نو آبادیاتی نظام کے فوائد کی حقیقت
از، ششی تھرور
(انگریزی سے اردو میں ترجمہ: محمد عثمان)
عرضِ مترجّم: ششی تھرور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان اور دانشور ہیں جن کا پسندیدہ موضوع ہندوستان میں نوآبادیاتی دور کا مطالعہ ہے۔ چند سال پہلے اُن کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی تقریر بے حد مقبول ہوئی جس میں اُنہوں نے نو آبادیاتی قبضے کے دوران ہندوستان میں کئے گئے برطانوی مظالم اور استحصال کا ٹھوس دلائل کے ساتھ تعارف کروایا تھا۔
مخالفین گنگ تھے اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔ اسی سلسلے کی اگلی کڑی، حال ہی میں شائع ہونے والی اُن کی کتاب ”INGLORIOUS EMPIRE“ ہے، جس میں اُنہوں نے برطانوی نو آبادیاتی دور سے متعلق بہت سے جھوٹ، مفروضوں او ر خیالی کہانیوں کی حقیقت کا پردہ فاش کیا ہے جِن کے ذریعے ہندوستان اور پاکستان میں نو آبادیاتی دور کو مثالی بنا کر پیش کیا جاتا ہے، یہاں کے عوام کو اُن کے درخشاں ماضی سے کاٹا جاتا ہے اور اُن میں مایوسی، بے عملی اور مغرب سے مرعوبیت پیدا کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے خطے کے بہتر مستقبل کےلئے کسی بھی قسم کی اجتماعی جدوجہد سے دور رہیں۔
نو آبادیاتی دور کا مطالعہ اِس لئے بھی اہم ہے کہ اِس کے بغیر ہم اپنے موجودہ مسائل کا درست تناظر میں جائزہ لینے اور اُن کا حل نکالنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ یہ مضمون اِس کتاب میں پیش کئے گئے چند اہم مفروضوں کا احاطہ کرتا ہے۔
(نوٹ: مضمون میں جہاں بھی 1947ء سے پہلے کے تناظر میں ہندوستان کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے برعظیم کا پورا خطہ مراد لیا جائے جس میں آج کا بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کا کچھ حصہ شامل تھا۔ 1947ء کے بعد کےتناظر میں جہاں بھی ہندوستان کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد موجودہ بھارت ہے۔)
دورِ حاضر میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کے بہت سے عذر خُواہ اُس دور میں روا رکھے گئے استحصال، ہندوستانی وسائل پر قبضے اور لوٹ مارپر اعتراض نہیں کرتے کیونکہ اس سب کے شواہد اِتنے ٹھوس ہیں کہ اُنہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اِس کی بجائے اُن کا جوابی بیانیہ یہ ہوتا ہے کہ اگرچہ برطانیہ نے دو سو سال میں ہندوستان کو جتنا لوٹا جاسکتا تھا لوٹا، لیکن وہ جاتے جاتے ہندوستان میں بہت سے دیرپا فوائد اور ترقیات چھوڑ گئے جن میں سیاسی وحدانیت، جمہوریت، قانون کی حکمرانی، ریل کا نظام، انگریزی نظام تعلیم، یہاں تک کہ چائے اور کرکٹ جیسے دلچسپ مشاغل شامل ہیں۔ (آئیے ان مفروضوں کا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں۔)
اٹھارہویں صدی میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد ہندوستان باہم دست و گریباں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستان کو اپنے دور ِحکومت میں ایک ُمتحد ملک بنانے میں برطانوی راج کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے (یہ الگ بات ہے کہ اِسی برطانوی راج کی پالیسییوں کے نتیجے میں آج ہندوستان تین ممالک میں تقسیم ہوچکا ہے۔)
لیکن یہ دلیل تب کمزور پڑنے لگتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں ہمیشہ سےمتحد ہونے کی صلاحیت موجود رہی ہے۔ متحدہ ہندوستان کا تصور اِتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ قدیم ترین ہندو صحائف ”ویداس“ ہیں جن میں بھارتورشہ کے نام سے ایک ایسے علاقے کا ذکر ہے جو کہ ہمالیائی پہاڑی سلسلے اور سمندر کے درمیان واقع ہے۔
