پرویز ہود بھائی کیا جانیں : اپنے بچوں کو مارنے جلانے والی قوم تو زندہ باد ہوتی ہے
(یاسر چٹھہ)
تدریس و تحقیق کار اور مزاحمت
گزشتہ ہفتہ بتاریخ 13 مئی کو اسلام آباد کلچرل فورم کے زیرانتظام اقبال احمد میموریل لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ عنوان، Academia and Resistance بہت دلچسپ تھا؛ تو کھینچے چلے گئے۔ مقام محفل اکادمی ادبیات پاکستان کا کانفرنس ہال تھا۔ موضوع اور اظہار خیال کرنے والوں کی کشش نے بہت سے یونیورسٹی طلبا و طالبات، دیگر نوجوانوں اور سنجیدہ برسوں کی عمر کے خواتین وحضرات کو اس چھوٹے سے ہال میں جمع کرلیا تھا۔ حاضرین محفل، بقول منتظمین، توقعات سے کہیں بڑھ کر آ گئے تھے۔ ہر چند کہ ہال میں کرسیاں کم تھیں، گرمی اور حاضرین کی تعداد سے حبس بظاہر دو چند ہو رہا تھا، لیکن ہمارے اردگرد کے سماج اور معاشرت میں پھیلی ہمہ گیر ثقافتی، سماجی، معاشرتی اور وہ ذہن و فکر اور سوال کا ناطقہ بند کر دینے والے حبس سے قطعی زیادہ نہیں تھا؛ بلکہ مقررین کی تازہ فکر کی سانسوں کی توقع نے حاضرین محفل کو کھڑے ہوکر شریک مجلس ہونا آسان کیا ہوا تھا۔
حاضرین کی کثیر تعداد
شکر ہے کہ ہم جس وقت پہنچے ایک نشست دوسری صف میں ہی مل گئی۔ دائیں عثمان سہیل صاحب تشریف فرما تھے اور سامنے عثمان قاضی: دونوں سے ملنے کی کب کی تمنا تھی لیکن ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے یوں کہئے براعظمی فاصلے حائل رہے۔ سٹیج پر چار لوگ مسند نشین تھے۔ دائیں سے بائیں بتاؤں تو جناب ارشد محمود، پھر اشفاق سلیم مرزا، ان کے بعد ڈاکٹر اے ایچ نیئر کی خالی سیٹ کہ وہ ہمارے پہنچتے سمے تقریر فرما رہے تھے۔ پھر ڈاکٹر پرویز ہودبھائی اور ان کے ساتھ محفل کے منتظمین میں سے محترم ابوبکر کرسی پر موجود تھے۔ صنوبر سہیل چہرے پر مسکراہٹ سمیٹے مجلس میں آنے والے حاضرین کا استقبال کرتیں اور ان کے لئے اکادمی والوں کو جس قدر ممکن ہو کرسیاں فراہم کرانے میں ہمہ تن مصروف رہیں۔
ہال کی جھلک اور سرشاری کے بعد
ہال میں آکر بیٹھ جانے پر پہلے تو پورے منظر کا جائزہ لیا جس کی کچھ جھلک اوپر سطروں میں سمیٹنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد کئی لمحے تک سرشاری رہی کہ ایسے موضوعات کو سننے اتنے لوگ بھی جمع ہوسکتے ہیں۔ یہ کوئی ایسے لوگ نہیں تھے جنہیں کسی جنت کا لالچ دے کر یا جذبات کو نقطۂ کھولاؤ پر لا کر جمع کیا گیا تھا۔ یہ شعوری طور پر اور کچھ سیکھنے کو جمع ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ مختصرا کہیں تو اچھا لگا کہ لوگ کچھ عقلی اور فکری گفتگوئیں سننے بھی پہنچ جاتے ہیں۔
باتیں پرانی سنیں
جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ موضوع بہت عمدہ دکھائی دیا تھا کہ تدریس و تحقیق اور مزاحمت۔ بہت ساری سرشاریوں کے بعد والی کیفیت سوچ، سمجھ اور فکر والے مرحلے پر آجاتی ہے۔ اب اپنی سماعت اور فکر کے دریچوں کو پوری طرح حاضر ناظر کرکے ڈاکٹر اے ایچ نیئر کی تقریر کی طرف توجہ مبذول کی۔ ڈاکٹر صاحب نے فی نفسہ خوب اور برحق نکات اٹھائے۔ لیکن مسئلہ یہ محسوس ہوا کہ وہ نکات وہ ایک سے زائد بار پہلے بھی اٹھا چکے ہیں اور ان کی تحقیقی متنوں میں بھی جگہ پا چکے ہیں۔ وہ نکات درسی کتابوں کی تصنیف و تیاری میں برتی گئی مختلف طرح کی شاونیت chauvinism سے متعلق تھے۔ راقم کو تشنگی رہی کہ آپ درس و تدریس اور تحقیق کاری کے عمل اور مزاحمت کے آپسی ربط اور ان سے پیدا ہونے والے تناؤ پر کچھ داںش و تجربہ ارزاں کریں گے۔ لیکن توقعات اور میسرات میں کافی فاصلے حائل رہے۔ اب بھی توقع ختم نہیں ہوئی کہ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے آنا تھا۔ امید زندہ تھی کہ اب شاید وہ متعلقہ موضوع پر کچھ بات کریں گے۔
