معزز ڈکیتوں کا مہینہ : پاکستان میں آیا رمضان
(شازیہ نیئر)
ویسے تو سال کے بارہ ہی مہینے ہیں لیکن ان بارہ مہینوں میں ایک ماہ کو ہم نے ہی ماہ ڈکیتی بھی بنا دیا ہے۔ جی ہاں ماہ مقدس، رمضان کریم۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ کی رضا اور قربت کے لئے مسلمان نہ صرف روزہ رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی نماز پڑھنا شروع کر لیتے ہیں جو پورا سال کبھی باقاعدگی سے نماز قائم نہیں کر پاتے۔
غریبوں کا احساس، ایک دوسرے کے گھر میں افطاری بھیجنا اور غریب افراد کے لئے رمضان میں خصوصی حصہ رکھنا، سب اپنی اپنی توفیق کے مطابق نیکی کے کام میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔
انہی سب اللہ کے بندوں میں چند معزز ڈکیت بھی شامل ہیں جو پورا سال دن گن گن کر اس ماہ کا انتظار کرتے ہیں ۔ نہایت معذرت کے ساتھ کہ ماہ ڈکیتی کے لئے یہ سب معزز ڈکیت غریب عوام کی حق حلال کی کمائی پر سال بھر سے نظریں جمائے بیٹھے رہتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ ماہ ڈکیتی جلد آ جائے تاکہ اس غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جا سکے۔ یہ معزز ڈکیت آپ سب کو روزانہ ہی ملتے ہیں ۔ جی ہاں یہ معزز ڈکیت وہ منافع خور ہیں جو ماہ مقدس کی آمد سے قبل ہی اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو ایسے پر لگا دیتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
مارکیٹ میں پاؤں رکھو تو لگتا ہے کہ ہر دکاندار نے اپنا ہی باٹا ریٹ لگا رکھا ہے، اور قیمت ایسی کہ سننے پر گاہک کے کانوں سے دھواں نکلنے لگ جائے۔ ماہ ڈکیتی شروع ہونے سے قبل جو چیز سو روپے میں دستیاب ہوتی ہے وہ ایک رات میں ہی نہ جانے کیسے دو سو روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ بھائی کوئی بتائے ذرا کہ یہ کونسا جن ہے جو راتوں رات قیمتوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔ اور پھر ان معزز ڈکیتوں پر ہاتھ ڈالنے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ ماہ ڈکیتی میں تو لگتا ہے تمام معزز ڈکیت صرف یہ سوچ کر گھر سے نکلتے ہیں کہ اس ایک ماہ میں ہی عوام سے پورے سال کا حساب چکانا ہے۔
پھلوں کی قیمتوں کے حوالے سے حالیہ بائیکاٹ مہم سے شاید چند ڈکیتوں کو شرم آ گئی ہو اور انہوں نے اللہ کے حضور سر جھکا کر اپنے کئے کی معافی بھی مانگی ہو لیکن حالات کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہو پائے۔ اتوار بازاروں میں سرکاری نرخ کے باوجود بھی حالات قابو میں نہیں ہیں۔ کل ہی کی بات ہے ہماری ایک جاننے والی بازار سے پھل خریدنے گئی تو پرائس کنٹرول والے بھی موجود تھے جنھوں نے دکاندار کو حکم دیا کہ سرکاری نرخ کے مطابق پھل فروخت کرو۔
لیکن جیسے ہی پرائس کنٹرول والے آگے بڑھے پھل والے کا ریٹ بھی ان کے ساتھ ہی آگے بڑھ گیا۔ اب بتاؤ بھئی خریدار کیا کرے ۔ صرف پھل ہی نہیں ہر ڈکیت حسب توفیق ڈکیتی میں اپنا حصہ ضرور ڈالتا ہے۔ سبزی ،دالیں، روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کپڑے جوتے غرض ہر شے کو چڑیا کی مانند پر لگ جاتے ہیں اور وہ اڑ کرعام آدمی کی پہنچ سے کہیں دور جا بیٹھتی ہے۔
ماہ رمضان میں معزز ڈکیت نہ صرف روزہ رکھتے ہیں، نماز کی ادائیگی بر وقت کرتے ہیں بلکہ پوری تندہی کے ساتھ ڈکیتی مارنا بھی نہیں بھولتے گویا یہ بھی ان کے ایمان کا حصہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی اگر دیکھا جائے تو غیر مسلم ممالک میں اسکے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ چاہے کیسے ہی حالات ہوں یہ لوگ کرسمس، ایسٹر حتیٰ کہ مسلمانوں کے لئے عید اور رمضان کے دنوں میں بھی نہ صرف اشیائے خوردو نوش پر بلکہ دیگر اشیاء پر بھی خصوصی رعایت دیتے ہیں۔ اور اس بات کا احساس کرتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات سے وہ افراد بھی حقیقی خوشی حاصل کر سکتے ہیں جو پورا سال صرف اس ماہ کے لئے کچھ ریز گاری جمع کرتے ہیں تاکہ اہل خانہ اور بچوں کو اچھا کھلا سکیں اور اچھا پہنا سکیں۔
لیکن کیا کہیں میرے پیارے ملک پاکستان میں موجود معزز ڈکیت جو آڑھتی کے روپ میں بھی ہیں، اور فیکٹری مالک کے روپ میں بھی ، جو تاجر کے روپ میں بھی ہیں اور ایک عام دکاندار کے روپ میں بھی نہیں چاہتے کہ یہاں کا غریب آدمی شام کو اپنے روزہ دار اہل خانہ کے لئے کچھ خرید کر لے جا سکے۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو ان معزز ڈکیتوں کا ماہ ڈکیتی میں نقصان ہو جائے گا۔ حکومت کے کان پر تو جوں رینگے گی نہیں لیکن اب شاید عوام کو احساس ہو گیا ہے کہ ہم ان ڈکیتوں کو خود سبق سکھائیں۔
اگر پھلوں کے بائیکاٹ جیسی ایک دو مہم اور چلیں اور عوام نے ان کو کامیاب کر دیا تو یقینی طور پر آئندہ کو ئی معزز ڈکیت دوبارہ ماہ ڈکیتی کا انتظار نہیں کرے گا اور ڈکیتی سے ہمیشہ کے لئے توبہ کر لے گا۔