گلف ریاستوں میں نفاق : اسلامی اتحاد میں پہلی دراڑ
(نعیم بیگ)
چھ ممالک پر مشتمل گلف ریاستوں نے ۱۹۸۱ء میں گلف کوآپریشن کونسل کے اتحاد کو دوام بخشا تھا۔ اس میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، قطر ، بحرین، کویت اور عمان تھے جنہوں نے جی۔سی۔سی کے جھنڈے تلے مالی اور معاشی اور سائنسی تعاون کو سرِ فہرست رکھا۔ اِن کے ایجنڈے میں مشترکہ کرنسی اور سماجی علاقائی تعاون بھی شامل تھا جو گاہے بہ گاہے عرب ممالک کی اپنی اپنی علیحدہ سوچ اور قبائلی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھتا رہا، لیکن اس کے باوجود یہ اتحاد کسی نی کسی طرح چلتا رہا۔
گذشتہ دو دھائیوں میں افریقی ممالک میں اسلامی لہر جس میں مراکش، تیونس اور لیبیا کی شکست و ریخت کے بعد پے در پے مصر میں اسلامی سیاسی تنظیم اخوان المسلمین کے بر سر اقتدار آ جانے اور پھر ہٹائے جانے کے بعد مغرب کی مڈل ایسٹ پالیسی اپنے خد و خال چھپا نہ سکی۔ عرب بہار لہر کے بعد تو مغرب نے اس شکست و ریخت میں مخفی عسکری امداد کو باقاعدہ کھلےعام کر دیا۔ یہی وجوہات تھیں کہ شام میں روس بھی صدر اسد کی مدد کے لئے کھُل کر امداد دینے لگا۔
اس سارے معاملے میں امریکوی نقطہ نظر جو دنیا کے سامنے آیا، اس میں عراق کی جنگ میں شیعہ، سنی نفاق کو ابھارنا اور دامے، درمے ، قدمے، سخنے اِن کی طرف سے سنی اتحاد کو تقویت دینا مقصود ٹھہرتا رہا۔ چونکہ یونی لیٹرل قوت کو ابھی بھی روس کی طرف سے مسلسل ریززٹنس کا سامنا تھا اور ہے، لہذا یہ بھی مکمل طور پر نہ کھُل سکا کہ’ دعوت اسلامی عراق و شام‘ کو سی آئی اے کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے کہ نہیں ؟ لیکن ان خدشات کی وجہ سے ہی روس شام میں آئی ایس آئی ایس پر مسلسل گولہ باری کرتا رہا ہے۔
عرب بہار کے بعد شام میں گزشتہ چند برسوں میں اوبامہ کی حکومت کا تسلسل ابھی ٹرمپ کی حکومت میں کچھ رد و بدل کے ساتھ جاری ہے۔ گو اس ضمن میں روس کے ساتھ مسلسل مذاکرات کا عمل جاری رہتا ہے لیکن کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
اس سارے منظر میں ایک بڑا کردار جو عالمی سطح پر اپنی حیثیت کومنوا چکا ہے وہ ایران ہے۔ ان کے ہاں سیاسی سطح پر اندرونِ خانہ الیکشن کے ذریعے جو تبدیلیاں آتی ہیں وہ دراصل انکے صدور کے چہرے بدل جانے کی حد تک ہی ہوتی ہیں۔ اصل اقتدار مسلسل برسراقتدار رہنے والی سپریم کونسل کے پاس ہی رہتا ہے جو عالمی سیاست میں اپنی ریاستی استحکام کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔
