برقی کتاب کے سامنے کاغذی پیراہن والی کتاب کا کیا بنے گا؟
(محمد فیصل)
مشہور برطانوی ادیب پیٹر جیمز نے 1993 میں Host (میزبان) کے عنوان سے ناول لکھا تھا۔ خاص بات یہ تھی انہوں نے یہ ناول روایتی کتابی صورت کے بجائے ‘فلاپی ڈسک’ کی صورت میں ‘شائع’ کر کے مارکیٹ میں بھیجا جس پر ادبی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے ان پر خوب تنقید ہوئی۔ یہ خبر دنیا بھر کے نمایاں اخبارات میں صفحہ اول پر شائع ہوئی اور اسے ناول کو ‘ختم’ کرنے کی کوشش بھی قرار دیا گیا۔
جواباً پیٹر جیمز کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا کر کے پہلے سے دم توڑتے ناول کو نئی زندگی دینے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ پیش گوئی بھی کی کہ جب کمپیوٹر ٹیکنالوجی مزید آسان اور سستی ہو جائے گی تو ‘ای بُکس’ کاغذ پر چھاپی جانے والی روایتی کتابوں کی جگہ لے لیں گی۔
23 سال بعد آج پیٹر جیمز کی پیش گوئی حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔
آج ‘ای بُکس’ یا ڈیجیٹل کتابیں دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ کیا مستقبل میں کاغذ پر چھپی کتابوں کا وجود ختم ہو جائے گا؟ کیا یہ کتابیں محض الماریوں میں سجاوٹ کے طور پر کام آئیں گی؟ مزید یہ کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ تشویش ناک بات سمجھی جائے؟
ان سوالوں کا جواب آسان نہیں ہے۔ کمپیوٹر پر کتابیں پڑھنے کے رحجان سے متعلق بہت سی تحقیق ہو چکی ہے اور ہر تحقیق کے نتائج بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
گزشتہ برس مشہور تحقیقی ادارے ‘پیو ریسرچ سنٹر’ کے جائزے میں انکشاف ہوا کہ آج امریکی نوجوانوں کی قریباً نصف تعداد ‘ٹیبلٹ’ استعمال کرتی ہے اور ہر 10 میں 3 نوجوان آن لائن مطالعے کو ترجیح دیتے ہیں۔
1971 میں قائم ہونے والے ایک امریکی ادارے ‘پراجیکٹ گوٹن برگ’ نے لوگوں کو مطالعے کی مفت سہولت دینے کے لیے کتابوں کی ‘الیکٹرانک ٹیکسٹ فائل’ بنانا شروع کی تھیں۔ یہ ادارہ کسی کتاب کو کمپیوٹر پر ٹائپ کر کے اسے کیسٹ نما آلے میں منتقل کر دیتا تھا جسے کمپیوٹر میں ڈال کر پڑھا جا سکتا تھا۔ بعد ازاں ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی تو پام پائلٹ، مائیکروسافٹ ریڈر اور سونی ریڈر جیسے جدید آلات بنائے گئے جن میں ‘فیڈ’ کیے گئے تحریری مواد کو سکرین پر پڑھا جاتا تھا۔
پیٹر جمیز نے جب اپنا پہلا ڈیجیٹل ناول لکھا تو اشاعتی اداروں نے اس نئی چیز کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے نظرانداز کر دیا تھا۔ بڑے بڑے پبلشرز کا کہنا تھا کہ لوگ روایتی کتاب ہی پڑھنا چاہتے ہیں اور فلاپی ڈسک کی صورت میں چھپی کتاب کوئی نہیں خریدے گا۔
2007 میں مشہور کمپنی ‘ایمیزون’ نے Kindle بنائی تو اس سے اشاعتی اداروں کا سابقہ رویہ تبدیل ہو گیا۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے آپ آن لائن کتابیں اور اخبارات خرید کر پڑھ سکتے ہیں اور kindle پر تحریری مواد ڈاؤن لوڈ بھی کیا جا سکتا ہے۔
اشاعتی اداروں کے لیے ایمیزون جیسی بڑی کمپنی کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ 2008 سے 2010 تک ای بُکس نے مقبولیت کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے اور روایتی اشاعتی صنعت کو الیکٹرانک کتابوں کی اہمیت تسلیم کرتے ہی بنی۔
مگر گزشتہ دو برس میں ایی بُکس کی مقبولیت کا گراف اوپر نیچے ہوتا رہا ہے۔ مغربی ممالک میں حالیہ جائزے سے یہ سامنے آیا ہے کہ اس عرصے میں ان کتابوں کے پڑھنے والوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ 2015 کے ابتدائی مہینوں میں ای کتابوں کی فروخت میں کمی دیکھی گئی تھی۔ پیو ریسرچ سنٹر کے اعدادوشمار بھی حالیہ عرصے میں ای کتابوں کی فروخت میں کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
کمپیوٹر پر کتاب پڑھنے سے تحریر کے پلاٹ اور واقعات میں ربط پر ہماری ذہنی گرفت کمزور رہتی ہے
اس صورتحال میں پبلشر حضرات کا کہنا ہے کہ ‘ثابت ہو گیا لوگ روایتی کتاب ہی خریدنا پسند کرتے ہیں’ مگر شاید یہ بات مکمل طور سے درست نہیں ہے۔ اس میدان میں تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ای کتابوں کی فروخت میں کمی کا رحجان عارضی ہو سکتا ہے اور آنے والے دنوں میں ایسی کتابوں کی فروخت ماضی سے کئی گنا زیادہ بڑھ سکتی ہے۔
