتہادات انسانوں کی اپنی فکری کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔
٭ جیسے استنباط حکم انسانی کاوش ہے اسی طرح علم اصول فقہ بھی انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔ غور وفکر اور نقد و نظر کا کام ہر دو سطح پر جاری رہنا چاہیے ۔
٭ حدیث کی جمع آوری ، تطبیق ، علم حدیث میں کانٹ چھانٹ اور بحث و مباحثہ کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے ۔ ترکی میں حال ہی میں حدیث کی تدوینِ نو کا مرحلہ سر کیا گیا ہے۔ ماضی میں دیے گئے فتاوی کا نئی کاوشوں کی روشنی میں جائزہ لیا جانا اور بازنگری ضروری ہے۔
٭ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے حدیث اور آئمہ حدیث نے حدیث کے مجموعے مرتب کیے ۔ ماضی میں فقہ کی تدوین اپنے اپنے مکاتب فکر سے متعلقہ احادیث کے مجموعوں کو پیش نظر رکھ کر کی گئی ہے۔اب تو مشترکہ احادیث کے مجموعے موضوعی لحاظ سے مرتب ہو چکے ہیں ۔ اس لیے فقہ کی تدوین نو یا ماضی کے مستنباطات کی نئی معلومات اور ان ذخائر کی روشنی میں پرکھ کی ضرورت ہے ۔
٭ انسانی سوسائٹی کے نئے تجربات ، نئی تخلیقات کے انسانی زندگی پر اثرات ، آئینی حکومتوں کے قیام ، بہت سے مسلمان ملکوں میں قانون سازی کے جدید اداروں کی تشکیل ، عالمی اداروں کے قیام ، عالمی قوانین سے مسلمان ملکوں اور معاشروں کی وابستگی ، نئے سے نئے اقتصادی اداروں کے قیام ، پیچیدہ اور تہ در تہ اقتصادی و تجارتی قوانین کا نفاذ ، مواصلات کی تیز رفتار ترقی کے انسانی زندگی پر اثرات ، طبی حوالے سے پیدا ہونے والے نو بہ نو مسائل ، خلانوردی کے بڑھتے ہوئے امکانات ، مختلف قوموں ، مذاہب ، اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مشترکہ زندگی کے نئے پہلو اور انسانی زندگی کے ایسے بہت سے جوانب انسانی زندگی کی مسلسل حرکت اور بہاﺅ کا پتہ دیتے ہیں۔ عرف بدلتے جارہے ہیں اور زندگی نئی سہولیات کے ساتھ ساتھ نئی پیچیدگیوں اورامکانات کا سامنا کر رہی ہے ۔ اسی کو زمانے کا بدلنا کہتے ہیں اور عمل اجتہاد میں حکم زمان و مکان سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ اجتہاد ہی نہیں کہلا سکتا ۔ کبھی موضوع بدل جانے سے حکم بدل جاتا ہے اور کبھی موضوع نہیں بدلتا خارجی حالات تبدیل ہو جاتے ہیں جو حکم کی تبدیلی پر منتج ہوتے ہیں ۔
٭ پہلے ہی ہر مکتب فقہ میں ایک ایک حکم پر ایک سے زیادہ فتاویٰ موجود ہیں جو ماضی میں فقہاءکے عدم جمود کے نظریے پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔ ماضی کی کاوشیں ہمارے لیے آج بھی راہنما ہیں لیکن اس سرمائے سے عصری تقاضوں کی روشنی میں استفادے کی ضرورت ہے۔
٭ اجتہاد کا اصل میدان پیش آمدہ مسائل ہیں۔ اصل نظام عبادات اور عبادات کی بنیادی شکلیں تبدیل نہیں کی جاسکتیں ۔ امت واحدہ کی تشکیل ، شکل و صورت اور خارجی تشکل انھیں عبادات کی شکل و صورت اور ان کے مسلمہ نظام الاوقات سے جڑی ہوئی ہے ۔ زمان و مکان کے بعض ناگزیر تقاضے ان پر بہت جزوی اور وقتی اثرات ڈالتے ہیں اور حکم ثانوی کا اصل مورد شاید اسلام کا نظام عبادات ہی ہے جبکہ حکم ثانوی اضطراری اور وقتی ہوتا ہے۔
٭ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ عقائد و کلام کے اثرات استنباط حکم پر مرتب ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہوتے ہیں ۔ اگر ہم اجتہاد کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں تو کلام جدید کی طرف بھی توجہ دینا پڑے گی ۔ لہٰذا ہمارے علمائے کرام کو جدید کلامی موضوعات کی طرف بھی آنا پڑے گا اور آج کے تعلیم یافتہ اذہان اور دانشوروں کے افکار میں ابھرنے والے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
٭ فقہی عمل میں عقل کے کردار کا تعین بھی ضروری ہے۔ جب دین کی بنیادوں اور اصولوں کی شناخت کے لیے پہلے عقل کی طرف رجوع ضروری ہے اور جب قرآن کریم بار بار عقل و فکر سے کام لینے کی دعوت دیتا ہے تو فقہی حکم کی تلاش میں عقل کی حیثیت کا تعین بھی ضروری ہے۔ نصوص کو سمجھنے اور ان کی حیثیت کے تعین کے لیے بھی عقل کی کارفرمائی ضروری ہے۔ البتہ اس کے لیے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے تاکہ اس کی حدود و قیود کو طے کیا جاسکے۔