اِس خطے کی جُغرافیائی وحدت کا تصور نہ صرف ایک قدیم اور مقدس ہندو نظریہ ہے بلکہ ازمنہ وسطہ میں بھی اسے ایک اکائی کے طور پر ہی دیکھا جاتا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تحقیق کے مطابق یہ خطہ ہمیشہ سے اپنی ایک مخصوص تہذیبی شناخت رکھتا ہے۔ اِس لیے ہندوستانی مسلمان، چاہے وہ شمال مغربی علاقے کےپٹھان ہوں یا جنوب میں رہنے والے تامل، اہلِ عرب کے نزدیک ہِندی ہی کہلاتے تھے۔
تاریخ میں بہت سے حکمرانوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں کو باہم متحد کیا جن میں موریا (عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تین سو سال پہلے) اور مغل سلطنت (سولہویں سے سترہویں صدی) شامل ہیں جنہوں نے بر صغیر کے کم و بیش 90 فیصد علاقے پر حکمرانی کی۔
اگر برطانوی سامراج یہ ”فرض اور خدمت“ نہ ادا کرتا تو بھی غالب امکان تھا کہ اپنے پیشرو حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کوئی اور ہندوستانی حکمران یہ کام کرلیتا۔
ہندوستان کے اتحاد اور پارلیمانی جمہوریت کا سہرا برطانیہ کے سر باندھتے وقت اگر حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو ہم اِس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ برطانوی پالیسیاں ہی تھیں جِن کے نتیجے میں ہندوستان میں انگریز کی آمد سے پہلے قائم کئے گئے سیاسی ادارے تباہ ہوئے، نسلی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں اضافہ ہوا اور منظّم طریقے سے سیاسی امتیاز اور نفرتوں کو پیدا کیا گیا تاکہ برطانوی تسلّط کو قائم رکھا جاسکے۔
1757ء کے بعد برطانوی سامراج نے اپنی شاطرانوں چالوں کے ذریعے ہندوستانی شہزادوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی اور ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کے اصول پر بتدریج اپنے غلبے کو آگےبڑھایا۔
1857ء کی جنگِ آزادی میں ہندو اور مسلمان سپاہیوں کے مغل بادشاہ کی حمایت میں مشترکہ جدوجہد کرنے کے عمل نے برطانوی ایوانوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان پر تاج برطانیہ کی بلا شرکتِ غیرے حکومت برقرار رکھنے کا ایک ہی مؤثر طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا جائے۔
1859ء میں بمبئی کےبرطانوی گورنر لارڈ ایلفن سٹون نے سلطنت برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں پیغام بھیجا:
”رومن شہنشائیت کا طریقہ حکمرانی ‘تقسیم کرو اور حکومت کرو’ کے اصول پر مبنی تھا اور اِسی اصول کو ہمیں بھی اپنالینا چاہیے۔“
چونکہ برطانوی حکمران ایک ناہموار معاشرے سے تعلق رکھتے تھے جس میں طبقاتی تقسیم بہت گہری تھی، اس لئے فِطری طور پر اُن کی نظر ہندوستان میں بھی انہیں تضادات پر پڑی۔
برطانوی حکمرانوں اور اہلِ علم کی طرف سے ہندوستانی باشندوں کے بیچ موجود لسانی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور ذات پات کے اختلافات کو سمجھنے کے لئے اَن تھک کوششیں کی گئیں۔
اور پھر اِس سمجھ بوجھ کو ہندوستانی معاشرے میں اختلافات، تقسیم، نفرتوں اور لڑائی جھگڑوں کو مزید بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔
نوآبادیاتی حکمرانوں کی جانب سے متواتر ایسی رپورٹس لکھی گئیں اور مردم شماریاں کروائی گئیں جِن کے ذریعے ہندوستانیوں کے درمیان زبان، مذہب، فرقے، ذات پات، برادری، لہجوں اور جلد کی رنگت میں فرق کی بنیاد پر شناختوں کو پروان چڑھایا گیا۔
ان مصنوعی اور ثانوی اِختلافات کی بنیاد پر انسانوں نے لاشعوری طور پر اپنے آپ کو نت نئی گروہ بندیوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا حالانکہ اِس سے پہلے وہ آپس میں مل جل کر رہتے تھے اور دوسرے گروہوں کو بھی اپنے جیسا ہی سمجھا کرتے تھے۔
اسے بھی ملاحظہ کیجیے: داستان ہندوستان پر برطانیہ کے احسانات کی
