اور حملہ قائم ہے ، صرف سمت بدلی ہے
(نصرت امین)
گزشتہ دنوں افغانستان پر پاکستان کے حملے کی خبر ملتے ہی ایسے لگا جیسے تاریخ کا دَھارا صدیوں بعد اَپنا رخ بدل رہا ہے۔ گزشتہ ایک ہزار سال کے تاریخی تناظر میں اس سرزمین سے کی جانے والی یہ مسلح پیش قدمی خطے میں ایک نئی تاریخ کی شروعات ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اِس بار اِن ایک ہزار سالوں کی عمومی روایات کے برعکس، یہ مسلح پیش رفت جنوب سے شمال کی جانب کی گئی ہے۔ پچھلی دس صدیوں میں زیادہ تر عسکری یلغاریں شمال سے جنوب کی جانب ہوتی رہی ہیں، جبکہ جنوب سے شمال کی جانب کی جانے والی جارحیت عموماً غیر مسلم لشکروں کی جانب سے کی گئیں۔
اس حملے میں ہونے والا جانی نقصان ناقابل تلافی ہے۔ پاکستانی حکام نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ یہ نقصان کرکے خوش نہیں لیکن پاک افغان سرحد پر ہونے والی خلاف ورزیوں پر ردعمل ناگزیر تھا۔ افغان اہلکاروں کا پاکستانی علاقے میں موجود مردم شماری کی ٹیم پر بلا اشتعال فائر کھولنا اور پھر پاکستان کا بھرپور انداز میں جوابی کارروائی کرنا بظاہر دس صدیوں پر محیط ایک طویل دور کے خاتمے کا بہانہ ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے یہاں تاریخ کو صرف ایک بڑی کروٹ لینا تھی اور باقی سب کچھ اس ناگزیر تبدیلی کے واجبی اسباب ہیں!
پچھلے کوئی ڈھائی ہزار سالوں میں جنوب اور وسطی ایشا میں عسکری یلغاروں کے تین بڑے اَدوار گذرے ہیں۔ ایک ہزار سالوں پر مشتمل یہ تیسرا اور آخری دور عمومی طور پر شمال سے جنوب کی جانب پیش قدمی کرنے والوں کی فتوحات کا دور ہے۔ پہلا دور کوئی 600 سال قبل مسیح، یعنی تقریباً چھبیس سو سال قبل شروع ہو کر اگلے ڈھائی تین سو سال تک جاری رہا۔ دستیاب حوالوں کے مطابق کوروش کبیر، ذوالقرنین اور سائرسِ عظیم کہلایا جانے والا سلطنت فارس کا بانی شمالی سمت سے ہندوستان میں داخل ہونے والا پہلا حکمراں تھا۔ سائرس اپنی سلطنت کے مغرب میں دَجلہ و فرات اور مشرق میں وادیٔ سندھ کی عظیم تہذیبوں سے واقف تھا۔ لہٰذا علم سے اپنی دیرینہ محبت کے باعث وہ سرزمین سندھ میں داخل ہو کر دریائے جہلم تک آن پہنچا! پھر کوئی 2300سال پہلے اسکندر اعظم یونانی دنیا فتح کرتا ہوا شمالی علاقوں سے ہی پنجاب میں داخل ہوا۔ راجا پورس کو شکست دینے کے بعد وہ یہاں اپنے گورنرز تعینات کر کے واپس چلا گیا۔ سو یہاں شمال سے جنوب کی جانب لشکر کشی کا دور یوں ختم ہوتا ہے۔
اگلا دور شمالی علاقوں میں جنوب کی جانب سے کی گئی یلغاروں کا دور ہے۔ قدیم ٹیکسلا کی عظیم درسگاہ میں سیاسیات پر تحقیق کرنے والا ایک لائق طالب علم وِشنو المعروف چانکیہ پنجاب میں یونانیوں کی آمد سے خوش نہ تھا۔ وہ ہندوستان کی بکھری ہوئی ریاستوں کو یونانیوں کے خلاف متحد کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا اِس نے راجہ دھانا نندا کو اپنے زیر تربیت نوجوان چندرا گپتا موریا کے ذریعے شکست دے کر ایک نئی، وسیع تر اور متحد سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں اِس نے پنجاب میں اسکندر کے تعینات کردہ یونانی حکمرانوں کو چن چن کر ختم کر دیا۔ اور یوں شمال سے آنے والوں کے لئے ہندوستان کا راستہ اگلے ایک ہزار برس کے لئے بند کردیا گیا!
