سر منڈل کا راجہ : علی اکبر ناطق کی نظمیں
(ظفر سید)
علی اکبر ناطق کی لگ بھگ ہر نظم سُننے کے بعد جب بھی یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید اِس نے اپنے اظہار کی معراج حاصل کر لی ہے اور اِس سے آگے بڑھنا نا ممکن ہو گا ،وہ اگلی ہی نظم میں ایک نیا راستہ اختیارکر کے نئے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے ۔ اِس کی مثال کے لیے: یاقوت کے ورق : میں شامل سفیرِ لیلیٰ دیکھیے جو اپنی اُٹھان کے لحاظ سے زمانہء قبل از اسلام کے سبع معلقات کی یاد دلاتی ہے اوراِس کے بعد زیرِ نظر مجموعے میں دیسی رنگ ڈھنگ کی نظمیں دیکھیں ۔ یقین کرنا مشکل ہو گا کہ یہ ایک ہی شاعر کی تخلیقات ہیں ۔اِس سے پہلے بھی کئی شاعروں نے ؛چناب رنگ : پر مبنی شاعری کی ہے لیکن وہ بڑی حد تک اُردو میں پنجابی الفاظ کھپانے تک محدود رہے ہیں ۔ اُن کے مقابلے پر علی اکبر ناطق کی ،،نفیریاں بجانے والیاں ،،ناگ ، نیلا پنکھو ،لقے کبوتر پالنے والے ،شریر بالیو ، مرے چاند ، میں چانن کے دیس کا پنکھو ،وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن کی صرف لفظیات ہی مقامی نہیں بلکہ ناطق نے اُن کا اُسلوب ،ساخت ،روایات حتیٰ کہ متھالوجی تک پنجابی رکھی ہے ،جس سے اِن نظموں میں آپ کو پنجاب کی مٹی کی سوندھی خوشبو اپنے تمام رنگوں کے ساتھ محسوس ہونے لگتی ہے اور دور کہیں باجے کے ساتھ بھنگڑے اور ڈھول کی ہلکی تھاپ سنائی دینے لگتی ہے جو قریب آنے پر بھی بھلی لگتی ہے ۔یہ پنجاب رنگ پہلے ناطق کے افسانوں میں ملتا تھا لیکن شاعری کا خمیر کسی دوسری دنیا سے اُٹھاتا تھا مگر موجودہ نظموں میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنی تخلیقی نثر اور شاعری کو ایک دھارے پر لانے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔ تاہم نثر کے برعکس اِ س کی شاعری میں روحانی اور مابعد الطبیعاتی پہلوبہت نمایاں ہے ۔ناطق کی نظم کا بیج مٹی میں ضرور ہوتا ہے لیکن نظم اُوپر اور اُوپر اُٹھتے اُٹھتے جاودانی آسمان کی وسعتوں سے ہم آہنگ ہو کر آفاقی اسطورہ بن جاتی ہے جسے آپ غیر فانی اساطیر کے پہلو میں دیکھ سکتے ہیں ۔مجھے ایک اعزاز رہا ہے کہ میں پچھلے پانچ برس سے علی اکبر ناطق کی تقریباً ہر نئی نظم کا اولین سامع رہا ہوں ،اِس کے باوجود کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اُس کی نئی کاوش سُنتے وقت دل میں یہ سوال پیدا نہ ہو کہ اِس شخص کی تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی تھاہ ہے بھی کہ نہیں ۔
شمس الرحمن فاروقی ناطق کی نظموں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’علی اکبر ناطق کے بارے میں اب یہ حکم لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ جدید شعر میں ان کی اگلی منزل آگے کہاں تک جائے گی کہ ہر بار وہ پہلے سے زیادہ چونکاتے ہیں ۔ اُن کے پہلے کلام میں تازگی اور میرا جی کی سی قوت اور داخلیت تھی۔ روایت اور تاریخ کا شعور بھی حیرت زدہ کرنے والا تھا۔ اب کے کلام میں لہجہ جدید نظم کے کلاسک شعرا سے بالکل الگ بھی ہے، نیا بھی ہے اور جوشِ درد سے بھی بھرا ہواہے اور صرف اور صرف اُن کا اپنا ہے ،اِس سے پہلے ایسی روایت موجود نہیں ہے ۔ محبت کی باتیں بہت ہیں لیکن اُن میں زیاں اور ضرر کا احساس بھی زیادہ ہے۔ لہجہ پیغمبرانہ ہے ۔ نظم کا بہاؤ اور آہنگ کی روانی ایسی ہے کہ حیرت پر حیرت ہوتی ہے، خاص کر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت ان کے کلام پر پنجابی کا اثر عام سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود یہ پیوند بہت ہی اچھے لگتے ہیں۔
اِس مجموعے کی نظمیں ہماری جدید شاعری کے لئے ایک مطلق نئی چنوتی لے کر آئی ہیں ۔ اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے۔‘‘
Majmooee Taur par ziada lamba safar tay karnay wali koe nazm mujhy dikhai nahi di