خالِصتاً مذہبی بنیادوں پر ہندو مسلم تنازعات کا آغاز بھی برطانوی نو آبادیاتی نظام کےتحت ہوا۔ برطانوی اہل ِاقتدار نے مختلف نوعیت کے سماجی اور معاشی اختلافات اور تنازعات کو بھی مذہبی نقطہء نگاہ سے دیکھا کیونکہ نو آبادیاتی مستشرقین (مشرقی علوم کا مطالعہ کرنیوالے متعصب مغربی علماء) کے نزدیک ہندوستانی سماج میں ہر قسم کی تقسیم اور اختلافات کی واحد بنیاد مذہب تھا۔ (حقیقت میں زيادہ تر اختلافات کی نوعیت معاشی اور معاشرتی ہوتی ہے، انہیں مذہبی رنگ دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ مترجم)
یہ مفروضہ قابلِ پڑتال ہے کہ انیسویں صدی سے پہلے ہندوستان میں ہندو اور مسلمان مذہبی حوالوں سے اپنی الگ الگ شناخت رکھتے تھے (جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہندوستان میں بسنے والے تمام انسانوں کوعام طور پر ہندی یا ہندو کہاجاتا تھا۔)
ہندوؤں اور مسلمانوں میں مذہبی منافرت کی تشکیل اور اُس کی حوصلہ افزائی برطانوی نو آبادیاتی نظام کی طے کردہ حکمت عملی کی اہم ترین کامیابی تھی۔ ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کے منصوبے کی حتمی اور اعلیٰ ترین شکل 1947ء میں برطانوی اقتدار کے خاتمے کے موقع پر سامنے آئی۔
تقسیمِ ہند کے نتیجے میں دس لاکھ انسان قتل ہوئے (ہزاروں خواتین کی عصمت دری اور زخمی ہونے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے)، تقریباً ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو مجبوراً نقل مقانی کرنا پڑی (انسانی تاریخ میں اس سے بڑی نقل مکانی کی مثال موجود نہیں)،اربوں روپے کی تعمیرات تباہ کردی گئیں اور فرقہ وارانہ نفرتوں کے شعلےپہلے سے برباد شدہ خطے کے دونوں اَطراف کو جُھلسانے لگے (نفرتوں کا یہ سلسلہ تقسیم کے ستر برس بعد بھی جاری و ساری ہے۔)
ہندوستان میں برطانوی اقتدار کی ناکامی، بے حسی اور غیر ذمہ داری کی اِس سے بڑی مثال پیش کرنا ممکن نہیں ہے جِس کا مظاہرہ اُس نے اپنی اندوہناک رخصتی کے وقت مختلف واقعات کے دوران کیا۔ (یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ آزادی سے پہلے تک ہندوستان میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری برطانوی حکومت پر عائد ہوتی تھی۔
تقسیم کے وقت ہونے والی قتل و غارت کے مختلف واقعات میں برطانوی سرکار کی لاتعلقی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ برطانوی حکومت کو جب تک ہندوستان میں قیام کرنا تھا تب تک اُس نے خِطے پر اپنی گرفت کو سختی سے قائم رکھا اور ہر طرح کی مخالفت کو سختی سے کچل دیا۔ جلیانوالہ باغ کا واقعہ اِس کی واضح مثال ہے۔
لیکن جیسے ہی برطانیہ کو یہ احساس ہوا کہ اب وہ اِس خطے پر مزید اپنا تسلط برقرار نہيں رکھ سکتا، اس نے امن و امان برقرار رکھنے کی انتظامی ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتنا شروع کردی۔
فرقہ وارانہ فسادات کے موقع پر حکومتی خاموشی کا بالواسطہ مطلب یہی نکلتا ہے کہ جو کچھ ہورہا تھا وہ برطانوی حکومت کی سرپرستی یا کم از کم آمادگی کے تحت ہی ہورہا تھا ورنہ فسادات کو روکنے اور مجرموں کو سزادینے کی کوشش ضرور کی جاتی۔
(اِس ضمن میں موجودہ ہندوستان اور پاکستان کے تاریخ نویس اور دانشور آپس میں ایک دوسرے کو تو خوب برا بھلا کہتے ہیں، لیکن اِن تمام فسادات میں برطانوی کردار کو کمال مہارت سے فراموش کرجاتے ہیں۔ مترجم )
اِسی طرح یہ دعویٰ بھی مبنی بَرحقیقت نہیں ہے کہ اپنے استعماری اقتدار کے دوران برطانیہ نے جمہوری اداروں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔
دیہی سطح سے لے کر بالائی اداروں تک خودمختار حکومتی ڈھانچے کی تعمیر کی بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلے سے بنے حکومتی ڈھانچے کو بھی تباہ و برباد کردیا۔
تمام حکومتی و انتظامی امور، ٹیکس جمع کرنے اور انصاف فراہم کرنے کی دعویدار عدالتوں پر مقامی باشندوں کی بجائے برطانوی شہری براجمان تھے۔
