طاقت ور کے احساس برتری کی نفسیات : کوٹ مومن واقعے کا سماجی و نفسیاتی تجزیہ
از، عافیہ شاکر
سب جانتے ہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں لیکن سب شہادت کی انگلی بننا چاہتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ انسان کی فطرت میں sense of superiority کو اتنی اہمیت حاصل ہے? ہمیں ایک دوسرے سے اوپر پہنچ کر چاہے اس کے لیے دوسروں کو دھکّا دے کر گرانا پڑے ,خوشی محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔جیت کی خوشی۔۔۔۔لیکن اس میں جیت ہوتی کس کی ہے؟ گرانے والے کی یا گرنے والے کی؟
حال ہی میں اس sense of superiority سے متعلق ایک واقعہ کوٹ مومن میں پیش آیا۔ جس میں ایک اسسٹنٹ کمشنر نے اپنے اختیارات کا نا جائز فائدہ اٹھایا اور superior یعنی اپنے اونچے منصب پے فائز ہوتے ہوئے خود کو سب منصبوں کا حق دار سمجھا۔ اور ایک استاد کے احساس دلائے جانے کو اپنی شان کے خلاف سمجھا کیونکہ سب ان کے حاکمیت کے دربار(palace of sovereignty) کے ادنی سے غلام ہیں۔
بیچارے قوم کے معمار کو جیل کی ہوا کھانا پڑ گئی۔ واقعے کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر خاتون ہونے کے باجود اسی احساس برتری کا شکار نظر آئی جو سخت گیر مرد بیورو کریٹس کے رویوں میں نظر اتا ہے۔
اےسی نے رجسٹر منگوا کے حاضری دیکھنا شروع کی۔ پھر سکول ٹیچر کی طرح سٹاف کی سرزنش کرنے لگی یہ جانتے ہوئے کہ اساتذہ کے ساتھ اس طرح کا رویہ غیر مناسب اور اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ پھر ایہ استاد کے ایک سوال پر سیخ پا ہوگئی اور اسے سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔
میں شعبہ طب سے تعلق رکھتی ہوں اور چونکہ یہ ”بڑے لوگ“ بھی انسان ہی ہوتے ہیں اکثر بیمار پڑ جاتے ہیں لیکن خدائی صفت یعنی sense of superiority ختم نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ ڈاکٹروں کو VIP علاج نہ دینے پر اوقات یاد دلائی جاتی ہے!
آخر یہ sense of superiority کیا ہے؟ ماہر ِ نفسیات اسے superiority complex کہتے ہیں۔ یہ ایک طرز کا نفسیاتی دفاعی نظام ہے جو ہمیں inferiority complex سے بچاتا ہے۔ یعنی انسان خود کو دوسروں کی نظر میں گرنے سے بچانے کے لئے ”حاکمیت“ کو بطور دفاع استعمال کرتا ہے اور خود false success یا جھوٹی فتح کا جشن مناتا ہے۔ نفسیاتی طور پر یہ ایک بیماری (mental disease) ہے۔
یہ انسان کی فطرت ہے کہ اگر وہ دوسرے شخص کو خود سے بہتر محسوس کرے تو وہ پوری طاقت سے اسے نیچے لانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی superior position برقرار رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر کو اپنا جائز عہدہ بتائے جانے پر جو inferiority complex محسوس ہوا اسے ہوا میں اڑنے کے لئے superiority complex کا سہارا لینا پڑا۔ psychology میں اسے illusory superiority کہتے ہیں۔ یعنی انسان صرف خود کو برتر ثابت کرنے کے لئے اپنی طاقت کا بےجا استعمال کرے۔
آخر ہم اس complex کا شکار کیوں ہوتے ہیں ہمیں شروع دن سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ فلاں سے بہتر بننا ہے، فلاں سے زیادہ نمبر لینے ہیں ، فلاں سے زیادہ کامیاب ہونا ہے۔ لہٰذا ہمیں scale سیٹ کر کے کام کرنے کی عادت ہو جاتی ہے .پھر جو ہمارے scale سے اوپر آئے ہمیں کھٹکتا ہے۔ ہمیں اخلاقیات کو اہمیت نہیں بلکہ پیسے اور scale کی اہمیت کو اہمیت دینا سکھایا جاتا ہے۔
مثلاً ہم استاد کے رتبے کی بھی categorization کر دیتے ہیں۔ پرائمری کے ٹیچر کی کالج کے ٹیچر سے کم value ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمیں استاد کیا ہے؟ کون ہے؟ یہ نہیں سکھاتا۔ سکھایا جاتا ہے تو یہ کہ یہ استاد چھوٹی جماعت کو پڑھاتا ہے لہٰذا یہ بڑی جماعت والے استاد سے کسی طور افضل نہیں ہو سکتا!
اشفاق احمد نے اٹلی کے جج کے سامنے صرف استاد ہونے کا اعتراف کیا تھا جو کہ وہاں بیٹھے لوگوں کے لئے کافی تھا اور وہ جج سمیت “استاد ” کے احترام میں اٹھ کھڑے ہیں۔ یہ بہ شعور قومیں values کی قدر کرتی ہیں۔ ہم scale کے مطابق عزت دیتے ہیں۔ چونکہ ہم اس superiority کی خاطر ہی اونچا scale حاصل کرتے ہیں اور بقول اسسٹنٹ کمشنر کوئی ہمارے تلوے نہ چاٹے تو یہ ہمارے حاکمیت کے بت کو توڑ دیتا ہے جس کی پوجا ہم پیدا ہوتے ہی کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور ہم یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے استاد ہے۔۔۔ اس کی کیا value ہے۔ ہم صرف اپنے scale سے اس کی value کا موازنہ کرتے ہیں اور scale کا پلڑا ہمیشہ بھاری ہوتا ہے اور یہ value کو تلوے تلے روندنے کے لئے کافی ہے۔
Qoam ky nafsayat mein jhoot ka zehar jis andaz mein bhara ja raha hy usko har tabqa khas kar media boht ziada phela raha hy Is waqay ki tafseel wo nahi hy jo bian ki gaiy hy Ye imtehani center Pooray district Sargodha mein naqal ky hawalay sy mashoor hy Jis per Board ki Management ny intazamia sy cheking ki request ki jis per DC Sargodha aur Comissnor Sargodha ny AC Kotmomin ko order kia Jo Qabal-e-Sad asatza ko nagawar guzzara jo naql mein molawas thy Ab aap samjh gaiy houngy keh ziadti kis tarf sy houwiy?