کرپٹ کٹھ پتلے نچانے والے اللہ کے ولی
(فاروق احمد)
’کرپٹ کٹھ پتلے نچانے والے اللہ کے ولی ۔۔۔’ یہ کیسی جمہوریت ہے ، ایسا ہوتا ہے جمہوریت میں‘‘ کی ہرزہ سرائی سے پہلے اپنے ذہن سے پوچھ لو کہ جمہوریت پر دل مائل ہے یا نہیں، جمہوریت پر ایمان ہے یا نہیں۔
اگر نہیں ہے تو پھر رونا کیسا ۔ تمہارے تو بھاگ کھل گئے کہ جمہوریت اپنے کرتوتوں تلے دب کر اپنی موت آپ ہی مر جائے گی۔ اور اگر جمہوریت پر ایمان ہے تو پھر یقیناً جمہوریت کو کٹھ پتلی تماشے کی طرح چلانے والوں سے ہمدردی نہ رہی ہوگی۔ یہ بہرطور ناممکن ہے کہ جمہوریت پر بھی اعتماد ہو اور اسٹیبلشمنٹ پر بھی جو جمہوری نظام کو ریموٹ کنٹرول سے چلائے۔
حقیقی اور آزاد جمہوریت کی خواہش رکھنے والا جمہوریت پر اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول گوارا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ابھی اور اسی وقت یہ اپنے ذہن میں واضح کر لو کہ اگر باغی مہرے کے خلاف ہو لیکن اگر مہرے نچانے والوں کے حمایتی ہوں اور اگرتمہارا وزن باغی مہرے کے پلڑے میں نہیں بلکہ مہرے نچانے والے کے پلڑے میں ہے تو تم جمہوریت کے خیر خواہ نہیں بلکہ بدترین دشمن ہو۔
یعنی خود سے جھوٹ بولنا چھوڑو اور کھل کر جمہوریت کی مخالفت کرو ۔۔۔ پھر نہ خود کسی جمہوری ملک میں ہمک ہمک کر وہاں کی جمہوریت کے ثمرات سمیٹنے کیلئے لپکیاں مارو اور نہ اپنی آل اولاد کو جمہوریت کے عیش اٹھانے دو۔ سمجھ میں آئی بات۔ ویسے مشکل ہی ہے۔ جمہوریت دشمن ذرا موٹی عقل کے ہی ہوتے ہیں۔
ارے بھائی عقل کے ناخن لو۔ کارندے اور مہرے اگر کرپٹ ہیں تو ان کے کرتا دھرتا کیونکر وطن کےسپاہی ہوئے۔ اتنا کھیل تو بچوں کی جاسوسی کہانیوں میں بھی سمجھ آ جاتا ہے کہ جب کوئی کارندہ برگشتہ ہو جائے تو اسے کس طرح حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کٹھ پتلی کرپٹ ہو اور اسے نچانے والا اللہ کا ولی۔ یہ کہاں کی لاجک ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور کٹھ پتلی نچانے والے تو دل کے قریب اور ان سے دور جاتے مہرے قابلِ گردن زدنی۔
پاکستان کی سیاست میں دو قسم کے نوسیاستیے پائے جاتے ہیں۔ لیڈر اور فالوور۔ نو سیاستیے بھی نو دولتیوں جیسے ہوتے ہیں۔ بڑبڑیے، بڑھک باز، پرانے دولتمندوں پر آوازیں کسنے اور کسی کی عزت کی پروا نہ کرنے والے، دکھاوے باز، منہ پھٹ، بدزبان، شدید درجے کے احساس برتری (احساس کمتری کی بدترین قسم) میں مبتلا۔
جس طرح نو دولتیے اپنی اچلی چھچھوری حرکتوں اور ہلکے پن کے سبب فوراً پہچان لیے جاتے ہیں اسی طرح نو سیاستیے لیڈر بھی با آسانی قابل شناخت ہوتے ہیں۔ نو دولتیے وہ ہوتے ہیں جو راتوں رات امیر ہو جاتے ہیں، اسی طرح نو سیاستیے لیڈڑ بھی اچانک سیاست کے میدان میں کسی ’’جیک پاٹ‘‘ کے ذریعے راتوں رات کھمبے کی چوٹی پر جا بیٹھتے ہیں۔