اِن تمام ریاستی اُمور سے ہندوستانیوں کو بے دخل کردیا گیا تھا۔ اگلے مرحلے میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاج برطانیہ نے ہندوستان پر اپنا براہ راست اقتدار قائم کیا تو اُس نے رَتّی برابر حکومتی اختیارات ہی زیریں سطح پر غیر منتخب شدہ صوبائی اور مرکزی ”قانون ساز“ مجلسوں کو منتقل کرديے۔
ان کونسلوں کے ممبران کا تعلق ہندوستانی اَشرافیہ کی تعلیم یافتہ پَرت سے تھا جن کا عوام کے سامنے جوابدہ ہونے کا کوئی تصور اور امکان موجود نہ تھا۔ یہ کونسلیں عوام کے حقوق سے متعلق کسی بھی قسم کی بامقصد قانون سازی کرنے میں ناکام رہیں او ر نہ ہی انہیں کوئی حقیقی اختیارات حاصل تھے۔
ان کے ممبران صرف اِسی بات پر مطمئن اور شاداں رہتے تھے کہ برطانوی حکومت نے انہیں مشاورت کے قابل سمجھا، (جس سے عوام میں اُن کی دھاک بیٹھ جاتی تھی۔) اُنہیں اِس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اُن کے مشوروں پر عملدرآمد ہوتا ہے یا نہیں۔
1920ء کی دہائی میں ہونے والی منٹیگو چیمز فورڈ ”اصلاحات“ کے نفاذ تک مذکورہ بالا کونسلوں میں ہندوستانی نمائندوں کا انتخاب اِتنے محدود دائرے سے کیا جاتا تھا کہ ہر ڈھائی سو ہندوستانی افراد میں سے صرف ایک کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا۔
اِن ”منتخب شدہ“ کونسلوں کو صحت اور تعلیم جیسے (برطانوی حکومت کے نزدیک غیر اہم) شعبوں میں اختیارات حاصل تھے جبکہ صوبائی سطح پر حقیقی اختیارات مثلاً ٹیکسوں کا نظام، امن و امان کاقیام اور ہندوستانی قانون سازوں کے تشکیل کردہ کسی بھی قانون کو مسترد کرنے کی اتھارٹی جیسے اہم امور برطانوی گورنروں کو ہی حاصل تھے۔
بالفاظ دیگر،ہندوستانی قوم پرستوں کو جمہوریت پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی بلکہ اُنہیں اِسے برطانوی پنجہ استبداد سے چھیننا پڑا۔ اِسے خوفناک (اور بیہودہ) دروغ گوئی ہی کہا جاسکتا ہے کہ آپ کسی قوم کے لوگوں پردو سو سال تک ظلم و ستم، تشدد، قید و بند، غلامی، جلاوطنی اور جبر روا رکھیں اور پھر اس بات کا کریڈٹ بھی لیں کہ آپ ہی کی پالیسیوں کے نتیجے میں اس قوم میں جمہوریت فروغ پذیر ہوئی۔
برطانوی استعمار کا ہندوستان میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا دعویٰ بھی اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا کہ یہ کہنا کہ برطانیہ نے ہندوستان کو سیاسی وحدت اور جمہوریت جیسی برکات سے نوازا۔
یہ خودساختہ مفروضہ درحقیقت برطانوی استعمار کا اپنے تَسلّط کو جواز بخشنے کا ایک مرکزی بہانہ تھا۔ مشہور برطانوی شاعر رڈیارڈ کپلنگ، جو کہ وکٹورین دور کے استعمار کا پرجوش وکیل تھا،نےتاج برطانیہ کی قانون کی اہمیت سے ناواقف اقوام (ہندوستان،افریقہ وغیرہ) کو قانون سے روشناس کروانے کی”عظیم خدمت“ کا زور و شور سے ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ بات کہتے وقت اس حقیقت کو نظر انداز کردیا جاتا ہےکہ برطانوی قانون جس ہندوستانی قوم پر مسلط کیا گیا وہ خود اپنے قانونی ڈھانچے سمیت ایک انتہائی جاندار تہذیب کی حامل تھی اور برطانیہ کواپنا اقتدار اور قانون نافذ کرتے وقت زور زبردستی اور جبر کا استعمال کرنا پڑا۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نو آبادیاتی دور میں قانون کی حکمرانی بھی مساواتِ انسانی کے تصور پرقائم نہیں تھی۔ گوروں (برطانوی باشندوں) کو ہندوستانیوں کے خلاف کیے گئے جرائم پر انتہائی معمولی سزائیں ملتی تھیں؛ مثلاً ایک برطانوی کو اپنے ہندوستانی ملازم کو پستول سے قتل کرنے کے جرم میں چھ ماہ قید اور تقریباً سو روپے (اس زمانے کے حساب سے)جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ اس کے مقابلے میں ایک ہندوستانی کوانگریز خاتون سے زیادتی کی کوشش کرنے کے جرم میں 20 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔
