مذہبی اقلیتیں اور رمضان
(آصف عقیل آسف)
یوں تو مذہبی اقلیتیں پاکستان میں اپنی حفاظت کے پیش نظر کوشاں رہتی ہیں کہ وہ اکثریت کے مذہبی معاملات سے پرے ہی رہیں مگر ماہ رمضان میں یہ کوشش ذرا زیادہ ہی کرنا پڑے گی۔ انجانے میں بھی کسی روزہ دار کے جذبات کو ٹھیس لگنے کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں بسنے والے کئی مسیحیوں سے پوچھا اور سب کا کہنا تھا کہ انہیں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا احترام ہے مگر ڈر بھی ہے کہ کہیں کسی کو جہالت، لاعلمی یا بے پروائی مہنگی نہ پڑ جائے۔
اس سال تو اکثریت کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں کو خصوصی احتیاط کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ پہلے یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ احترام رمضان آرڈیننس 1981 تو جنرل ضیاءالحق کی دین ہے مگر سینیٹ کی مذہبی امور کی کمیٹی نے اس سال جرمانے اور سزائیں بڑھا کر اسے عوامی رائے کا درجہ دے دیا ہے۔
ٹی وی چینل اور سینما گھروں کو پانچ لاکھ جبکہ رمضان میں کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والی دکانوں کو 25 ہزار تک جرمانہ اور ذمہ داروں کو تین ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
بختاور بھٹو نے قانون میں تبدیلی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ
اگست 2009 میں دو مسیحی بھائیوں کو اس قانون کا خیال نہ رکھنے پر جیل بھگتنا پڑی اور پچھلے سال تو 80 سالہ ہندو بزرگ گوکھل داس پر ایک سپاہی خود ہی ٹوٹ پڑا اور انہیں لہو لہان کر دیا۔
رمضان میں دو وقت کا کھانا بھی مہنگا ہو جاتا ہے اور سرکاری اداروں میں بھی کام کرنے کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ انڈین موسیقی اور بدزبانی بھی کم ہو جاتی ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون میں کومل علی لکھتی ہیں کہ ٹی وی پر صبح کے شو کرنے والی خواتین دوپٹہ اوڑھنا شروع کر دیتی ہیں اور غیر محرموں کو اپنے شو میں بلانا بھی بند کر دیتی ہیں۔ تاہم روزہ کھلنے سے کچھ دیر پہلے ٹریفک میں انتہائی تیزی دیکھنے میں آتی ہے جبکہ روزہ کھلنے سے چند منٹ پہلے سڑکیں ویران ہو جاتی ہیں۔
حال ہی میں چرچ آف پاکستان کے ماڈریٹر مقرر ہونے والے پشاور ڈایوسیز کے بشپ پیٹر ہمفری کہتے ہیں کہ اقلیتیں ماہ رمضان میں اکثریت کے ساتھ اپنے برتاؤ میں زیادہ احتیاط برتنے لگتی ہیں۔ اس سال تو پشاور میں اعلان کر دیا گیا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں جیل جانا ہو گا۔
انسانی حقوق پر کام کرنے والے شمس شمعون کہتے ہیں کہ اکثریت کو اقلیتوں کی ضروریات بھی مد نظر رکھنا چاہئیں۔ مذہبی اقلیتوں کی بیشتر تعداد غریب محنت کشوں پر مشتمل ہے، اس شدید گرمی میں ان کا خیال رکھنا قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
گجرات کے ڈی پی او نے فیس بک پر سٹیٹس دیا ہے کہ مسیحیوں کے بھی تو چالیس روزے ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں کیا خیال ہے۔
وزیراعلی سندھ کے سابق صلاح کار نوید انتھونی کہتے ہیں کہ انہیں یقین ہے سندھ میں قائم مذہبی رواداری کے باعث کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما نہیں ہو گا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گوکھل داس کا تعلق سندھ سے ہی تھا۔
نوید انتھونی کے ساتھ ہم بھی پرامید ہیں کہ اقلیتیں کسی مشکل کا شکار نہیں ہوں گی اور اکثریت ان کی ضروریات کا خوش دلی سے خیال رکھے گی۔
بشکریہ: نقطۂ نظر سجاگ
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.