٭ دنیا میں آج قومی ریاستوں کا وجود ہے۔ ملکوں کے اپنے اپنے آئین اور قانون موجود ہیں۔ مملکتوں کے آئین و قانون کی حیثیت کا تعین بھی ضروری ہے ۔ خاص طور پر ان موارد میں جہاں کوئی آئینی شق یا قانون کسی کے فقہی مکتب یا فہم سے ٹکراتا ہو۔
٭ معرفت انسان کے حوالے سے مختلف علوم معرض وجود میں آچکے ہیں ان تمام علوم میں پیش رفت جاری ہے۔ فقہی حکم اگر انسانوں کے لیے ہے تو پھر انسان کی معرفت حکم کے بیان سے پہلے ضروری ہے۔ اگر ہمارا یہ مقدمہ درست ہے تو پھر علماءکو معرفت انسان کے اہم موضوعات کو نہ فقط خود پیش نظر رکھنا ہوگا بلکہ انھیں اپنے نصاب تعلیم کاحصہ بھی بنانا ہوگا تاکہ حکم بیان کرنے سے پہلے جس کے لیے حکم بیان کیا جارہا ہے اس کی شناخت ہو سکے۔
٭ قرآن حکیم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جن احکام کو ہم الٰہیٰ احکام کہیں وہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہوں ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ جس نے انسان کی فطرت بنائی ہے وہ اس کی فطرت کے خلاف حکم دے سکے۔ ہماری رائے میں فطرت کا موضوع اصول فقہ کے مرحلے پر زیر بحث آنا چاہیے۔
٭ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر دانااور فہمیدہ شخص خطاب کرتے ہوئے اپنے مخاطبین اولین کی سطح معلومات اور فہم و ضروریات کو ضرور پیش نظر رکھتا ہے۔ ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ قرآن یا پیغمبر اکرم نے اس اصول کو اختیار نہ کیا ہو۔ اگر یہ بات درست ہے تو قرآن و سنت میں سے آج کے دورکے انسانوں کے لیے یا کسی بھی سرزمین کے لوگوں کے لیے کسی حکم کے بیان کرنے سے پہلے ان کی سطح معلومات اور فہم و ضروریات کا ادراک ضروری ہے۔
٭ دور نبوی میں قانون کے ارتقاءکی حکمت عملی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کیونکہ تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ آپ نے بعض رائج قوانین کو اپنی تعلیمات سے ہم آہنگ پایا انھیں من وعن باقی رہنے دیا۔ بعض میں جزوی ترمیم کی اور بعض کی جگہ پر متبادل قانون متعارف کروایا۔ آپ نے عرف کا خیال رکھا۔ قانون سازی کے اسی اصول کو ہر دور میں اختیار کیا جانا چاہیے اور اُس دور کے قوانین کو آج پر منطبق کرتے ہوئے قانون سازی کی یا نفاذ قانون کی پیغمبرانہ روش کو سامنے رکھا جانا چاہیے۔
٭ تمام علوم میں تخصص کا طریقہ کار اختیار کرلیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان مختلف حوالوں سے پیش رفت کررہا ہے۔انسانی معاشرہ پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ آج یہ امکان نہیں رہا کہ ایک شخص زندگی کے تمام شعبوں سے متعلقہ قوانین پر یا قانون سازی کے طریقے پر مہارت رکھتا ہو۔ اس لیے بہت سے دانشوروں کی رائے یہ ہے کہ اجتہاد کو بھی موضوعی ہونا چاہیے اور اسلامی قانون کے شعبے میں بھی تخصص سے استفادہ کرنا چاہیے۔ کوئی ایک فقیہ تمام شعبوں میں ضروری آگاہی حاصل نہیں کر سکتا ، لہٰذا ماہرین اور متخصصین پر مشتمل کمیٹیوں کو یہ کا سپرد کیا جانا چاہیے۔
٭ اس سوال کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا مقصد متعین کے لیے ہر دور اور ہرعلاقے میں ایک ہی قانون پر اصرار کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مختلف زمانوں اورعلاقوں کی ضروریات اور شرائط مختلف ہوتی ہیں جو مختلف قوانین کی متقاضی ہوتی ہیں۔ یہ بات کم از کم جزوی لحاظ سے درست ہے۔
٭ یہ امر بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ آج مسلم اور غیر مسلم دنیا میں قانون سازی جاری ہے۔ علمائے اسلام کا اس میں کردار کتنے فیصد رہ گیا ہے؟ ہمارے علمائے کرام جن امور پر اپنے فہم قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں وہ عالمی طور پر قانون کے مختلف شعبوں کے پیش نظر بہت کم ہیں۔
٭ بہت سے روشن فکر علمائے دین شناسی اور شرعی قوانین کے حوالے سے مقاصد شریعت پر نظر رکھنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پہلو بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ ہم اس سلسلے میں صرف ایک بات کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ مقاصد شریعت پر بحث کرنے سے پہلے انبیاءکی بعثت کے مقصد پر بحث کر لینا ضروری ہے اور پھر اگلے مرحلے میں قانون کو اس مقصد سے ہم آہنگ رکھنا بھی ضروری ہے۔
بشکریہ : مبصر ڈاٹ کام
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.