برطانوی اقتدار کی دو صدیوں کے دوران صرف تین برطانوی شہریوں کو ہندوستانی افراد کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی جبکہ ہزاروں ہندوستانیوں کے قتل کیے جانے کے مختلف واقعات میں کسی بھی برطانوی کو سزا سنائی نہ جاسکی۔
برطانوی شہریوں کے ہاتھوں ہندوستانیوں کی ہلاکت ہمیشہ ایک ”حادثہ“ ہوتی تھی جبکہ کسی بھی برطانوی کی ہندوستانیوں کے ہاتھوں موت ناقابل معافی اور بدلے میں قتل کیے جانے کے لائق سمجھی جاتی تھی (چاہے یہ ہلاکت واقعی کسی لاعلمی یا حادثے کی وجہ سے ہوئی ہو)۔
جب ایک ہندوستانی خادم کی موت اس کے برطانوی آقا کے اس کے پیٹ میں لات مارنے اور نتیجتاً انتڑیوں کے پھٹ جانے کی وجہ سے واقع ہوئی تو اس کی موت کا ذمہ دار ملیریا کی وجہ سے اس کی بڑھی ہوئی انتڑیوں کو قرار دیا گیا۔
پنچ میگزین نے قابل اعتماد برطانوی بوٹ (جس کے ذریعے محکوم اقوام کو ٹُھّڈے مارے جاسکیں) کی تعریف میں پوری ایک نظم شائع کی جس میں انگریزی بوٹوں کا، مقامی آبادی کو اپنی اوقات میں رکھنے کے ایک انتہائی کارگر آلے کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
سیاسی معاملات میں اِختلاف رائے اور حُقوق کے مطالبے کو مختلف قوانین کے نفاذ کے ذریعے سختی سے کچلا گیا۔ ہندوستان میں نافذ کیا جانا والا قانونِ بغاوت اُسی دور میں برطانیہ میں نافذ کئے جانے والے قانون سے کئی درجہ زیادہ سخت تھا۔ ہندوستان میں نافذ پینل کوڈ (سزاؤں کی لسٹ) میں ریاست سے اختلاف کرنے سے متعلق 49 آرٹیکل درج تھے جبکہ اموات اور قتل کےجرائم سے متعلق صرف 11 آرٹیکل موجود تھے (گویا حکومت سے اختلاف کرنا لوگوں کی جان لینے سے بھی زیادہ سنگین جرم تھا۔)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ برطانوی اقتدار نے ہندوستان کو انگریزی زبان سے روشناس کروایا جس کے فوائد (اورشاید نقصانات بھی) ہم آج تک سمیٹ رہے ہیں۔ تاج برطانیہ کی طرف سے ہندوستان میں انگریزی زبان کے فروغ کے پیچھے اِس خطے کی خیرخواہی کی کوئی سوچ نہیں تھی۔
انگریزی زبان کو بھی نو آبادیاتی غلبے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ہندوستانیوں کو یہ زبان سکھا کر برطانوی مفادات کے حصول کی راہ ہموار کی گئی۔
1835ء میں کیے گئے اپنے مشہور خطاب میں لارڈ میکالے نے (پوری قوم کی بجائے) ہندوستانیوں کی ایک محدود اقلیت کو انگریزی زبان سکھانے کی وجہ درج ذیل الفاظ میں بیان کی:
”ہمیں اپنی بھرپور کوششیں اور صلاحیتیں اس بات کے لئے صَرف کرنی چاہئیں کہ ہم ہندوستان میں ایک ایسی کلاس (یا طبقے) کو پیدا کریں جو ہمارے اور ہمارے زیرنگیں کروڑوں ہندوستانیوں کے بیچ مترجّم کی ذمہ داریاں نباہ سکے۔ یہ کلاس (یا طبقہ ) ایسے افراد پر مشتمل ہوجو کہ رنگت اور جسمانی خدوخال میں ہندوستانی ہوں، لیکن مزاج، پسند ناپسند، نظریات، اخلاقیات اور عقل و دانش کے استعمال میں برطانوی باشندوں جیسے ہوں۔“
(آج بھی یہ طبقہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کی شکل میں خطے کے ممالک میں عوام کے سروں پر سوار ہے۔مترجم)
زبان کو سکھانے کا واحد مقصد حکمرانوں اور محکوموں کے درمیان واسطے اور رابطے کا کردار ادا کرنا تھا۔ برطانوی حکومت کو ہندوستانی عوام کو تعلیم یافتہ بنانے میں کوئی دلچسپی نہ تھی اور نہ ہی وہ اس مقصد کے حصول کے لئے مطلوبہ بجٹ مہیا کرنے کو تیار تھے۔
اس مضمون کو بھی ملاحظہ کیجیے: برصغیر کے لوگ انگریزی زبان کیوں پڑھیں، از لارڈ میکالے
ہندوستانیوں کا انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنا، اُسے اپنی آزادی کے حصول کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اور اُسے برطانوی ظلم وجبر کے خلا ف اپنے قومی جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنانا، اِس کا کریڈٹ خود اِن ہندوستانیوں کو دیا جانا چاہیے نا کہ برطانوی پالیسیوں کو۔
