عوامی مقبولیت کیوں نہیں ؟

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحب مضمون

  عوامی مقبولیت کیوں نہیں ؟

(نعیم بیگ)

یہ سنہ ا نیس سو چھتیس کا زمانہ تھا ۔ امریکہ گریٹ ڈیپریشن کے خوفناک نتائج کے عفریت سے بچ کر نکل جانے کی کوششوں میں تھا۔ صدر امریکہ فرینکلن روز ویلٹ اپنی دوسری ٹرم کے الیکشن میں اپنی پایسیوں کو ترتیب دیتے ہوئے کہیں زیادہ پریشان تھا کیونکہ واپسی (بحالی) پر چڑھائی کا راستہ کٹھن اور دشوار گزار تھا اور اکثریت عوامی رائے رفتہ رفتہ اس سست رفتارترقی کی معیاری کوششوں سے ناامید اگر نہیں تو مایوس ضرور ہو رہی تھی اور یوں مقبول فیصلوں کی تلاش میں مایوس عوام کا سڑکوں پر نکل آنا کوئی اچنبھا نہیں تھا۔
’’ان احتجاجی ریلیوں میں عموماً غریب اور پرانی طرز کے مڈل کلاس کے نمائندے نمایاں تھے جن میں مایوسی اپنے ساتھ اَن دیکھا خوف اور شرمندگی کی علامات کو بھی ابھار رہی تھی، جہاں بچا کھچا چھن جانے کے امکانات بھی واضح تھے۔‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو اس وقت کے معروف ادیب شیلزسنگر( جونیئر) نے اپنی مقبول عام کتاب ’ پولیٹکس آف اَن ہیِول‘ میں لکھے ، جو ۱۹۶۰ میں شائع ہوئی تھی۔
شیلز آگے چل کر لکھتا ہے۔
’’ یہ لوگ دوردراز اندون ملک اور مختلف صوبوں سے آئے تھے اور عمومی طور پر غیر سیاسی رحجانات رکھتے تھے جو سرکاری ذہنی کاہلی کی وجہ سے اپنی کم ترین سطح کی معاشی ضروریات کے پورا نہ ہونے کی امید بر نہ آنے پر دیوانگی کی حد تک اتر آئے تھے۔ ‘‘
اس وقت کے اخبارات اور عالمی پریس نے ان واقعات پر تنقیدانہ اور حلیفانہ نقطہ نظر کے ان تمام پہلوؤں پر خوب لکھا جو عوامی ترجیحات سے متعلق تھے۔ لیکن یہ بات طے ہو رہی کہ فرینکلن کو ملکی ترقی اور مقبول عوامی دباؤ کے پیشِ نظر اپنے سست رفتار منصوبوں اور عوامی معاشی ترقی کی رفتار کی بحالی پر اپنی تمامتر توجہ مرکوز کرنی پڑی۔ حالانکہ اُس وقت امریکی اخبارات میں یہ بڑی عجیب اور اجنبی سی بات لگتی تھی، جب یہ کہا گیا ’’کہ امریکہ اپنی معروضی اور مروجہ سیاسی اور معاشی برتر اصولوں کو توڑ رہا ہے۔‘‘
لیکن روزویلٹ کو عوامی مقبولیت کے ان فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا جبکہ اسکا اپنا صدارتی انتخابی و سیاسی نقطہِ نظر اس سے الگ تھا۔
یہی اب سب کچھ دولت مشترکہ کے عظیم خالق برطانیہ کے حالیہ ریفرنڈم میں ہوا۔ ٹوریز ( قدامت پرستوں) کے گزشتہ سات سالہ دور میں جس طرح برطانیہ کی امپیریل کلاس نے غیر مقبول فیصلے کئے ان کے اثرات دور رس رہے ہوں یا اپنے اثرات جلد کھو دیں اس بات سے قطع نظر ، کئی برس پہلے سے برطانیہ کی اکثر بڑی یونیورسٹیوں میں اس بات کو زیرِ بحث لایا جا رہا تھا کہ کیا قدامت پسندوں کے وہ اقدامات جو برطانوی نسلی امتیاز کے اَن دیکھے جوہر سے معمور ہیں ، کیا برطانیہ میں نئی نسل کو عالمی اثرات سے بچا پائیں گے کہ نہیں ؟