نو دولتیوں اور نو سیاستیوں میں ایک اور قدر بھی مشترک ہوتی ہے اور وہ یہ کہ دونوں اس بندر جیسا مزاج رکھتے ہیں جو ہلدی کی گانٹھ مل جانے پرخود کو پنساری سمجھ بیٹھتا ہے۔ یا نہیں تو استرا ہاتھ لگ جانے پر خود کو ہی زخمی کر ڈالتا ہے۔ نودولتیئے یا نئے نویلے دولتمند بھی دلہن کی طرح وقت کے ساتھ پرانے ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کی دولتمندی تیس چالیس برسوں کا سفر طے کر کے تیسری نسل تک پہنچ جائے تو یہ تیسری نسل کا ذہنی بدہیئت پن مقابلتاً کم ہوتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ایک ارتقائی عمل کے ذریعے دولتمندی اور امارت حاصل کرنے والے عام طور پر بردبار اور دھیمے مزاج پا لیتے ہیں۔ یعنی یہ وہی بات ہوئی کہ ’’جو خاندانی رعیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا، تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے۔‘‘
عین بعین یہی صورت ان نو سیاستیوں کی ہوتی ہے جو وقت کی چکی میں پس کر زیرک سیاستدان بن جاتے ہیں یعنی ان میں سیاسی اور ذہنی بالیدگی پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ شریف برادران ۔ بھٹو کو تو خیر اتنا وقت ہی نہ ملا لیکن جو نواز نے بیس برسوں میں سیکھا وہ بھٹو اپنی آرسٹوکریٹک تربیت کے سبب پانچ برسوں میں ہی سیکھ گیا۔
عمران کو البتہ اپنے نو سیاستیے پن کے اثرات سے چھٹکارا پانے کیلئے شریفوں کی طرح بیس برس کا بن باس چاہیئے جسے پانے کیلئے اسے چوراسی کی عمر حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ خیر سے ہمارے ہاں تو اللہ بخشے سیاسی ارتقائی عمل کا رواج ہی نہیں رہا۔ قبل از تقسیم ہند کے چند سیاستدانوں بشمول مجیب الرحمان کے علاوہ ہمارے ہاں صرف نو ساستیے ہی پائے گئے۔ پائے کیا گئے یوں کہیے بنائے گئے۔
تین فوجی آمروں نے تین نامور سیاستدان پال پوس کر بڑے کیے ۔ بھٹو ، نواز ، عمران ۔ ان تینوں میں ایک خصلت مشترک رہی۔ تینوں ہی سیاسی پراسس سے نہیں آئے تھے، تینوں ہی فوجی نرسریوں کے بوزنے تھے ، تینوں ہی اپنے اپنے دور میں جاری سیاسی رجحانات کو ڈی فیوز کرنے یا ان کی باگیں اور کمان فوجی کمانداروں کے ہاتھ میں دینے کی غرض سے اتارے گئے تھے۔
اور ہاں ایک قدر اور ان تینوں میں مشترک تھی۔ نو سیاستیے ہونے کے سبب تینوں ہی نو دولتیوں کی طرح بدلحاظ اور بدلہجہ تھے۔ سیاست میں گالی کو گلیمرائز کرنے کی ابتدا بھٹو نے کی، نواز نے گالی کو سیاسی نصاب میں داخل کیا، جب کہ عمران نے گالی کو ڈھٹائی، سینہ زوری کے ساتھ سیاسی محاورے، سیاست کے لازمی جزو اور عبادت کے طور پر بام عروج عطا کیا۔ گو کہ ان تینوں میں سے بدزبان ترین عمران سے بڑھ کر کوئی نہیں لیکن اپنے اپنے عہد زریں میں یہ تینوں ہی نو سیاستیے انتہا درجے کے بد زبان اور بد لہجہ تھے۔
جناب بھٹو کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ ایوب دور میں بائیں بازو اور کمیونسٹ تحریک کے بڑھتے ہوئے طوفان کو اپنی کمان میں لے کر تحلیل کرنے کے مشن پر کاربند تھے اور اپنا کام بخوبی انجام دے کر گئے۔ اب المیہ یہ ہے کہ کمیونسٹ تحریک کے غبارے سے ہوا نکالنے اور اسے تتر بتر کرنے کے بعد بھٹو صاحب خود اپنی مقبولیت کے غبارے پر ایسے سوار ہو کر اڑے کہ انہیں گراتے ہی بن پڑی کہ خالق کو گوارا نہ تھا کہ ان کا کارپرداز انہیں ہی آنکھیں دکھائے۔
لیکن قدرت کی حس مزاح پر عش عش کیجیے کہ بھٹو خود ہی ایک ایسی تحریک کا عنوان بن گیا کہ جس سے نبٹنے کے لیے نواز شریف کو مینوفیکچر کرنا پڑا۔ پھر ہوئی وہ دے مار ساڑھے چار کہ نواز کی بیہودگی نے عرش کے کنگورے لرزا دیئے۔ بھٹو کی بیٹی کی کردار کشی نے پنجابیت کو نئے معانی عطا کر دیئے۔
