پاکستان کی تخلیقی معیشت
(محمد ضیاالدین)
ترجمہ: محمد فیصل
پاکستان کے تین ممتاز ماہرین معاشیات نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی اقتصادی پالیسیوں کو قومی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور یورومنی میگزین انہیں معقول حد تک کامیاب قرار دیتے ہیں۔ وزیر خزانہ کی ‘تخلیقی معیشت’ کےتصور پر مبنی پالیسی پر تنقید کرنے والوں میں ڈاکٹر حفیظ پاشا، ڈاکٹر اشفاق حسن خان اور ڈاکٹر سلمان شاہ کا نام نمایاں ہے۔
تخلیقی معاشیات کی اصطلاح اعدادوشمار میں ہیرپھیر کا نام نہیں بلکہ یہ ایسی معیشت پر دلالت کرتی ہے جہاں تصوراتی اور اختراعی سوچ کے ذریعے یہ طے پاتا ہے کہ لوگ کیا کرنا چاہتے ہیں۔
تخلیقی صنعتیں وہ ہوتی ہیں جہاں انفرادی تخلیقیت، صلاحیت اور قابلیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے جس کے ذریعے سامنے آنے والی ‘انٹلیکچوئل پراپرٹی’ دولت اور روزگار پیدا کرتی ہے۔ ان میں تشہیری شعبہ، تعمیرات، آرٹ اور قدیم اشیا، دست کاری، نمونہ سازی، فیشن، فلم، کمپیوٹر گیمز، موسیقی، پرفارمنگ آرٹ، پبلشنگ، سافٹ ویئر، ٹیلی ویژن اور ریڈیو شامل ہیں۔
تجارت، سرمایہ کاری اور ترقیاتی مسائل سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ‘یو این سی ٹی اے ڈی’ کی 2008 میں جاری کردہ رپورٹ میں ‘تخلیقی معیشت’ کی مزید جامع تعریف کی گئی ہے جس کے مطابق یہ اصطلاح وسیع تر سماجی مفاہیم میں استعمال ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق تخلیقیت، ثقافت، معاشیات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ذہنی (انٹلیکچوئل) سرمایے کی تخلیق و ترسیل، اس سرمایے کی بدولت ذرائع آمدنی، روزگار اور زرمبادلہ کا حصول نیز سماجی جامعیت، ثقافتی تنوع اور انسانی ترقی کا فروغ ‘تخلیقی معاشیات’ کی ذیل میں آتا ہے۔
آرٹ، کلچر، نمونہ سازی، تفریح، میڈیا اور ایجادات اس معیشت کے بڑے شعبہ جات ہیں۔ گزشتہ 20 برس میں تخلیقی معیشت ایک غیرتسلیم شدہ شعبے سے بڑھ کر عالمی سطح پر اہم مقام حاصل کر چکی ہے۔ عالمی منڈی اس شعبے کا حجم 4.3 ٹریلین ڈالر سالانہ ہے جو کہ عالمگیر معیشت کا 6.1 فیصد بنتا ہے۔
یونیسکو کے مطابق 2004 میں پاکستان کی مجموعی تخلیقی اور ثقافتی برآمدات کا حجم 6 کروڑ ڈالر تھا جو 2013 میں بڑھ کر 43 کروڑ 70 لاکھ ڈالر ہو گیا۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں آرٹ سے متعلق سرگرمیاں تیزی سے فروغ پا رہی ہیں۔
دنیا بھر میں تخلیقی اور ثقافتی معاشیات کو عالمگیر اقتصادیات کا اہم حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح تخلیقیت، علم اور معلومات کی تجارت سے متعلق سرگرمیوں کے سماجی معاشی امکانات کا نام ہے
دو مرتبہ آسکر ایوارڈ جیتنے والی مشہور فلم ساز شرمین عبید چنائی اور پاپ/ راک موسیقی کا مشہور نام ‘جنون بینڈ’ عالمی سطح پر پاکستان کی فنی پہچان کی نمایاں مثال ہیں۔ اگرچہ پاک بھارت تعلقات میں بگاڑ سے بھارت کو ہماری تخلیقی برآمد میں کمی واقع ہوئی ہے مگر امید کی جا سکتی ہے کہ حالات معمول پر آنے کے بعد فواد خان، علی ظفر، غلام علی، راحت فتح علی خان، عاطف اسلم اور شفقت امانت علی جیسے ہمارے فنکاروں کو ایک مرتبہ پھر بھارت میں کام کا موقع ملے گا۔
دنیا بھر میں تخلیقی اور ثقافتی معاشیات کو عالمگیر اقتصادیات کا اہم حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ اصلاح تخلیقیت، علم اور معلومات کی تجارت سے متعلق سرگرمیوں کے سماجی معاشی امکانات کا نام ہے۔ حکومت اور تخلیقی شعبہ جات کو تیزی سے اس کی اہمیت کا احساس ہو رہا ہے کہ ان سے روزگار، دولت اور ثقافتی میل جول کے در وا ہوتے ہیں۔
ثقافتی اور تخلیقی صنعتیں اس تخلیقی معیشت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ معیشت فنون، ثقافت، کاروبار اور ٹیکنالوجی کے گرد گھومتی ہے اور سرگرمیاں ‘ذہنی سرمایے’ (انٹلیکچوئل پراپرٹی) کی شکل میں تخلیقی اثاثوں سے بیوپار کرتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی ڈھانچہ ہے جس کے ذریعے تخلیقیت کو معاشی قدر میں ڈھالا جاتا ہے۔
یہ موضوع اپنے کاروباری امکانات ماپنے کے لیے مزید مفصل جائزے کا متقاضی ہے۔ 24 نومبر 2006 کو اسلام آباد میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اندرون ملک تخلیقی معیشت اور پائیدار ترقی کا جائزہ لیا گیا۔ ثقافتی اظہار کے تنوع کے تحفظ اور فروغ کے لیے یونیسکو کا کنونشن (2005) ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ایک نئی دنیا کی جھلک دکھاتا ہے جس کا آغاز 2001 میں ہوا تھا۔
یونیسکو کنونشن ثقافت سے متعلق ‘گڈ گورننس’ کے لیے پالیسی فریم ورک مہیا کرتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ معاشی و سماجی ترقی میں اہم حصہ دار کی حیثیت سے ثقافت کا ایک مخصوص اور نمایاں کردار ہے۔ دنیا بھر میں فنکار، تخلیقی پیشہ ور اور عام شہری وسیع النوع اشیا، خدمات اور سرگرمیوں کی تخلیق و تشہیر کر سکتے ہیں اور سبھی کو یہ حق حاصل ہے۔
پاکستان نے تاحال اس کنونشن کی توثیق نہیں کی تاہم اس وقت ملک میں قومی ثقافتی پالیسی وضع کرنے کا کام ضرور جاری ہے۔
Courtesy: sujag.org