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی سٹیج پر تقریر کرنے آئے تو انہوں نے اقبال احمد صاحب کی کچھ یادوں میں حاضرین محفل کو شریک کیا۔ اس کے بعد امریکہ میں ٹرمپ کی جیت کو شدت پسندی کے پھیلتے پھن سے تعبیر کیا؛ ہندوستان میں گائے کی خدمت اور عوام کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کئے جانے کو المیہ قرار دیا۔ پاکستان کی بھی وہ تصویر کھینچ ڈالی کہ جو دراصل کافی حد ایک بھیانک تصویر بنتی جا رہی ہے۔ انتہا پسندی کی مختلف شکلوں کے روز بروز بڑھتے سایے ان کے ثقافتی نوحے کا موضوع خاص رہے۔ مشعال خان کے بہیمانہ اور بےحس انداز کے قتل پر آپ کے جذبات سچ کی رو میں بہہ گئے۔ سچ اس قدر جگر فگار ہے کہ ہونٹوں پر لانا مشکل ہے۔
اپنی قوم کی بے حسی کو سخت سست کہتے ہوئے خون دل کے آنسو زبان سے آواز بن کر ٹپک پڑے، آخر انسان ہیں نا۔ کہہ دیئے کہ ایسی قوم پر لعنت ہو جو اپنی اولاد کو اس طرح قتل کرتی ہے؛ پہلے بے لباس کرتی ہے، پھر پتھر مارتی ہے، پھر آگ لگانے کی کوشش کرتی ہے۔ پرویز ہودبھائی عام انسان ہیں۔ ان کا حوصلہ والد مشعال خان، اقبال شاعر جتنا نہیں؛ مشعال کی والدہ جتنا بھی حوصلہ نہیں کہ جو مشعال کے جسد سے اس کے ہاتھوں کی ان انگلیوں کے پپوٹوں کو ڈھونڈتی پھری جہاں وہ اپنے لخت جگر کو پیار کرتی تھی پر پھر بھی ضبط کئے رہی۔
راقم کی سمجھ کہتی ہے کہ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کو ایسا کرنے والی کسی بھی قوم پر لعنت ہر گز نہیں کرنا چاہئے تھی۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ ایسی قوم زندہ باد کی حق دار ہوتی ہے جس کے لئے چلتی سانسوں والی روح کچھ تجریدات سے کہیں ہلکی اور سستی ہوتی ہے۔۔۔ بہت ہلکی، بہت سستی!
معذرت ہمارے قاری، وقت اور احساس کی رو میں بہہ گئے تھے۔ کبھی کبھی انسانیت جاگی ہوئی ہوتی ہے نا! اب دوبارہ محفل کی گفتگو کی طرف آتے ہیں۔ تو جناب ڈاکٹر ہودبھائی بھی متذکرہ بالا باتیں کہہ سن کر سٹیج سے چلے گئے۔ ہم خیالوں اور خیالوں کی عمل پذیری کے پجاری توقعات اور میسرات کے ڈھیر پر بیٹھے سر کھجانے لگ گئے۔ لیکن پھر امید باندھی کہ سوالات و جوابات کا مرحلہ آنے لگا ہے، یہاں موضوع کو حاشیے سے مرکز میں لانے کی کوشش ہوتی یا کرنی دیکھیں گے۔
سوالات کا مرحلہ شروع ہوتا ہے
پہلے دو سوال آتے ہیں۔ پہلا سوال ڈاکٹر اے ایچ نیئر کے پیش کردہ نکات کو ایک بار پھر سے سننے کی خواہش پر مبنی تھا؛ وہی کہ نصاب اور درسی کتب تنقیدی فکر پیدا نہیں کرتیں۔ جی، ہر وقت کا اہم سوال، پر ہمارے ہاں تنقیدی فکر کا کیا کرنا ہے۔ ہم تو اپنی بہترین علمی و تہذیبی حالت میں بھی “حصول علم” اور “تدوین علم” کی فکر اور گھات میں ہوتے ہیں۔ تخلیق علم اور اس جیسی کفریہ و غدارانہ حرکتوں سے ہمیں کیا لینا دینا۔ اپنی زرعی اجناس اور جسمانی اعضاء بیچ ک ٹیکنالوجی کی مصنوعات اسر دوائیں درآمد کرلیں گے بس۔
دوسرا سوال ایسا تھا کہ جو ایک بار پھر مردان یونیورسٹی کے واقعہ کی نذر ہوگیا۔ سوال پوچھنے والی محترمہ نے ڈاکٹر پرویز ہودبھائی سے پوچھا کہ مشعال خان کے قاتلوں جیسے لوگوں کو کس طرح یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ آپ جواب خود سوچئے۔ بہرحال ایک جواب دیا گیا جو عمومیات کے تناظر میں تھا۔ اس طرح ایک سوال طلبہ تنظیموں کی بحالی کے متعلق تھا۔ جواب میں ان تنظیموں کی ضرورت و اہمیت اجاگر کی گئی۔