اس دعوے کے حق میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ مستقبل میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی زیادہ سے زیادہ لوگوں کی پہنچ میں ہو گی اور ایسے میں آن لائن مطالعے کا رحجان کم ہونے کے بجائے بڑھنے کا امکان کہیں زیادہ ہے۔
بعض ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ آنے والے دور میں کتابیں (ای بُکس) روایتی پبلشرز کے بجائے ‘گیمنگ انڈسٹری’ شائع کیا کرے گی۔ یہی نہیں بلکہ مستقبل میں لکھاری اور قاری میں فرق بھی دھندلا جائے گا کیونکہ لکھاری اور قاری باہم ڈیجیٹل رابطے میں ہوں گے۔ اسے ‘سوشل ریڈنگ’ کہتے ہیں۔ یوں ‘سوشل بُک’ کا تصور ابھرے گا جس کی رو سے قارئین ڈیجیٹل کتاب کے متن میں براہ راست اپنے کمنٹس بھی دے سکیں گے۔ اس طرح کتاب کا روایتی تصور ختم ہو جائے گا جس میں کسی لکھاری کی تحریر میں کوئی دوسرا تبدیلی نہیں کر سکتا۔
تاہم بعض محققین کا ماننا ہے کہ تمام تر ڈیجیٹل اختراعات کے باوجود کاغذ پر چھپنے والے روایتی کتابیں متروک نہیں ہوں گی یا کم از کم مستقبل قریب میں ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ البتہ ایسی کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم رہ جائے گی۔
محققین کے مطابق کمپیوٹر اور موبائل فون ٹیکنالوجی جس سطح پر پہنچ چکی ہے وہاں روایتی کتاب کا مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے۔ مستقبل میں ایسی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی کہ لوگ کاغذ پر چھپی کتاب خرید کر پڑھیں۔
اگرچہ روایتی کتاب فوری طور پر متروک ہونے نہیں جا رہی تاہم اس کے مستقبل کے حوالے سے مندرجہ بالا دعوے بڑی حد تک درست کہے جا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ روایتی کتاب ختم ہونے سے کیا نقصان ہو گا؟
اس موضوع پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن مطالعے سے ممکنہ طور پر ہمارے ذہن پر تحریر کے وہ اثرات مرتب نہیں ہوتے جو روایتی کتاب پڑھ کر ہوتے ہیں۔ اب تک ہونے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ کمپیوٹر پر کتاب پڑھنے سے تحریر کے پلاٹ اور واقعات میں ربط پر ہماری ذہنی گرفت کمزور رہتی ہے۔ کاغذ پر چھپی تحریر پڑھنے سے استغراق قائم رہتا ہے جبکہ لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ یا موبائل فون پر یہ کیفیت نہیں ہوتی۔
مستقبل میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی زیادہ سے زیادہ لوگوں کی پہنچ میں ہو گی جس سے آن لائن مطالعے کا رحجان مزید بڑھنے کا امکان ہے
مستقبل میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی زیادہ سے زیادہ لوگوں کی پہنچ میں ہو گی جس سے آن لائن مطالعے کا رحجان مزید بڑھنے کا امکان ہے
بعض دوسری تحقیقات کے نتائج میں ایسی باتیں ثابت نہیں ہو سکیں اور یہ نتائج اخذ کیے گئے ہیں کہ پڑھنے اور سمجھنے کا تعلق کاغذ یا سکرین سے نہیں بلکہ ہمارے مزاج اور کیفیت سے ہے۔ خاص طور پر بچوں کے پڑھنے سمجھنے کے لیے ای بُکس کو روایتی کاغذی کتاب سے زیادہ بہتر خیال کیا جاتا ہے جس میں تصویری گنجائش بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ای بُکس یا ڈیجیٹل کتابیں آج کے دور کی نمایاں حقیقت ہیں اور آنے والے وقت میں ان کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے کا زیادہ امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ تاہم موجودہ رحجانات کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ 50 سے 100 سال تک روایتی کتاب ختم نہیں ہو گی تاہم اس ضمن میں یہ دیکھنا بہت اہم ہے کہ اس عرصے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ترقی کی جانب مزید کتنے موڑ لیتی ہے۔
(اس مضمون کی تیاری میں ‘بی بی سی’ اور ‘فورچون’ میگزین سے استفادہ کیا گیا’
محمد فیصل ادب، فلسفے اور نفسیات پر متعدد کتابوں کے مترجم اور سجاگ کے ساتھ بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر وابستہ ہیں
Courtesy: Sujag.org