شہید بینظیر بھٹو بطور دانش ور اور ادیب
(خالد کشمیری)
کتاب کے مرتب خالد کشمیری لکھتے ہیں کہ بطور دانشور و ادیب شہید بنظیر بھٹو کا خاندان ایک ایسے خانوادہ گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جس کے آباد و اجداد اپنی ذاتی وجاہتوں اور قومی خدمات کے باعث کے مسلمانوں میں ممتاز مقام کے حامل تھے۔
محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی ایسی خاتون دانش ور، منفرد اسلوب کی شاعرہ ،دلنشین طرز تحریر کی ادیبہ ،آتش نوا مقررہ اور زیرک سیاستدان تھیں ‘ جو نہ صرف پاکستان ، جنوبی ایشاء بلکہ امریکہ اور یورپ کے ممالک میں بھی مقبول عام کی حیثیت رکھتی تھیں، ان کی شخصیت کے ایسے اوصاف کی نشاندہی ان کے شہید باپ ذوالفقار علی بھٹو نے واضح طور پر کر دی تھی ۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو نے ابھی باقاعدہ طورپر سیاست میں قدم رکھا تھا نہ ان کی کوئی تحریر منظر عام پر آئی تھی ،نہ سنخوری میں محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی ذاتی آزمائی کی تھی‘ اور نہ ہی انہیں کہیں آتش نوائی کا موقعہ ملا تھا ‘ اس وقت تک محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی ذاتی محنت ،ذہانت اور قابلیت سے صرف ایک ہی اعزاز حاصل کیا تھا ‘ ۲۶ نومبر ۱۹۷۶ء کو آکسفورڈ یو نین (ڈوبیٹنگ سنٹر آکسفورڈ یونیورسٹی ) کے صدارتی انتخاب میں انہوں نے مد مقابل کے مقابلے مںے ۲۴ ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل کی ھتی وہ جنوبی ایشاء کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے انگریزوں کی شہر آفاق دانش گاہ آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ میں اتنا بڑا اعزاز حاصل کیا تھا
محترمہ بینظیر بھٹو کے جوہری باپ ذوالفقار علی بھٹو نے ۲۱ جون ۱۹۷۸ء کو سنٹرل جیل راولپنڈی سے ایک قیدی کی حیثیت سے اپنی قیدی بیٹی بینظیر بھٹو کو جو خط لکھا تھا، انہوں نے اس بینظیر بیٹی سے یونہی ہی نہیں توقعات وابستہ کی تھیں باپ کی نگاہ دور بیں نے اپنی بیٹی کے پوشیدہ اوصاف کا پوری طرح اندازہ لگا لیا تھا ، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی کے شاندار مستقبل کے حوالے سے اسی خط مںے ایک جگہ لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔’’اگر مجھے سیاسی سٹیج سے علیحدہ رہنا پڑا تو میں تمہیں اپنے احساسات کا تحفہ دیتا ۔۔۔۔ تمہاری تقاریر میری تقریر کے مقابلے مںے زیادہ فصیح و بلیغ ہوں گی عوام کے ساتھ تمہاری وابستگی مساوی طور پر مکمل ہو گی۔۔۔۔ تمہارے اقدامات زیادہ جرات مندانہ ہوں گے مںے اس انتہائی مقدس مشن کی برکتیں تمہیں منتقل کرتا ہوں ‘‘ پھر کس خوبصورت اور دلنشین پیرائے میں اپنی بیٹی سے امیدیں باندھتے ہوئے خط لکھتے ہیں:۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جیل کال کوٹھڑی سے اپنی بیٹی کے نام جو خط لکھا تھا سا میں دانش و حکمت کے موتیوں کو فقروں میں بلا سوچے سمجھے ہی نہیں بکھیر دیا تھا ‘ انہیں اپنی شاعرانہ طبیعت وسیع مطالعے اور عظیم سیاسی بصیرت کی بدولت اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ ان کی ہونہار بیٹی باپ کے احساسات کی لاج رکھے گی۔ یہ کتاب اکادمی ادبیات نے شائع کی ہے۔