نواز ٹیم نے لچر پن اور غنڈہ گردی کی انتہا کر دی اور یہ سب ہوا فوج کی کھلم کھلا سرپرستی اور حمایت اور ہلا شیری میں ۔ اس حمایت میں جس کا اعتراف حمید گل اور اسلم بیگ نے اپنی پاکبازاور محب وطن زبانِ مبارک سے علی الاعلان کیا۔
چلیے صاحب یہ امتحان بھی سو میں سے تینتیس لے کر گزر ہی گیا لیکن یہ کیا ؟ وقت آگے بڑھا اور نواز بھی ایک عجیب الخلقت چربہ قسم کے بھٹو میں ڈھل گیا۔ تاریخ نے صفحہ پلٹا اور اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ، حمید گل کے ادارے کا فخر و نشان نواز شریف پلٹ کر کٹھ پتلی تماشا چلانے والی اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے سامنے سینہ سپر ہو گیا۔
یہ تاریخ کا ایک انوکھا جبر ہے کہ کعبوں کو پاسباں صنم خانوں سے ہی ملتے ہیں۔ چلو جی چھٹی ہوئی۔ اور پھر انٹری ہوئی ایک عظیم کپتان کی۔ نہ جانے یہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کا نشہ ہوتا ہے کہ منہ سے گالیوں کے فوارے پھوٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کپتان اس کا بین ثبوت ہے۔
تیسرا دور آیا بد زبانی اور گالی گلوچ کا، اور یہ دور بڑا ہی ستم گر تھا کہ کسی کی عزت محفوظ نہ رہی، کسی کی پگڑی سر پر نہ رہی۔ اس بار اسٹیبلشمنٹ نے ایسا منہ زور گھوڑا میدان میں اتارا تھا کہ جو عزتیں تار تار کرنے میں ڈاکٹریٹ تھا۔ یہ پاکستانی سیاست کا تیسرا مین اسٹریم نو سیاستیہ تھا۔ مین اسٹریم اس لیے کہ ادھر ادھر ریجنل سطح پر ایسے لا تعداد اوتار پائے جاتے تھے جن کی اہل زبانی اور لہجہ درازی کی دھوم تھی۔ یہ تیسرا بد زبان نوسیاستیہ عمران خان تھا ۔ اسٹیبلشمنٹ کا تازہ ترین مہرہ۔
تو صاحبو یہ تو ہوا قصہ نو سیاستیے لیڈران گرامی کی۔ اب مختصراً بات ہو جائے کچھ نو سیاستیے فالوورز کی۔
جناب یہ وہ مخلوق ہے جسے سیاست کی الف بے بھی نہیں پتا ۔ پاکستان کی سیاسی جدوجید کی تاریخ اور عمل سے یہ قطعی نابلد ہیں۔ مطالعہ ان کا صفر سے بھی نیچے منفی سو کو چھوتا ہے۔ جو زبان یہ سمجھتے ہیں اس میں کہا جائے تو گھنٹہ انہیں کچھ نہیں پتا۔ ان کے نزدیک پاکستان کی سیاسی جدوجہد اس روز شروع ہوئی جس روز انہوں نے عمران خان کا خطاب سنا۔ جمہوریت سے ان کو نفرت ہے، فوجی راج کے یہ قائل ہیں، اٹھے بیٹھے جمہوریت کو گالیاں بکنا ان کی فطرت ثانیہ ہے اور ویزہ لینے کا موقع آئے تو ان کی اولین ترجیح کوئی جمہوری ملک ہی ہوتا ہے۔ گالیاں یہ منہ بھر بھر کر سوشل میڈیا پر بکتے ہیں ۔ انہوں نے زندگی میں کوئی کتاب نہ پڑھ رکھی ہو لیکن پارلیمںٹ سے بازار حسن تک ضرور پڑھ رکھی ہے ۔ وہی ان کا آسمانی صحیفہ ہے کہ ان کے نزدیک اس میں درج ایک ایک لفظ مبنی بر سچ ہے۔
ان نو سیاستیے فالوورز میں اور حقیقی سیاسی کارکنوں میں ایک بنیادی فرق ہے، بہت واضح فرق۔ جو اصل سیاسی کارکن ہے وہ کل کے نواز شریف کا مخالف اور نقاد تھا جب نواز شریف حمید گل کے ادارے کے مہرے کے طور پر جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کر رہا تھا جب کہ آج وہی حقیقی سیاسی کارکن نواز شریف کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانیوں میں نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے۔ نوسیاستیہ اس وقت نواز شریف کے حمایتی رہا جب نواز فوج کا مہرہ تھا لیکن آج وہ نواز کا دشمن ہے کیونکہ نواز اسٹیبلشمنٹ کے مقابل کھڑا ہے۔ اس وقت نو سیاستیے کو نواز شریف کی نام نہاد کرپشن نظر نہیں آئی تھی لیکن آج اسے نواز کی کرپشن کا غم کھائے جا رہا ہے۔