اپنی اگلی مہمات میں موریا نے شمال کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے افغان علاقوں پر بھی قبضہ کیا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ایک دور میں یہ سلطنت مشرقی ایران تک پھیلی ہوئی تھی۔ شمال مغرب کی جانب مہمات کا یہ سلسلہ موریا کے بیٹے بندوسرا اور پھر پوتے اشوکا کے ادوار تک جاری رہا۔ آٹھویں صدی عیسوی میں پالا برہمنوں نے ہندوستان کے بڑے حصے پر راج کیا۔ اگرچہ چند افغان علاقوں میں اِس سلطنت کے اثرات کا ذکر موجود ہے، کہتے ہیں کہ ان کی فتوحات سے متعلق کچھ قصے مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔
سندھ میں محمد بن قاسم کی آمد آٹھویں صدی کے اوائل میں شمال سے زیادہ مغربی سمت سے ہوئی۔ لہٰذا شمال سے جنوب میں لشکر کشی کی اصل تاریخ دسویں صدی میں محمود غزنوی کے حملوں سے شروع ہوتی ہے۔ شمال ہی سے نمودار ہونے والا ایک اور مسلمان سالار شہاب الدین تھا جس نے ایک مہم جوئی کے بعد ہندوستان میں غوری سلطنت کی بنیاد رکھی۔ مغلوں کا تعلق وسطی ایشیا سے تھا لہٰذا ہندوستان میں یلغار کے لئے اِن کی تشریف آوری بھی شمال سے ہوئی۔ مغلوں نے اگرچہ اپنے آخری ادوار میں مرہٹوں کے ہاتھوں غیر معمولی جانی اور مالی نقصان اٹھایا، مرہٹہ جنگجوئوں نے کبھی خاطر خواہ شمال کی جانب رُخ نہیں کیا۔
عجیب بات یہ کہ ولندیزی، فرانسیسی، پرتگالی اور انگریز ہندوستان میں شمال کے بجائے جنوب مغربی حصوں سے داخل ہوئے۔ انگریزوں کو دلی تک پہنچنے کے لئے پہلے بنگالیوں اور پھر شیر میسور ٹیپو سلطان سے طویل عرصے تک انتہائی مہنگی اور تکلیف دہ جنگیں لڑنا پڑیں۔ ٹیپو کی شہادت کے بعد بھی انگریزوں کا پورے ہندوستان پر حکمرانی کا خواب اگلے پچاس برسوں تک پورا نہ ہو سکا۔ انگریزوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ ٹیپو کے خاتمے کے ساتھ ہی پنجاب میں رنجیت سنگھ نے سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک بڑی سلطنت کی بنیاد رکھ دی۔ شمال سے کی جانے والی یلغاروں کے اس ہزار سالہ دور میں رنجیت سنگھ پشاور اور افغان علاقوں پر قبضہ کرنے والا پہلا ہندوستانی حکمران تھا لیکن یہاں وضاحت ضروری ہے کہ رنجیت سنگھ سے کوئی آٹھ سو سال قبل جیا پالا اور اس کا بیٹا آنندا پالا کابل شاہی کے اوپر تلے آخری مہاراجا تھے۔ کچھ حوالوں میں اِن کا تعلق پنجاب کے جنجوعہ قبائل سے جوڑا جاتا ہے۔ افغانستان میں اس خاندان کی حکومت اور مسلح پیش قدمیوں کی نشانیاں موجود ہیں۔
حملوں، جوابی حملوں، لشکر کشی اور یلغاروں کی یہ پوری تاریخ سمتوں میں تبدیلی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ لیکن بیسویں صدی میں جہاں دنیا کے رنگ ڈھنگ بدل ڈالنے والے عناصر میں ٹیکنالوجی کا اضافہ ہوا ہے وہیں جنگی سمجھوتوں، مذاکرات اور مفاہمت کی روایات بھی مضبوط ہوتے دیکھی گئی ہیں۔ جدید دور کا ایک بڑا سچ یہ بھی ہے کہ عالمگیریت کے مستقل اور طاقتور عمل نے دنیا کو اب تک جوہری خطرات اور دیگر ممکنہ فسادات سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا غلط ہے کہ اب جنوب سے شمال کی جانب صرف حملے ہی ہوتے رہیں گے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ تاریخ کے ہاتھوں کسی سمت کے بدل جانے پر اگر یلغاروں سے گریز بھی کیا جائے تب بھی آئندہ ایک طویل عرصے تک ہر بڑے فیصلے پر یہ تبدیلی اثر انداز ہوتی دکھائی دیتی رہے گی، شاید فیصلہ کن حد تک!