معذرت کہ موضوع سے تھوڑا بعد رکھنے والے سوالات کے جوابات کو یادادشت سے کھرچ کر نقل کرنا محال لگ رہا ہے۔ ایک سوال ایک نوجوان سے دکھائی دینے والے لڑکے نے بڑی رواں انگریزی میں غالبا ڈاکٹر ہودبھائی کے مشعال کے بہیمانہ قتل کے تناظر اور لعنت وغیرہ والے معاملے کے ضمن میں کیا تھا؛ یہ کچھ مختلف تھا لیکن تھا مقررین کی طرح موضوع سے ہٹا ہوا۔ البتہ اس سوال میں اس نوجوان نے ہماری قوم کی جینیات میں کسی مفروضہ تشدد کے متعلق دریافت و توضیح کا تقاضا کیا۔ اب تک ڈاکٹر ہودبھائی مشعال کے قتل والے معاملے کی بابت جذباتی طور پر سنبھل چکے تھے۔ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے کہا کہ ہم اپنی قوم کی جینیات کو مجموعی انداز میں دوش نہیں دے سکتے اور یہ کوئی ایسا تشدد آموز جینیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ پاکستان کے اندر کے باسی بہت سارے لوگوں کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بڑا متوازن اور شمولیت پسندیدگی کی مثال جواب تھا۔
ایک سوال راقم نے بھی کیا کہ جو ہماری دانست میں طے شدہ موضوع پر راست انداز میں پہلا اور آخری سوال تھا: عرض کیا کہ ہمارا تعلیمی نظام ایک رسمی نظام formal system ہے: اس میں نصاب متعین ہے؛ امتحان لینے کا طریقہ پابند ہے جو یادداشت اور حافظے کی صلاحیت کو حسابی اعداد میں ڈھالنے کا انتظام ہے۔ پنجاب میں ہائر ایجوکیشن کے ادارے نے کوئی برس دو برس کچھ موضوعات، جن سے نظریہ پاکستان اور دیگر ہم وزن اور ساتھ میں گونجنے والے تصورات، پر جامعات کو تحقیقی مطالعات و مقالہ جات کی اجازت نا دینے کا فرمان جاری کیا۔ ہماری موجودہ تعلیمی پالیسی بھی اپنے مقاصد میں سیکھنے سکھانے سے زیادہ کچھ نظریات کی سربلندیوں کی فکر میں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس تناظر میں مدرس و محقق مزاحمت کے لئے جگہ کہاں سے ڈھونڈے؟
جواب ملا، یہ ہم سب کے سوچنے کی بات ہے۔ اس پر ہم نے سر کھجایا۔ اب کسی دن وقت پانے پر اس موضوع پر اپنی رائے تشکیل دے کر بشرط زندگی یہیں حاضر ہوں گے۔
پس تحریر
اپنے بچوں کو مارنے جلانے والی قوم پر لعنت وغیرہ: باہر تو طوفان تھا
جناب ارشد محمود جو کہ سٹیج پر بیٹھے پوری تقریب کی موبائل فون پر عکس بندی کرتے رہے، انہوں نے اگلے دن تقریب کی روئیداد اپنی وال پر تحریر کر دی۔ اس تحریر کے نیچے تبصروں میں جناب ادریس آزاد صاحب کی سیاق و سباق سے ہٹ کر خواندگی نے فیس بک پر اچھا خاصا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ متذکرہ روئیداد اب ارشد محمود صاحب نے شاید حذف کردی ہوئی ہے۔ لیکن ادریس آزاد صاحب نے سب حاظرین مجلس کے ایمان و ایقان کو کسی ٹیلی میٹری نظام سے ناپ تول کر دائرہ اسلام سے خارج کیا اور اصل بات کے مغز کو ایک طرف رکھ کر پوری تقریر کی دم کے بال کی جینیاتی ساخت کا خوب مطالعہ و اشاعت کی۔ پہلے راقم کو حیرانی ہوئی کہ صاحب نقد وہاں موجود نا ہونے کے باوجود کس قدر نتائج و اخذیات کی قدرت رکھتے ہیں؛ پھر یہ بات ایک بڑے معاشرتی، مذہبی اور سیاسی سیاق میں تحلیل ہوگئی کہ اپنے یہاں تخلیق کردہ other کی دم کو اس کے چہرے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مناظرے جیت لئے جاتے ہیں، شہرہ آفاق کتابیں اور پاکستان کی best selling تصنیفات لکھ لی جاتی ہے۔ یہ other اپنے سے فرق رکھنے والے فرقے کا ہوسکتا ہے، یا مختلف سیاسی و ثقافتی سوچ رکھنے والا بھی۔
وما علینا الا البلاغ