ریکارڈ توڑنا منع ہے
(ڈاکٹر عرفان شہزاد)
كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ
ہر آن وہ ایک نئی شان میں ہے
جستجو ہے خوب سے خوب تر کہاں
کہتے ہیں ریکارڈ ٹوٹنے کے لئے بنتےہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شعبہ ء زندگی میں اگلے ریکارڈ ٹوٹتے ہیں، نئے بنتے ہیں، پھر نئے ریکارڈ بھی ٹوٹتے ہیں اور پھر مزید نئے ریکارڈ بنتے ہیں۔ ہر ریکارڈ کسی عالی حوصلہ کو چلنج دیتا رہتاہے کہ آؤ اور توڑو۔ اور ہر بار کوئی عالی حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ دنیا کی ساری ترقی اسی جذبے اور حوصلے کی مرہونِ منت ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک ذہانت کا سلسلہ ہے کہ چلا ہی چلا جاتا ہے، کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ نئی نسل ان سے زیادہ زود فہم، اور باصلاحیت ہے۔ گویا
كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ
کا ایک نمونہ یہ مظہر بھی ہے۔
ریکارڈ توڑنے کا یہ اشتیاق اور ولولہ ہی تو ہے جو کسی کو ماونٹ ایورسٹ پر پہنچاتا ہے تو کسی کو چاند پر، کوئی تیز ترین سنچری کا ریکارڈ وقت مزید کم کرنے پر تلا ہوا ہے، تو کوئی دوڑ کے مقابلے کے ریکارڈ کو توڑنے میں وقت کی رفتار سے مقابلے بازی میں لگا ہوا ہے۔
ذرا سوچئے کہ اگر ریکارڈ نہ ٹوٹتے تو ایک بار ریکارڈ بن جانے کے بعد کسی بھی کھیل یا شعبے میں کیا دلچسپی رہ جاتی۔ حوصلے پست ہوجاتے۔ لوگ بور ہوجائے۔
لیکن ایک شعبہ ایسا ہے کہ اس میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں جو ریکارڈ ایک بار بن گیا وہ اٹوٹ مانا جاتا ہے۔نئی نسلوں کے نئے حوصولوں کو پرواز سے پہلے ہی حدِّ پرواز بتا دی جاتی ہے کہ اس سے آگے ان کے پر جل جائیں گے۔ چنانچہ وہ اس سے اوپر بلند پروازی کا سوچتے بھی نہیں ۔ اور اگر کہیں کوئی اپنے حوصلوں کی بے تابی سے مجبور ہوکرغلطی سے اک ذرا زیادہ اونچی اڑان بھر لے تو تیز قینچیوں سےاس کے پر کاٹ ڈالےجاتے ہیں۔
یہ شعبہ علمِ دین کا شعبہ ہے۔ یہاں جو علمی ریکارڈ اسلاف نے قائم کردیئے ہیں وہ حتمی مان لیئے گئے ہیں۔ وہ اب ٹوٹ نہیں سکتے۔ہمیں بتایا جاتا ہےکہ وہ خدا جو اس ملعون دنیا کے دوسرے تمام شعبوں کو اعلٰی سے اعلٰی تر ذہانت اور حوصلے عطا کرتا چلا جا رہا ہے وہ فیاض خدا پنے ہی دین کے لیے اس فیاضی پر آمادہ نہیں۔ہر نئی نسل کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ مانے کہ جو لوگ اتفاق سے اس سے پہلے پیدا ہوگئے تهے وہ علم، ذہانت، قابلیت اور تقوی میں اس سے اتنے برتر تھے کہ اس کا ان کے کسی معیار کو چھو لینےکا سوچنا بھی گناہ ہے۔ اور اِن کے پاس اْن کی خوشہ چینی کے سوا اورکوئی چارہ نہیں۔
سوچئے کہ کسی طالبِ علم کو سبق کے پہلے ہی دن جب یہ بتا دیا جائے کہ آپ کا کام صرف فقہی عبارات کی نقول پیش کرنا ہے۔ اجتہاد کا ریکارڈ بن چکا اس کو توڑنے کے لیے مطلوبہ ذہانتیں بنانا خدا نے چھوڑ دیا ہے، تو بتائیے کہ اس کا علمی حوصلہ ، ذوق اور تجسس کا خون نہیں ہو جائے گا۔ دینی علمی شعبہ میں زوال کی وجہ نالائقی نہیں، یہ عقیدہ ہے کہ بعد والوں کا کوئی کام اس کے سوا نہیں کہ اگلوں کی عبارات اور فتاوی نقل کر دیئے جائیں، کیونکہ یہاں ریکارڈ توڑنا منع ہے!