ان کے ہاں قومی سطح پر دو بڑے مثبت فیکٹرہیں جس کی وجہ سے انہیں اندرون خانہ کچھ زیادہ مخاصمانہ یا مخالفانہ عوامی رویے کا سامنانہیں کرنا پڑتا۔ پہلی وجہ قومی سطح پر ایک ہی فقہی برادری یعنی شیعہ ہونا۔ دوسرا پورے ملک کی ایک ہی کامن زبان کا ہونا۔ یہ وہ فیکٹرز ہیں جو ان کے اتحاد میں مزید قوت بخشتے ہیں۔ گو ایسے فیکٹرز مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی ہیں لیکن اتفاق سے انکی شناخت جی۔ سی۔ سی میں الگ الگ علاقائی قبائل کے طور پر مانی جاتی ہے۔
اس پس منظر میں نائن الیون کے بعد دہشت گردی کو اسلام سے مکمل طور پر منسلک کرنا، اسے مختلف ذرائع سے اپنے مفاد میں استعمال کرنا اور اس کی عالمی سطح پر ایکسپلائٹیشن ،امریکہ (اور اسکے حواری مغربی و ایشیائی ملکوں) کی مشرقِ وسطیٰ کی پالسیوں میں سب سے اہم عنصر بن گیا۔ یہ ایک قدرتی امر تھا کہ اس عالمی یونی لیٹرل قوت کو ایسے حالات کی خواہش تھی، جہاں اس کے اپنے عالمی معاشی اور سرمایہ دارانہ ایجنڈے کو جاری رکھا جائے۔ ایک ختم نہ ہونے والی جنگ سے اپنی معاشیات کو مزید مضبوط کیا جائے۔
یہ بھی ملاحظہ کیجئے: قطر اور باقی عرب ممالک میں کشیدگی کی چار وجوہات
اسلامی تفرقہ بندی اور شیعہ، سنی عقیدوں کو حکومتوں کے درمیان وجہ مخاصمت بنایا جائے (صرف ریاستی سطح پر جیسے انہوں نے عراق میں کیا اور کامیابی حاصل کی، لیکن پاکستان میں یہ تفرقہ پیدا نہ کر سکے، اگرچہ ان دونوں ممالک میں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی تھی لیکن ان کے کسی حد تک اہداف پورے ہو گئے تھے۔) اور پوری طرح سے اس پر عمل درآمد کریا جائے تاکہ مجموعی طور پر عالمی امریکی قرضوں کی ایک مخصوص سطح تو کلیئر یا پیڈ آف کر دی جائے، تاکہ اس کے بیلنس آف پیمنٹ میں ایک ٹھہراؤ اور استحکام آسکے ۔ چین اور عالمی سرمایہ کاروں کے قرضوں کی ادائیگی ممکنہ طور پر ٹرمپ اپنی حکومتی دور میں کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے کئی ایک عالمی معاہدوں سے انحراف کر دیا ہے جس میں گلوبل وارمنگ کا ایک یورپی معاہدہ سر فہرست ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ سارا گورکھ دھندا، افغان، عراق جنگ ، طالبان کی دو طرفہ ملکی سرگرمیاں ، اسلحہ کی خریداری اور سپلائی، زیر زمین مافیاز کی معاشی سرگرمیاں ، بڑی بڑی رقوم کی حوالگیاں، تیل کی غیر سرکاری سستے داموں خریداری ،مذہبی تفرقہ بندیاں ، عالمی سیاست میں عرب بہار ، شام میں داعش و حزب اسلامی و اسد فورسز اور یمن میں حوثی قبائل کے خلاف جنگ یہ سب کچھ دراصل ایک ہی کہانی کے مختلف ابواب ہیں، جس کا نام اسلامی دہشت گردی رکھ دیا گیا ہے۔
یہ کہانی اساطیری داستانوں کی طرح طلسمِ ہوش ربا ہے کہ ابھی پہلا مرحلہ طے نہیں ہوتا کہ دوسرا مرحلہ عالمی اقوام کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ سعودی اسلامی اتحاد جو چالیس اسلامی ممالک کے وجود کو بظاہر یمن کی جنگ ، سنی مسلم اسٹیٹ کی بالا دستی اور دیکھے، اَن دیکھے دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں کے پیشِ نظر تجسیم کیا گیا ہے۔ جس کی غیر سرکاری سربراہی امریکہ نے خود قبول کی اور سرکاری سربراہی سعودی عرب کے حوالے کی، میں پہلی دراڑ بھی کہانی کے مصنف نے خود ڈال دی۔