ہندوستان میں ریلوے نظام کی تعمیر کو برطانوی نو آبادیاتی نظام کے وکلاء اور خیر خواہوں کی طرف سے ایک ایسے عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کے ذریعے ہندوستان کو بے انتہا فائدہ پہنچا۔ یہ لوگ اس سادہ حقیقت کو کمال مہارت (لاعلمی یا بددیانتی) سے نظر انداز کردیتے ہیں کہ بہت سے دیگر ممالک نے بھی ریلوے نظام کو تعمیر کیا لیکن اس کے لیے اُنہیں نو آبادیاتی نظام کی تکالیف اور لوٹ مار کے عمل سے گزرنا نہیں پڑا۔ ریلوے کے ضمن میں حقائق توقعات سے زيادہ تلخ ہیں۔
ریلوے کا نظام تعمیر کرنے کا خیال سب سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذہن میں آیا اور ظاہر ہے کہ دیگر تمام معاملات کی طرح یہاں بھی اصل ہدف کمپنی کو فائدہ پہنچانا تھا۔
1843ء میں گورنر جنرل لارڈ ہارڈینگ نے ریلوے کے فوائد بیان کرتے ہوئے دلائل ديے کہ اس کے ذریعے ہمیں ملک(ہندوستان) میں تجارت، حکومتی معاملات اور فوجی کنٹرول بڑھانے میں مدد ملے گی۔ اپنے آغاز سے لے کر تکمیل تک، ہندوستانی ریلوے نو آبادیاتی دور کی دھوکہ دہی، کرپشن اور لوٹ مار کی ایک بدترین مثال تھی۔ برطانوی کمپنیوں کے حصہ داروں نے ریلوے میں سرمایہ کاری کرکے ناقابل یقین حد تک دولت کمائی جہاں حکومت نے عام سرکاری شرح سے دوگنا شرح پر انہیں منافع دیا۔
یاد رہے کہ یہ دوگنا منافع ہندوستانی ٹیکس دہندگان کی ہر دم سکڑتی جیبوں سے برطانوی سرمایہ کاروں کی تجوریوں میں منتقل کیا گیا۔ (یعنی ریلوے کی تعمیر کے ذریعے برطانوی حکمرانوں اور طبقہ اشرافیہ نے بہتی گنگا مین خوب ہاتھ دھوئے اور لامحدود منافع بٹورا۔
(آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں حکمران طبقات کیشن اور کالے دھن کی کمائی کے لئے اس طرح کے پراجیکٹس میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں اور عوام کے لئے بنیادی ضروریات کی فراہمی میں مجرمانہ غفلت برتتے ہیں۔مترجم)
ریلوے نظام کا بنیادی مقصد خام مال اور معدنی وسائل مثلاً کوئلہ، لوہا، کپاس وغیرہ کو برطانوی فیکٹریوں تک بآسانی اور تیز رفتار طریقے سے پہنچانا تھا (تاکہ اِس سستے خام مال سے مہنگی اشیاء تیار کرکے ہندوستانی بازاروں میں بیچی جاسکیں)۔ ریلوے کے ذریعے افراد کی نقل و حمل میں آسانی کا پیدا ہونا محض ایک حادثہ (یا ضمنی نتیجہ) تھا جس کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ اس کے ذریعے نو آبادیاتی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔
عوام کے سفر کے لیے لکڑی سے بنے تیسرے درجے کے جو ڈبے فراہم کئے گئے وہ کسی بھی قسم کی سہولتوں سے یکسر بے بہرہ تھے جن میں ہندوستانیوں کو جانوروں کی طرح بھرا اور ہانکا جاتا تھا۔ غیر معیاری سفری سہولیات کی فراہمی پر اس دور میں بھی شدید تنقید کی گئی۔
دیگر تمام شعبہ ہائے حیات کی طرح یہاں بھی نسل پرستی کا غلبہ تھا۔ اگرچہ” صرف گوروں کے لیے“ والے ڈبے ناقابل برداشت اخراجات کی وجہ سے بند کرديے گئے، لیکن اس کے باوجود ہندوستانیوں کے لئے سستے داموں میسر ڈبوں اور سہولتوں کی شدید کمی رہی۔
(آزادی کے بعد شائع ہونے والےایک کارٹون میں اس صورتحال کی شاندار منظر کشی کی گئی ہے۔ تصویر میں ایک گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ٹرین دکھائی گئی ہے، تیسرے درجے کے ڈبے انسانوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں، جن کو جگہ نہ ملی وہ خطرات کو مول لے کر کھڑکیوں اور دروازے سے لٹکے ہوئے ہیں یا ٹرین کی چھت پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس اول درجے کے ڈبے میں دو انگریز سولہ ٹوپیاں(ایک خاص قسم کی ٹوپی جو نو آبادیاتی دور میں انگریز پہنا کرتے تھے) پہنے ایک دوسرے سے گفتگو کررہے ہیں، ”میرے عزیز دوست! لگتا ہے کہ ٹرین میں ہمارے علاوہ کوئی بھی سوار نہیں ہے۔“ “My dear chap, there’s nobody on this train!”)