تو بھائی لوگو یہ وجہ ہے کہ آج میرے جیسا سیاسی کارکن جو کبھی پی پی پی کا کارکن تھا ( کہ اس وقت پیپلز پارٹی جمہوریت کا ہراول دستہ تھی) اور جو کبھی نواز شریف کا شدید نقاد تھا، آج بقول شخصے نواز شریف کا حمایتی ہے۔ کل نواز شریف کا نقاد اس لیے تھا کہ کل کا نواز شریف جمہوریت کا دشمن اور جمہوریت دشمن اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ تھا اور آج نواز شریف کے ساتھ یوں ہے کہ آج کا نواز شریف جمہوریت دشمن اسٹیبلشمنٹ سے نبرد آزما ہے۔
اصلی سیاسی کارکن ہر اس شخص کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے جس کے عمل سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ ہم جیسے تو روز اول سے جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ جب تک نواز کا وزن جمہوریت کے پلڑے میں ہو گا ہم اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے ورنہ کون نواز کہاں کا نواز۔
فی الوقت تو یہی ہے کہ اگر جمہوریت کو بچانا ہے تو نواز شریف کو بچانا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بے حد مکار ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سازش سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کرپشن تو ایک بہانہ ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو سر اٹھانے کی سزا دینا چاہتی ہے ورنہ نواز شریف کے خلاف الزامات تو اس دور کے لگائے جا رہے ہیں جب وہ اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ تھا۔
مافیاز کا یہ مخصوص حربہ ہوتا ہے کہ پہلے اپنے مہروں کو خود ہی جرائم میں پھنساتے ہیں اور پھر انہیں بلیک میل کرتے ہیں اور ڈراتے ہیں کہ دیکھو اگر کبھی بغاوت کا سوچا بھی تو تمہیں بری طرح پھنسوا دیں گے۔
کیا آپ نہیں چاہتے کہ کٹھ پتلیاں نچانے والے بے نقاب ہوں۔ اصل مافیا بے نقاب ہو ۔مہرے کو سزا دلوا کر تو آپ وہی کریں گے جو کٹھ پتلی نچاانے والی مافیا کا منشا ہے۔
ذرا سوچیے۔ لیکن نو سیاستیوں کی طرح مت سوچیے۔ ہاں اگر پہلے ہی سے نوسیاستیے چپڑقناتی ہیں تو اور بات ہے۔ یہ سوچیے کہ مہرے اور کٹھ پتلیاں اگر کرپٹ ہیں تو اس کی ذمے دار بھی کٹھ پتلییاں نچانے والی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ جو اپنے مہرے کو جمہوریت کا ہمدرد اور ہراول دستہ بنتے دیکھ کر اس کے خلاف ثبوت عدالت کے حوالے کر دیتی ہے۔ اگر یہ مہرے جمہوریت دشمنی پر کمر بستہ رہتے تو کبھی سڑکوں پر نہ گھسیٹے جاتے۔
تو بھائی عقل کے ناخن لو۔ کارندے اور مہرے اگر کرپٹ ہیں تو ان کے کرتا دھرتا کیونکر وطن کے سپاہی ہوئے۔ اتنا کھیل تو بچوں کی جاسوسی کہانیوں میں بھی سمجھ آ جاتا ہے کہ جب کوئی کارندہ برگشتہ ہو جاتا ہے تو اسے کس طرح حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کٹھ پتلی کرپٹ ہو اور اسے نچانے والا اللہ کا ولی