مائی بختاور شہید : ہاری تحریک کو جلا بخشنے والی عظیم ماں
(ملک تنویر احمد)
یہ 22جون 1947کا دن تھا جب جھڈو (سندھ) میں ایک بہت بڑے جلسے کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ جلسہ ہاریوں کا ایک عظیم الشان اجتماع تھا جو ان زمینداروں اور جاگیرداروں کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ جو کاشتکار کی پورے سال کی کمائی کو ایک ہی بار میں اٹھا کر لے جاتے تھے۔ سارا سال خون پسینے سے فصلیں سینچنے والے ان ہاریوں کے بچے اناج کے ایک ایک دانے کو ترستے لیکن زمیندار کے گودام اس اناج سے منہ تک بھرے رہتے تھے۔
اس ظلم کے خلاف سندھ کے ہاری غصے اور اشتعال میں تھے۔ اس ہاری تحریک کو آگے بڑھانے میں کامریڈ حیدر بخش جتوئی کا نام سر فہرست تھا۔ کسانوں کے حقوق کو محفوظ بنانے کے لئے جھڈو شہر میں ہاری تحریک نے ایک بڑے عظیم الشان جلسے کا انعقاد کیا تھا جس میں سندھ بھر سے ہاری تحریک کے اہم رہنما شریک ہوئے تھے۔
اس تحریک میں ایک نوجوان لعل محمد لاشاری بھی بہت فعال اور متحرک تھا جس نے اپنے گاؤں میں کسانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے انہیں بتایا کہ اگر کسان یک جان و یک قالب ہو کر اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہو جائیں تو کوئی زمیندار اور جاگیردار ان کی محنت کو یوں ہڑپ کرنے کی جرات بھی نہ کر سکے گا۔
کسانوں نے لعل محمد لاشاری کی باتوں سے اپنے اندر ایک نئے ولولے اور جذبے کو محسوس کے اور اس کی سربراہی میں متحد بھی ہو گئے۔ کسانوں کے اس اتحاد کو دیکھ کر علاقے کے زمیندار اور جاگیردار ہ فکر مند ہوئے اور کسانوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لئے ان کے خلاف دھونس دھمکیوں اور جھوٹے مقدمات کا سلسلہ شروع کر دیا لیکن کسان لعل محمد لاشاری کی قیادت میں متحد رہے۔
ملاحظہ کیجیے: مزاحمتی ادب اور اس کی تشریحات
مزید مطالعہ: بھگت سنگھ اور امن کے پجاری
جب جھڈو میں کسانوں کے عظیم الشان اجتماع کا انعقاد کیا گیا تو لعل محمد لاشاری بھی اس کی کامیابی کے لئے دن رات کام میں جت گیا۔ سندھ بھر کے دوسرے علاقوں سے کسانوں کے وفود کی شرکت سمیت لعل محمد لاشاری بھی اپنے علاقے سے کسانوں کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے اس جلسے میں شریک ہونے کے لئے پہنچا۔ لعل محمد لاشاری جلسے میں شریک ہونے کے لئے اپنے گاؤں سے روانہ ہوا تو علاقے کے زمینداروں اور جاگیرداروں نے اس موقع کو غنیمت جان کر کسانوں کے جمع کردہ اناج کو لوٹنے کا پروگرام بنا یا۔
ذوالفقار ہالیپوٹہ اپنی کتاب ’’پاکستان میں کسان تحریکوں کا تاریخی پس منظر‘‘میں رقم طراز ہیں:
’’انہوں (زمینداروں) نے اپنے کمداروں اور منشی لوگوں کو اسلحے سے لیس کر کے گاؤں میں پہنچے۔ انہوں نے دیکھا کہ اناج کی رکھوالی کے لئے کچھ عورتیں، بچے اور ضعیف مرد بیٹھے ہیں۔‘‘
