ابہام کے بادل جو نہیں چھٹتے
(محمد حسین ہنرمل)
نائن الیون کے بعد اس دیس بدنصیب میں دہشت گرد حملوں کا شروع ہونے والا سیزن ہنوز ختم نہیں ہواہے۔ یوں تو یہاں کے اکثر بڑے شہر ان حملوں کی زد سے بچ نہ سکے لیکن بدقسمت فاٹا اور خیبر پختونخوا ایسے لرزہ خیز حملوں کا ایپی سنٹر(epicentre) رہا۔ اوردوسرے نمبر پر پسماندہ بلوچستان کا دارالخلافہ کواس حدتک گھائل کردیاکہ ہزارہ برادری کے جلوسوں میں بپاہونے والی قیامتوں کے علاوہ یہاں کے وکلاء اور پولیس کیڈٹس کی پوری پوری کھیپ شہید کردی گئیں۔
ستم ظریفی تویہ بھی ہے کہ ضرب عضب جیسے ٹارگٹڈ آپریشن کے علاوہ بھی یہ حملے رکنے میں نہیں آرہے، گزشتہ دنوں مستونگ میں جےیوآئی کے رہنما اور ایوان بالا کے نائب چیئرمین مولاناحیدری کے قافلہ پر ہونے والا حملہ رواں سال ہونے والے لرزہ خیز واقعات میں سے ایک ہے۔ مستونگ حملے کو بمشکل بیس گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ گوادر میں روڈ کی تعمیر میں مصروف دس مزدوروں کی شہادت کی خبر آئی ، جس کے قاتل بھی معمول کی طرح روپوش ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ دہشت گردی کے ایسے حملوں میں شہید ہونے والے تو ابدی نیند سوجاتے ہیں لیکن قابل رحم تو اُن کے وہ ورثاء اور بہی خواہ ہوتے ہیں کہ جن کا ایسے حادثات کے بعد بیک وقت دوطرح کی کرب سے پالاپڑتاہے۔ پہلے نمبرپر اپنے پیاروں کی جدائی کا صدمہ جبکہ دوسرے نمبرپران کے قاتلوں اور سہولت کاروں کے بارے میں پایا جانے والا وہ اشتباہ اور ابہام ۔
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیرمجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہردھماکے کے بعد جائے واردات سے شہداء کی لاشوں کی وصولی توہوجاتی ہے لیکن یہ علم تا ابد عنقا رہتا ہے کہ واردات ایک شقی القلب خودکش کا کارنامہ تھا یا پھر روڈ کے کنارے نزدیک کسی کھڑی کاریاسائیکل میں نصب بارودی مواد نے ایسی شرارت کی ہے۔بالفرض اگر یہ یقین بھی ہوجائے کہ حملہ خودکُش تھاتو پھر ہماری مہربان سرکار کے عجیب وغریب اور بے سر وپا دعوے بندے کیلئے مزید دل آ زاری کا باعث بن جاتاہے۔ وزراء کی چیف صاحب کو اس حملے کے پیچھے غیبی طور پر ہندی را RAW))کا ہاتھ نظر آتا ہے تو داخلہ کے وزیرصاحب فوراً اس کے اوپرافغان این ڈی ایس کی بزدلانہ کاروائی کا حکم لگا لیتاہے۔ کلبھوشن یادیواور احسان اللہ احسان کا پھربھی بھلاہوجنہوں نے ہماری سرکار کے مردہ دعوؤں اور نیم جاں دلائل میں ایک حد تک جاں ڈال کراس پرجزوی حد تک مہرِ تیقن ثبت کرڈالا، ورنہ معلوم نہیں کہ محروم خاندانوں کے دلوں پر مزید کیا گزرتا؟
بے شک دہشت گردوں کے مظالم کی بھینٹ چڑھنے والے ان ہزاروں شہداء کے اقرباء کے زخم مہینوں میں اگرنہیں، سال دو میں تومندمل ہوجاتے ہیں۔ لیکن قاتلوں کے بارے میں پائے جانے والے اشتباہات ان کے زخموں کوتادم مرگ کریدتے رہینگے۔ ملکی تاریخ پرسرسری نظر ڈال کر ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اس مملکت کے قیام کو بمشکل چارسال گزرے تھے کہ ہمارے ہاں ایسے خونخوار واقعات کے اردگرد ’’ابہامات ، اشتباہات کے دھن دمنڈلانے لگے تھے اورآج بھی منڈلارہے ہیں۔
