ایک فکری مثلث : تحریر ، محرر اور تخیل
از، معراج رعنا
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
چھتر پتی شاہو جی مہاراج یونیورسٹی
کانپور، بھارت
Language is not merely a sort of writing but possibility founded on the general possibility of writing.
Jacques Derrida, Of Grammatology Page. 54, 1976
دریدا کے یہاں زبان یا تحریر کے فلسفیانہ مخاطبے میں قدیم ہندی فلسفی بھرتر ہری کے اُس نکتے پر اتفاق موجود ہے جو تحریر کے امتازیات کے تعین میں اس کی داخلی اور خارجی حرکیات کو ناگزیر تسلیم کرتا ہے۔ زبان کی داخلی اور خارجی متغیرالمزاجی کے پیشِ نظر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تحریر اپنے آپ میں اتنی خود مختار نہیں ہوتی جتنی کہ وہ ہمیں نظر آتی ہے۔ تاہم تحریر کا ایک نفسیاتی نکتہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی نوعیت کی کیوں نہ ہو، ذات کا پرتو ہوتی ہے۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے تو اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کی جب تحریر ذات کا پرتو ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ خلقی صفت سے متصف ہوتی ہے۔
تحریر کی یہ صفت ادب تک تو ٹھیک ٹھاک معلوم ہوتی ہے۔ لیکن تحریر کی یہی صفت جب عمومیت کے دائرے میں آتی یا لائی جاتی ہے یہ اتفاقی کم اور اختلافی زیادہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ یعنی یہ کہ تحریرِ غیر خلقی سے حقائق کے معدوم الوجود ہونے کا نکتہ عام حالت میں کبھی بھی قابلِ قبول نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ مطلب یہ کہ سماجی علوم کو بیان کرنے والی تحریریں جب محرر یا مصنف یا بیان کنندہ کے تخیل سے ہم آہنگ ہو جائیں گی تو اس کے حقائق پر سوال کا اٹھنا لازمی ہوگا۔
یہ درست ہے کہ غیر خلقی تحریر تخیل سے آزاد ہوتی ہے۔ اور اُسے آزاد ہونا بھی چاہئیے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ واقعی تخیل سے آزاد ہوتی ہے؟ اس سوال کے جوابِ نفیہ میں متعدد دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اُن تمام دلیلوں سے اس سوال کی کلیت کو مسمار نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی یہ کہ کوئی ایسی دلیل بہم نہیں پہنچائی جا سکتی جو یہ ثابت کر دے کہ تحریرِ غیر خلقی تخیل سے کلی طور پر بے نیاز اور آزاد ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تحریرِ غیر خلقی اپنے اظہاری دورانیے میں تخیل کو اسی طرح بروئے کار لاتی ہے جس طرح تحریرِ خلقی لاتی ہے۔
یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک مورخ یا فلسفی کسی حقیقت کی دریافت کے عمل میں ذہنی طور پر مرتعش نہ ہو۔ وہ ذہنی طور پر مرتعش تو ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے ارتعاشات میں بے ترتیبی نہیں ہوتی کیوں کہ اسے ہمیشہ اس بات کا خیال رہتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو دریافت اور بیان کرنے پر مامور کیا گیا ہے جواس کی ذہنی کائنات میں کہیں نہ کہیں ٹھوس صورت میں مخفی ہے۔
اس مضمون پر بھی اپنے ذوق مطالعہ کی نظر کیجئے: تحریر کی آزادی کی مختصر تاریخ
