یہ سوشل میڈیا کیا بلا ہے؟ اس نے روایتی میڈیا کو کیسے چیلنج کیا ہے؟
(مبشر علی زیدی)
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ان کا زیادہ وقت ٹی وی دیکھتے ہوئے گزرتا تھا۔ ادھر کوئی خبر چلی اور ادھر اس پر ازخود نوٹس ہوا۔ وہ معزول کئے گئے تو الیکٹرونک میڈیا نے ان کی بحالی کی تحریک میں وکلا کی طرح بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ اس نے نہ صرف انھیں بحال کروانے میں کردار ادا کیا بلکہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو پہلے فوج اور پھر صدارت چھوڑنے پر مجبور کیا۔ یہ الیکٹرونک میڈیا کے عروج کا زمانہ تھا۔
الیکٹرونک میڈیا کا زور ابھی باقی ہے لیکن سوشل میڈیا نے بھی جان پکڑ لی ہے۔ مشال خان کا قتل، ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹوئیٹ اور بحریہ انکلیو میں حادثے کی خبر پر الیکٹرونک میڈیا پیچھے رہ گیا اور سوشل میڈیا نے ہنگامہ مچادیا۔ مشال خان پر توہین کا سنگین الزام لگایا گیا۔ لیکن اس کے قتل کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد فضا بدل گئی اور مذہبی رہنماؤں تک کو اس کے حق میں بیانات دینا پڑے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹوئیٹ پر سوشل میڈیا میں طوفان نہ اٹھتا تو شاید اس قضیے کا انجام کچھ اور ہوتا۔ بحریہ انکلیو حادثے کی خبر پر روایتی میڈیا نے سستی کا مظاہرہ کیا لیکن سوشل میڈیا نے اس قدر شور مچایا کہ چیف جسٹس پاکستان نے نوٹس لے لیا۔
یہ سوشل میڈیا کیا بلا ہے؟ اس میں کون کون سی ویب سائٹس شامل ہیں؟ یہ پریشر گروپ ہے یا رائے سازی کا آلہ؟ سوشل میڈیا پر کون کامیاب ہے اور کون ناکام؟ کیا اسے حکومت، فوج یا روایتی میڈیا گروپس کنٹرول کرسکتے ہیں؟ کیا اس پر پابندی لگائی جاسکتی ہے؟ کیا یہ مستقبل میں مزید اہمیت حاصل کرے گا یا جلد قدر کھو دے گا؟ بہت سے سوالات ہیں اور ہمیں ان کے ٹھیک ٹھیک جوابات کا انتظار ہے۔
عوام میں سب سے زیادہ مقبول سماجی ویب سائٹ فیس بک ہے لیکن فی الحال اہمیت ٹوئیٹر کی ہے جس پر حکومتوں کے ترجمان، بڑے اداروں کے نمائندے اور سینئر سیاست دان موجود ہیں۔ اب اس پر سرکاری بیان، تردیدیں اور تبصرے کیے جاتے ہیں۔ ایک سطر کے ٹوئیٹ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی شہ سرخی بن جاتے ہیں۔ صحافیوں کا پسندیدہ ایک اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم واٹس ایپ ہے جس پر آڈیو، وڈیو، پکچرز، ٹیکسٹ ہر طرح کے پیغامات افراد اور گروپس کو ارسال کیے جاسکتے ہیں۔ تصویریں شیئر کرنے والی انسٹاگرام اور وڈیوز شیئر کرنے والی یوٹیوب کام کی تو ہیں لیکن ابھی تک دوسری سماجی ویب سائٹس جیسی اثرانگیز نہیں۔
بلاگنگ ویب سائٹس کو بھی سوشل میڈیا کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہاں بھی ان لوگوں کو رائے کے اظہار کا موقع دیا جارہا ہے جنھیں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر جگہ نہیں ملتی۔ فرق البتہ یہ ہے کہ فیس بک کے برعکس یہاں ایک ایڈیٹر ہوتا ہے جو زبان و بیان کا خیال رکھتا ہے۔
جمہوری دور میں روایتی میڈیا کو جن پریشر گروپس کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں حکومت، فوج، سیاسی جماعتیں، این جی اوز، انتہاپسند تنظیمیں اور کاروباری مفادات کا تحفظ کرنے والے ادارے شامل ہیں۔ اب ان میں سوشل میڈیا بھی شامل ہوگیا ہے۔ جس پریشر گروپ کا جتنا بس چلتا ہے، وہ میڈیا کا رخ بدلنے اور اپنے حق میں رائے سازی کی کوشش کرتا ہے۔ سوشل میڈیا نے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران میں نہ صرف روایتی میڈیا بلکہ دوسرے پریشر گروپس کو بھی اپنے دباؤ میں لیا ہے۔
عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر وہ کامیاب ہے جس کے فالوورز زیادہ ہیں۔ اس خیال کا فائدہ سماجی ویب سائٹس نے خوب اٹھایا ہے۔ وہ اپنے صارفین کو ڈالرز کے عرض فالوورز دینے کی پیشکش کرتی ہیں۔ مختلف ادارے اور سیلی بریٹیز پیسے خرچ کرکے لاکھوں فالوورز حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن دراصل انھیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ فالوورز جعلی ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ کس شخص کی بات کتنے لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔ اگر میرے ایک لاکھ فالوورز ہیں لیکن میری بات صرف دس ہزار لوگوں تک پہنچی تو پھر میں ناکام ہوں۔ اگر میرے فالوورز کی تعداد ایک لاکھ ہے لیکن میری بات دس لاکھ لوگوں تک پہنچ رہی ہے تو پھر میں کامیاب ہوں۔ آپ کسی کے لاکھوں فالوورز دیکھیں تو معلوم کریں کہ اسے کتنے ری ٹوئیٹ اور شیئر مل رہے ہیں۔ سیاست دانوں کے جعلی فالوورز رائے سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے، وہ کبھی پولنگ اسٹیشن نہیں پہنچتے۔ وہ کبھی الیکشن نہیں جتواتے۔
پاکستان میں وہ میڈیا گروپ کامیاب رہے جنھوں نے الیکٹرونک میڈیا کی اہمیت کو جلدی سمجھ لیا اور اخبار کے ساتھ ٹی وی چینل کی تیاری شروع کردی۔ جنھوں نے دیر کی، وہ پیچھے رہ گئے۔ اب میڈیا گروپس سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس نے جلدی کام کرلیا، جس نے اسے جلدی استعمال کرنا سیکھ لیا، وہ کامیاب ہوجائے گا۔ جو دیر کرے گا، وہ پچھے رہ جائے گا۔ 2018 کا الیکشن وہی میڈیا گروپ جیتے گا جس کا سوشل میڈیا ڈیسک اس کے اخبار اور ٹی وی کے نیوزروم سے بڑا ہوگا۔
سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کافی کوششیں کی جاچکی ہیں لیکن اب تک کی صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ لوگ پیسے دے کر فالوورز خریدتے ہیں لیکن الیکشن نہیں جیت پاتے۔ پیسے دے کر مہم چلاتے ہیں لیکن میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کرپاتے۔ پیسے دے کر ٹرینڈ بنواتے ہیں لیکن عوام کی رائے نہیں بدل پاتے۔ جو ٹھیک ہے وہ ٹھیک ہے۔ جو غلط ہے، وہ غلط ہے۔ اور یہ جو پبلک ہے، یہ سب جانتی ہے۔