لیاقت علی خان ملک کا وہ پہلا وزیراعظم تھا جس کا قتل بظاہر اکبر نامی ایک سرپھرے نے کارستانی تھی جسے اُسی وقت توڈھیر کردیاگیا لیکن پیچھے ابہام کے سات پردوں میں ایک ایسی داستان چھوڑ دی جو سڑسٹھ برس بعد بھی کشف نہیں ہوسکا۔ اسی طرح ڈھاکہ کو ساقط کرنے کاسہرا بے شک ہندی سرکارنے اپنی فوج کے سرباندھ لیا یا پھر مکتی باہنی کے مظالم ا ور مجیب الرحمان کی بھارت نوازی یہ سب برمحل ، لیکن اس سقوط کے اصل محرکات کیاتھے، جو آج بھی دھندکی لپیٹ میں ہے۔ جن طالع آزماؤں کے چہروں سے پردہ اٹھانے کی کوشش حمودالرحمان کی برکت سے کی گئی ، اس کے کچھ حصے تاخیر کے ساتھ سامنے ضرور آئے لیکن ہزاروں صفحات پرمشتمل مکمل رپورٹ منظر عام پر آنے سے آج تک روکا گیاہے۔ اوجڑی کیمپ واقعے کو لے لیں،جودس اپریل انیس اٹھاسی میں جڑواں شہروں کے بیچ رونما ہوا۔
تیس ہزار کے لگ بھگ راکٹس،لاکھوں کے حساب سے راونڈز ،ایک بڑی تعداد میں ایئرکرافٹ اسٹنگر میزائل اور اینٹی ٹینک میزائلوں کو کس نے ماچس کی تیلی لگا کرقیامت بپاکردی؟ کہنے کو تو چند افراد کی ہلاکت کی اطلاعات تھیں لیکن حقیقت میں سو کے قریب بے گناہ افراد بشمول اسی وقت کے وفاقی وزیر خاقان عباسی بھی اس میں شہید ہوئے۔
محمدخان جونیجو اسی وقت وزیراعظم تھے، جنہوں نے دوروزبعد اپنے تئیں واقعے کی انکوائری کیلئے راولپنڈی کورکمانڈر جنرل عمران اللہ کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی کمیٹی (بشمول چندپارلیمانی وزراء) تشکیل دی لیکن اسے پبلک کرنے سے چند دن پہلے مرحوم ضیاء صاحب نے انہیں گھر بھیج کر ایسا نہیں کرنے دیا۔ کیونکہ مرحوم جنرل اس ابہام کو انکشاف میں تبدیل کرنے کے لئے اپنی مرضی کے تحقیق کاروں کی مددلینا چاہتے تھے جو شاید جونیجو مرحوم کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کے ممبران کے مقابلے میں زیادہ ماہرتھے۔اور پھر اسی کیمپ کے واقعے کو پس منظر میں دھکیلنے والے خود ایسے غیبی ہاتھوں کی مدد سے فضاء سے ابہام کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے گئے کہ تادم تحریر اس بارے میں بھی ٹھوس حقائق سامنے نہیں آئے ہیں۔
بعد میں اسی نوعیت کے کئی دیگر جزوی واقعات بھی رونماہوتے رہے یہاں تک کہ میاں صاحب کی دوسری حکومت کے دوران ایک مرتبہ پھر قوم کو کارگل ایڈونچر کی شکل میں ایک پردہ پوش کہانی کا تحفہ ملتا ہے۔ شک اور ابہام کی ایسی ہی کیفیات سے گزرتے ہوئے ہم ایک مرتبہ پھر لیاقت باغ پہنچتے ہیں جہاں دس سال قبل دختر بھٹو محترمہ بے نظیر بھٹو کو دن دہاڑے شہید توکردی گئی لیکن گاڑی کی سن روف لیور اور دہشت گردوں کی پستول سے نکلنے والی گولی میں بھی ایک لمبے عرصے فرق عنقا رہا، کہ ان کی موت کا ذمے دار لیور تھا یا پھر گولی؟ اگر گولی تھی تو اس کے پیچھے ہاتھ کس کا تھا اور اس ہاتھ میں پستول تھمانے والا کون تھا، جوبھی تاحال معمہ ہے۔
چھ سال پہلے دومئی کو اسامہ بن لادن کا کام تو امریکیوں نیوی نے تمام کردیا لیکن انہیں یہاں لانے والوں اور سی آئی اے کے اہلکاروں کو کمک پہنچانے والوں کے اوپر آج تک حسین حقانی اور پی پی پی ایک دوسرے کو غداری کے اسناد جاری کررہے ہیں۔ لیکن اصل غدار آسمان کھا گئی یا زمین نگل گئی، یہ معلوم نہیں۔ اسی طرح میموگیٹ اسکینڈل ہو یا پھرحالیہ ڈان لیکس وغیرہ ایسے بے شمار واقعات ہیں جسے رگڑا تو خوب دیا جاتاہے۔ لیکن بدقسمتی سے دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہم سے نہیں ہوپارہا۔ ہاں تو بات دہشتگردی کے حالیہ واقعات اور ان میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کوپہنچے والی اذیت سے متعلق شروع ہوئی تھی جو دور تلک نکل کر تاریخ کی طرف مڑ گئی۔ اشتباہات کے گرد تلے دبے چند اہم واقعات کی سطحی مثالیں پیش کرکے بتانایہ مقصود تھا کہ ملکی تاریخ میں پیش آنے والے ایسے واقعات سے معلق حقیقتوں کوکھل کر بتانے کی بجائے محض رگڑا دینا قوم کیلئے مزید تکلیف دینے کے سوا اور کچھ نہیں۔ دال میں جب کالا نہیں تو اصل دال کو مہمانوں کے سامنے پیش کرنے میں کونسی قباحت ہے؟