یورپ کے کئی ایک مسائل مشترکہ ہیں لیکن برطانیہ کی عوام نے اپنے طور پر ہمیشہ ان مسائل کو اپنے ملک کے حوالوں سے آسولیشن میں سوچا، سمجھا اور لاگو گیا۔۔۔
حکومت کی غیر مقبول کوششوں کے باوجود اس برس برطانیہ کی تاریخ میں عوامی مقبولیت کے دو ریکارڈ نمایاں طور پر عالمی منظر نامہ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے ۔ پہلا کیس لندن کے میئر کا انتخاب اور دوسرا برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی کا دیرینہ خواب (ایک خاص تناطر کے حوالے سے)۔ یہ بہت بڑا موضوع ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ اس پر ایک الگ مباحث ہو، تاہم فی الوقت یہ دیکھنا از حد ضروری ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے عالمی اثرات کیا ہونگے؟ کیا یورپ پر جرمنی کا دوبارہ کنٹرول اپنی انتہا پر پہنچ جائے گا جیسا کہ گزشتہ برس یورپ میں ایشیائی مہاجروں کے معاملے میں جرمن چانسلر مرکل کا سخت موقف سامنے آیاتھا۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ وہی صورت حال نہ بن جائے گی جب ہٹلر پہلی دفعہ عوامی مقبولیت کے دھارے پر سوار انیس سو تینتیس میں اکثریت سے چن لیا گیا۔
برطانوی علیحدگی میں لیبر پارٹی کی جیت کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ کیا سوشلسٹوں کا ایک بار پھر بیسویں صدی کا فکری نشاۃ ثانیہ کا دور لوٹ آیا ہے جو پہلے ان دیکھے خطرے کی صورت میں بذریعہ عالمی جنگیں یو ایس ایس آر تک محدود کر دیا گیا تھا ؟
لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ عالمی یونیلیٹرل طاقت کی اپنی داخلی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں ریڈیکل کرسچینٹی کو اسی سال ہونے والے الیکشن میں شکست دینے کے نئے انتظامات کر دئیے ہیں جن کو اخلاقی اور سیاسی امداد امریکہ اور برطانیہ کے ریڈیکل حلقے دے رہے تھے۔ ٹرمپ کے مسلسل بیانات اور امریکی کی متوازن اسٹبلشمنٹ جس کا انحصار ہمیشہ سیاسی طریقِ کار سے عالمی ریسورسسز پر قابض رہنا سرِ فہرست رہا ہے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ریڈیکل مذہبی حلقے ٹرمپ کے توسط سے دنیا کے نقشے پر بے اطمینانی کی وہ فضا دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں جو نائن الیون کے بعد ریپبلیکن پارٹی نے اپنے پہلے دور اقتدار میں کی تھی ۔ اس سارے معاملے میں برطانیہ کی عوام عراق پر حملے کے سلسلے میں امریکی صدر بش کی حمایت میں اپنی سابقہ غلطیوں کی تلافی کرنا چاہتی ہے اسی لئے ان کے دلوں میں ریڈیکل کرسچنیٹی کے لئے کوئی ہمدردی نہیں یہی وہ پیغام تھا جو اس ریفرنڈم میں دیا گیا۔ ٹرمپ کے کل کے سکاٹ لینڈ دورے میں برطانوی اخبارات پوری طرح اس معاملے کو زیرِ بحث لا رہے ہیں۔