قطر کی حکومت کا مکمل سیاسی، سماجی و جنگی بائیکاٹ، سعودی عرب ، بحرین اور متحدہ عرب امارات کا سفارتی تعلقات اور رسل و رسائل کی منقطع کرنا۔ سعوری عرب کا ۱۴ روز میں قطری شہریوں کو نکل جانے کا حکم دینا اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ یہ عمل اس حد تک سخت اور ناروا ہے کہ اتحاد میں شامل قطری افواج بھی واپس بھجوا ئی جا رہی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ قطر ہی کیوں مورد الزام ٹھہرا۔
کیا ایران کے بارے میں قطر کی پالیسی بدل گئی ہے ؟ یا بظاہر امریکہ کی طرف سے دئیے گئے ہدف میں قطر ایک مخالف رائے رکھتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔ امریکہ جہاں مصری صدر عبدل فاتح السیسی کے ساتھ ہے وہیں اندرون خانہ الخوان المسلمین کے ساتھ بھی رابطے ہے۔ صرف الخوان المسلمین کی وجہ قطری حکومت کا اتحاد سے نکال دیا جان بالا تر از عقل ہے۔
دوسرا یہی قطر ہے جس نے امریکی افواج کو اپنی سرزمین پر اڈے دے رکھے ہیں ۔ جس نے امریکہ کے کہنے پر طالبان کو وہاں رہنے اور دیگر ملکوں سے مذاکرات کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
کیا ایسا نہیں کہ ۳۸۰ بلین ڈالر (تفصیل ملاحظہ کیجئے اس لنک پر: ڈان پاکستان 21۔5۔17 ) کے مجموعی اسلحہ کے سودے میں کچھ اور پنہاں ہو؟ کیونکہ گمان اغلب یہی ہے کہ کاروباری معاملات اب عالمی سیاست میں مقتدر کردار ادا کریں گے۔
لیکن ایک اہم پہلو اور بھی ہے کہ کیا اس اتحاد میں ملوکی ذہنیئت کامل طور پر حتمی کردار ادا کرے گی یا مصنف دیگر ناپسندیدہ عناصر کو جنہیں ایران کے خلاف کچھ کرنے کا چارہ نہیں ہے انہیں بھی اس اتحاد سے دودھ میں سے مکھی کی طرح نہ صرف نکال دیا جائے گا بلکہ ایکشن بھی لیا جائے گا۔
اچھی، کامیاب اور مقبول کہانی میں کنفلکٹ کے تسلسل اور ٹوئسٹ کو مصنف ہمیشہ ایک ایسے کردار کے ذریعے طشت از بام کرتا ہے جس سے بظاہر پوری کہانی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ کہانی کا نیوکلیئس برقرار رہتا ہے اور مصنف جب چاہے اس کردار کے ذریعے کہانی سے جڑے اپنے مفادات کو بچا لیتا ہے اور اگر چاہے تو اسے موت کی نیند سلا دیتا ہے۔
حالیہ منظر میں زدوکوب کیا جانے والا کردار ابھی عالمِ نزع میں ہے۔ دیکھئے کہانی ختم ہونے سے پہلے کچھ کردار مزید داغ مفارقت دیتے ہیں یا کہانی کے زیر و بم میں کہیں اندر غرق ہو جاتے ہیں؟
تاہم یہ طے ہے کہ مصنف یونی لیٹرل طاقت نہیں رہا، عالمی کہانی میں کچھ کردار اپنا ثانوی رول فی البدیہہ بھی سٹیج کر سکتے ہیں بھلے وہ اتحاد سے باہر کے ہی کیوں نہ ہوں۔