غیر خلقی تحریر کے متعلق ایک عام فکر یہ بھی ہے کہ وہ صرف مخفی صورتوں کو نمایاں کرتی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ظہور کو مخفور اور مخفور کو ظہور میں لاتی ہے، اور اس کی اسی خوبی کی بنیاد پر اس کی عصبیت اور غیر عصبیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس ضمن کی ایک مثال ایلیٹ اور ڈوسن(Elliot and Dowson) کی کثیر الجلد کتاب The History of India ہے جو برطانوی نو آبادیاتی ذہن سے لکھی گئی اور ایک عرصے تک نو آبادیاتی ذہن سے پڑھی سمجھی اور سمجھائی گئی تھی۔ اس کتاب میں مذکورہ مصنفین کو ہند اسلامی بادشاہوں کی سیاسی اور مذہبی شخصیات میں بربریت، عدم مساوات اور ظلم و تشدد کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آیا۔
یہ سچائی ہے کہ اورنگ زیب (۱۷۰۷۔۱۶۱۸) کے دورِ اقتدار میں شعبۂ تاریح نویسی مقفل کر دیا گیا تھا۔ اورنگ زیب کا یہ قدم اچھا تو نہیں تھا لیکن یہ بھی اچھا نہیں ہے کہ محض اسی بنیاد پر انھیں عدوالعلم قرار دے دیا جائے۔ اس سلسلے میں دیکھنا اور دکھانا یہ بھی چاہئیے کہ تاریخ نویسی کی معطلی سے جو لاکھوں روپے بچے اُسے اورنگ زیب نے کس طرح عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ کیے۔ اس نوع کی کوئی بھی تحریر، چاہے وہ ڈوسن یا کسی بھی انتہا پسند مورخ کی کیوں نہ ہو اُسے تخیل سے مبرا قرار دینا اپنی معصومیت کو ثابت کرنا ہے۔
اسی نوع کی متعصب تحریریں اپنی تمام تر علمیت اور منطقیت کے باوجود ایک مخصوص گروہ کی ذہنی اور فکری تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ حقائقِ واقعی کو فسانہ بنانے کی شر انگیز قوت کی حامل ہوتی ہیں۔ تاریخی بیانیہ بھی ادبی بیانیے کی طرح ذو رخا ہوتا ہے۔ اور دونوں بیانیوں میں ذہنی ارتعاشات موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ تحریر کا مزاج کسی بھی رنگ کا کیوں نہ ہو، اس مزاج کا رنگ تحریر پر صاف منعکس ہوتا ہے۔
اگر کوئی مورخ اکبر (۱۶۰۵۔۱۵۴۲) کے عہد کو معرضِ تحریر میں لاتا ہے تو وہ کہیں نہ کہیں اس عہد میں نفسیاتی طور پر ضرور موجود ہوتا ہے، اور اس کے تاریخی بیانیے میں موافقت یا مخالفت کے عناصر پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جن کی نشاندہی اور تجزیے کے بعد آسانی کے ساتھ مصنف کی عصبیت اور غیر عصبیت طشت از بام کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح اگر کوئی ناول نگار کسی کردار کی کہانی بیان کرتا ہے تو وہ بھی اس کردار سے ذہنی اور نفسیاتی طور پر کسی نہ کسی طرح وابستہ ہوتا ہے۔ نذیر احمد (۱۹۱۲۔۱۸۳۱) کے ناول ابن الوقت سے نذیر احمد جھانکتے نظر آتے ہیں۔ لیکن جب یہ بات کہی یا لکھی جاتی ہے تو اس سے ایک بڑی گڑبڑ کے پیدا ہونے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے کہ جب ادبی اور غیر ادبی بیانیے ایک ہی خصلت کے ہوتے ہیں تو پھر دونوں میں تفریق ایں چہ معنی دارد۔
اس ضمن کی سیدھی سادی بات یہ ہے کہ غیر ادبی تحریر یا غیر ادبی بیانیہ متفشر العلومی اور ادبی تحریر یا ادبی بیانیہ متقلب العلومی نوعیت کا حامل ہوتا ہے۔ پہلا بیانیہ علم و آگہی کو علم و آگہی کے طور پر پیش کرتا ہے جب کہ دوسرا علم کے تاثر کو۔ فوجی مطالعات میں بندوق محافظت کا ذریعہ تسلیم کی جاتی ہے جب کہ اسی بندوق کا تاثر کامیو (۱۹۶۰۔۱۹۱۳) کے ناول Outsider کے کردار مارسو (Meursault) کوپھانسی کی اذیت ناکی کے کرب میں مبتلا کرتا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ڈوسن یا کوئی بھی مورخ اپنی تحریر میں متفشر العلوم کی حیثیت سے اور کامیو یا کوئی بھی ناول نگار اپنی تحریر میں متقلب العلوم کی حیثیت سے موجود ہوتا ہے۔ محرر کی یہی دو خوبیاں ان دونوں کے بیانیوں کے مابین خطِ تفریق کھینچتی ہیں۔