ایسی صورت میں یہ دیکھنا بھی لازم ہوگا کہ کیا برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی اس اتحاد (یورپی یونین) کو باقی یورپی ممالک قائم رکھ سکیں گے یا نہیں؟ کیونکہ فوری طور پر چند یورپی ممالک نے بھی برطانوی متن کو اپناتے ہوئے ریفرنڈم کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ وہ امثال ہیں جو حقیقی طور پر مقبول عام فیصلوں کی تجدیدِ نو کے عمرانی اصولوں پر قائم کی گئی ہیں ۔ باوجودیکہ سات برس سے منتخب برطانوی وزیراعظم اپنی دوسری ٹرم میں بھی اتنا ہی مقبول تھا لیکن ملکی مفادات کا کوئی فیصلہ اس نے تنہا ( اپنی کیبنٹ بھی شامل کر کے) کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور اس تاریخی فیصلے کو براہ راست عوام کے حوالے کر دیا۔
پاکستان کے اہل ارباب و اختیار و حکومتی حلقوں کو اب ان واقعات کے رونما ہونے پر انکے عالمی اثرات کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ کیا تیزی سے بدلتے ہوئے اس عالمی تناظر میں اپنے ملکی سیاسی ، معاشی و دیگر مسائل کی روشنی میں پاکستانی شہری یہ پوچھ سکتے ہیں کہ ایک شہری ہونے کے ناتے ووٹ کی حرمت کیا ہے؟
کیا صرف مینڈیٹ حاصل کر لینے کے بعد عوامی مقبول فیصلوں کے لئے عوام سے روابط رکھے جانے ضروری ہیں یا نہیں۔ اور اگر یہ روابط عالمی عمرانی و جمہوری اقدار کے پیشِ نظر ( جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے ) ضروری ہیں تو انکے قانونی طریقِ کار پر کوئی رائے پارلیمنٹ میں نظر کیوں نہیں آتی۔ ایک غیر معروف اور غیر مقبول طریقے سے کاروبارِ حکومت کو چلانے کے لئے کیا صرف انتخابی مینڈیٹ کافی ہے؟
کیا ووٹ حاصل کر لینے کے بعد معروف عمرانی روایات کے تحت وزیراعظم اس عوامی طاقت کو بلا استثناٗ تنہا یا کابینہ کے چند ساتھیوں کے ساتھ صوابدیدی طور پر غیر مقبول مالی و معاشی و فکری اور نظریاتی فیصلے کر سکتا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب اہل اقتدار کے علاوہ پاکستان کے میڈیا ( اکثریت غیر سنجیدہ اور شترِ بے مہار) اور علم و ہنر و دانش کے مراکز سے آنے چائیں۔
عالمی دہشت گردی میں پاکستان کے گزشتہ دو دھائیوں میں برتے گئے کردار میں اشرافیہ اور ان کے حواریوں کی معروضی عوامل میں فکری ، اخلاقی و مالی معاونت کی گئی ۔ خالصتاً مخصوص مذہبی نقطہِ نظر کی ترقی و ترویج کو اپنا اثاثہ مانا گیا۔ اور اس پر انتخابی مینڈیٹ کی مہر لگا دی گئی ۔ جن حلقوں کی طرف سے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی بات کی جاتی تھی انہیں نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا سندیسہ دیا جاتا رہا۔
ان حالات میں کوئی بھی ذی شعور پاکستانی شہری اِن ہوتی ہوئی عالمی تبدیلیوں سے الگ نہیں رہ سکتا ۔ اسے یہ احساس ہو چکا ہے کہ جمہوری اور پاپولر فیصلوں کے پیچھے عوامی رائے ہوتی ہے صرف تنہا ووٹ نہیں۔
ٹیکنالوجیکل رسل و رسائل اور وسائل کے اس گلوبل منظر نامہ میں پاکستان کا قومی مجموعی سیاسی و ثقافتی کردار پاپولر عمرانی روایات کا متقاضی ہے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔

1 Comment

Comments are closed.