مزید یہ کہ ہندوستانیوں کو ریلوے میں نوکریاں بھی نہیں دی جاتی تھیں۔ اُس زمانے میں برطانوی ارباب اختیار کی متفقہ رائے یہ تھی کہ ”سرمایہ کاری کے تحفظ“ کے لیے ریلوے میں صرف یورپی النسل افراد کو بھرتی کیا جائے۔ خاص طور پر سگنل پر تعینات ملازموں اوربھاپ سے چلنے والے انجنوں کی مرمت اور استعمال کے لیے اس اصول کو سختی سے لاگو کیا گیا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں یہ نسل پرستانہ پالیسی اِس حد تک بری صورت اختیار کر چکی تھی کہ ریلوے بورڈ کے ڈائریکٹرز سے لے کر ٹکٹ چیک کرنے والوں تک تمام عہدوں پر گورے افراد تعینات تھے۔ ان گورے ملازموں کو ہندوستان کے بجائے یورپی معیارات کے مطابق تنخواہیں اور سہولیات دی جاتی تھیں جس کا تمام تر بوجھ ہندوستانی عوام پر پڑتا تھا۔ مزید یہ کہ ان مالی فوائد اور سہولیات کا بڑا حصہ واپس برطانیہ منتقل ہوجاتا تھا۔
نسل پرستی اور برطانوی معاشی مفادات کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ریلوے کی کارکردگی اور کفایت شعاری بھی شدیدمتاثر ہوئی۔ 1862ء میں بنگال کے شہر جمال پور اور راجپوتانہ کے شہر اجمیر میں ٹرینوں کی مرمت کے لیے ورکشاپس قائم کی گئیں۔ ان ورکشاپس کے ہندوستانی مکینک اپنے کام کے اتنے ماہر ہوگئے کہ وہ اپنے انجن خود ڈیزائن اور تیار کرنے لگے۔ ان کی کامیابی نے برطانوی پالیسی سازوں کو خبردار کردیا کیوں کہ ہندوستانی انجن کارکردگی میں برطانوی انجنوں جتنے ہی مؤثر تھے جبکہ ان کی پیداواری لاگت کئی گنا کم تھی۔
چنانچہ، 1912ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک خصوصی قانون منظور کیا جس کے زریعے انڈین ورکشاپس میں انجن ڈیزائن اور تیار کرنےپر پابندی لگا دی گئی۔
ہندوستانی معیشت کو اس ظالمانہ پالیسی سے کتنا نقصان پہنچا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1854ء سے لے کر 1947ء کے درمیانی عرصے میں، ہندوستان نے برطانیہ سے 14،400 انجن درآمد کیے۔ اس کے علاوہ تقریباً 3،000 انجن کینیڈا، امریکا اور جرمنی سے برآمد کیے گئے، لیکن 1912ء میں درج بالا قانون پاس ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں ایک بھی انجن تیار نہ کیا جاسکا۔
آزادی کے 35برس بعد، انجن بنانے کا قدیم تکنیکی علم اور مہارت مکمل طو ر پر ضائع ہوچکے تھے اور مجبوراً ہندوستانی ریلوے کو برطانیہ کے سامنے مؤدبانہ درخواست کرنی پڑی کہ وہ اسے انجن بنانے کی فیکٹری قائم کرنے میں راہنمائی فراہم کرے۔
اس قصے کا آخری حصہ انتہائی دلچسپ ہے۔ آزادی کے 70 برس بعد ہندوستانی ریلوے (اس سے مراد انڈین ریلویز ہے، پاکستان کا ریلوے نظام تو انگریز دور سے بھی زیادہ بری حالت کا شکار ہے اور ریلوے ٹریک بتدریج کم ہوا ہے۔ مترجم) نے اتنی ترقی حاصل کرلی ہے کہ برطانوی ریلوے کو تکنیکی مشاورت فراہم کرنے والی کمپنی رینڈل (RENDEL) ہندوستان کی تکنیکی مہارتوں پر انحصار کرتی ہے۔ اِس کمپنی کا مرکزی دفتر لندن میں واقع ہے اور یہ تکنیکی معاونت اُسے ہندوستانی ریلوے کا ایک ذیلی ادارہ فراہم کررہا ہے۔
ہندوستان میں نو آبادیاتی نظام کے نتیجے میں معاشی استحصال اور بربادی کروڑوں لوگوں کامقدر بنی، رواں دواں صنعتیں تباہ کردی گئیں، مساویانہ بنیادوں پر مقابلے کی منظم انداز میں حوصلہ شکنی کی گئی، حکومت اور انتظامی امور چلانے کے مقامی اداروں کا خاتمہ کردیا گیا، ہزاروں سال سے پھلتی پھولتی تہذیب، رسم و رواج اور رہن سہن کو انتہائی بھونڈے انداز میں بالجبر بدل دیا گیا اور سب سے بڑا ظلم محکوم لوگوں کے ساتھ یہ کیا گیا کہ انہیں ان کی شناخت، عزت نفس اور خود داری سے محروم کردیاگیا۔
1600ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی گئی تو برطانیہ کا عالمی پیداوار میں حصہ صرف 1.8 فی صد تھا جبکہ اسی دور میں ہندوستان کا حصہ 23 فی صد (سترہویں صدی میں 27 فی صد) تھا۔ 1940ء کی دہائی تک، ہندوستان پر برطانوی قبضے کے تقریباً دو سو سال بعد، برطانیہ کا عالمی پیداوار میں حصہ 10 فی صد ہوچکا تھا جبکہ ہندوستان کو تیسری دنیا کے ایک غریب اور بدحال ملک میں تبدیل کیا جاچکا تھا۔ بھلے وقتوں میں وافر مقدار میں غلہ اور اناج پیدا کرنے والے اس خطے کی غربت اور قحط سالی کی مثالیں پوری دنیا میں دی جانے لگیں۔
برطانوی استعمار ہندوستانی معاشرے (جسے انگریز کی آمد سے پہلے اپنی معاشی خوشحالی کی بنیاد پر سونے کی چڑیا کہا جاتھا) کو اس حال میں چھوڑ کر گیا کہ یہاں کی مقامی صنعت تباہ وبرباد، تعلیمی شرح صرف 16 فی صد، اوسط عمر 27 سال اور 90 فی صد سے زائد آبادی خط ِغربت کے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔
برطانیہ جس ہندوستان میں داخل ہوا تھا وہ ایک خوشحال، ترقی پذیر اور تجارتی معاشرہ تھا: انہیں خصوصیات کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی اس خطےمیں کام کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔
انگریز سے پہلے کے ہندوستان کے بارے میں عام تاثر ایک پسماندہ اور غیر صنعتی خطے کا ہے جب کہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔ نوآبادیاتی دور سے پہلے کا ہندوستان بہترین معیار کی صنعتی اشیاء پیدا کرتا تھا جن کی برطانیہ کے اعلیٰ طبقات میں بہت مانگ تھی۔
برطانوی اشرافیہ ہندوستانی ململ اور ریشم سے بنے لباس بڑے فخر سے زیب تن کرتی تھی، اپنے گھروں کو ہندوستان کے بنے پردوں اور قالینوں سے سجاتی تھی اور کھانوں میں ہندوستانی ذائقوں اورمصالحوں کی انتہائی گرویدہ تھی۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں برطانوی دوکاندار گھٹیا درجے کے برطانوی کپڑے کو ہندوستانی ظاہر کر کے بیچنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ وہ زیادہ دام وصول کرسکیں۔
ہندوستان کی کہانی، اپنی ہزاروں سال کی تہذیبی تاریخ کے مختلف ادوار میں شاندار تعلیمی اداروں، جدید ترین سہولیات سے مزین شہروں، ایجادات، عالمی معیار کی پیداواری صنعتوں اور بے مثال خوشحالی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جو کہ ہندوستان ميں جدید ترقیات کے روشن امکانات کی نشاندہی کرتی ہے۔
اگر برطانیہ دو سو سال تک ہندوستان کے وسائل نہ لوٹتا تو عین ممکن تھا کہ آج ہندوستان (موجودہ انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان) ایک جدید، ترقی یافتہ اور خوشحال خطہ بن چکا ہوتا۔
اگرچہ برطانوی استعمار کی طرف سے اپنے مفادات کے حصول کے لئے تعمیر کیے گئے اداروں کے فوائد ہندوستانی معاشرے کو بھی پہنچے، لیکن یہ فوائد غیر ارادی اور ثانوی نوعیت کے تھے۔ آج ریلوے کا نظام ہندوستانی معاشرے (موجودہ انڈیا )ميں انتہا درجہ کی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
ہندوستانی حکام نے برطانوی پالیسیوں کا رخ تبدیل کردیا ہے۔ اصل اہمیت عوام کو سفری سہولیات فراہم کرنے کو دی جارہی ہے۔ مال بردار گاڑیوں کے کرائے زیادہ رکھے گئے ہیں تاکہ عوام کو ترجیحی بنیادوں پر کم قیمت سفری سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ (برطانیہ کی پالیسی اس کے بالکل الٹ تھی: سفری کرائے مہنگے رکھ کر مال بردار گاڑیوں کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔)
اس حقیقت پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ برطانوی معاشرہ اپنی تاریخ اور ہندوستان میں لوٹ مار پر مبنی حکومت سے متعلق شرمناک حد تک لاعلم ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے برطانوی شہنشائیت کی عظمت کی کہانیاں مقبول ہورہی ہیں جسے ممتاز عالم پال گیلروئے نے ”ماضی سے متعلق جدید نوآبادیاتی اداسی“ کا عنوان دیا ہے۔
2014ء میں ہونے والے ایک سروے میں 59 فی صد افراد نے برطانوی سلطنت کو اپنے لیے باعثِ فخر قرار دیا، صرف 19 فی صد نے اِس کے برے اعمال کی وجہ سے اِس پر شرمندگی کا اظہار کیا۔
اس ساری گفتگو کا مقصد آج کے دور میں ہندوستان اور برطانیہ کے باہمی تعلقات کو خراب کرنانہیں ہے۔ ویسے بھی آج کےتعلقات، سامراجی آقا اور مجبور غلاموں کی بجائے، دو خودمختار اور برابر کی اقوام کے درمیان قائم ہیں۔
حال ہی میں برطانوی وزیر اعظم تھریسا مئے نے ہندوستان کا دورہ کیا اور امید ظاہر کی کہ بریگزٹ (برطانیہ کا یورپی یونین سے الگ ہوجانا) کے بعد ہندوستان برطانوی معیشت کو سہارا دینے کے لئے وہاں سرمایہ کاری کرے گا۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ آپ کو تاریخی امور میں بدلہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تاریخ اپنا انتقام خود ہوتی ہے۔
بشکریہ: دی گارڈین
اصل مضمون کا لنک یہاں ہے