کامریڈ غلام محمد لغاری اپنی تصنیف ’’میری آپ بیتی اور جیل کی ڈائری‘‘ میں بھی اس وقت کے حالات کو رقم کرتے ہیں جب جھڈو میں ہاری کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا تھا۔ وہ رقم طراز ہیں:
’’جب گاؤں کے مرد اس جلسے میں شامل ہونے کے لئے روانہ ہوئے تو کھلیانوں کی حفاظت کے لئے پیچھے بوڑھے، بچے اور اورعورتیں حفاظت کے لئے رہ گئی تھیں۔‘‘
زمیندار کے کارندوں نے گاؤں کے مردوں کے روانہ ہوتے ہی اناج کے ڈھیر پر ہلہ بول دیا۔ انہوں نے جیسے ہی اناج اٹھانا شروع کیا لعل محمدلا شاری کی ماں مائی بختاور آگے بڑھی اور زمیندار کے کارندوں سے کہا کہ جب تک میرا بیٹا واپس نہیں آجاتا ہم تمھیں اناج نہیں اٹھانے دیں گے۔
زمیندار کے منیجر نے مائی بختاور کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا اور کارندوں کو کہا کہ اناج کو فوراً اٹھانا شروع کرو۔ کارندے جیسے ہی اناج کے ڈھیر کی طرف بڑھے مائی بختاور نے ایک اناج اٹھانے والے کو اس زور سے دھکا دیا کہ وہ دور جا گرا۔
مائی بختاور کے اس فعل نے زمیندار کارندوں کو آگ بگولا کر دیا اور انہوں نے اپنی بندوقیں تان کر فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کی زد میں لعل محمد لاشاری کے باپ کے ساتھ ساتھ اس کی ماں مائی بختاور بھی آگئی۔ پورے گاؤں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ مائی بختاور زخموں سے چور ہو کر بے ہوش ہو گئیں لیکن جب بھی ہوش میں آتی تو اس کی زبان سے یہی الفاظ نکلتے کہ بیٹا دیکھنا یہ لوگ اناج لے کر نہ جائیں۔
زخموں سے چور مائی بختاور جانبر نہ ہو سکیں اور آخر کار خالق حقیقی سے جا ملیں لیکن سندھ کی ہاری تحریک میں امر ہو گئیں۔ انہوں نے ظلم کے خلاف ڈٹ کر یہ پیغام دے دیا کہ اپنے حقوق کے لئے جان جیسی قیمتی چیز بھی قربان کی جا سکتی ہے اور اپنے فعل سے مائی بختاور شہید نے یہ ثابت کر دکھایا۔
کامریڈ غلام محمد لغاری لکھتے ہیں کہ جھڈو کانفرنس سے فارغ ہو کر تو ٹاہلی ریلوے اسٹیشن پر یہ خبر ہاریوں نے ہمیں سنائی ۔یہ خبر سن کر ہم فوراًکنری پولیس اسٹیشن پر پہنچے اور اس واردات کی رپورٹ درج کرائی ۔علی الصبح جب ہم جائے وقوعہ پر پہنچے تو کامریڈ حیدر بخش جتوئی بھی موقع پر پہنچے گئے ۔مائی بختاور شہید نے سندھ میں ہاری تحریک کے کاز کو اپنی جان قربان کر کے اس طرح ضو فشانی بخشی کہ اس نے ظالم زمینداروں کے خلاف ہاری تحریک کی جدو جہد کو مزید توانائی اور تقویت بخشی۔
ہاری تحریک میں کئی افراد نے قربانیوں کی داستان رقم کی لیکن مائی بختاور شہید نے اپنی جان قربان کر کے جو نظیر قائم کی اس کی ہمسری کوئی نہ کر سکا۔ لعل محمد لاشاری جیسے سپوت مائی بختاور شہید جیسی مائیں ہی جنا کرتی ہیں جس کے لاشے کو دیکھ کر لعل محمد لاشاری غم زدہ تو ہوا ہو گا لیکن اپنی ماں کے چہرے پر پھیلی ہوئی ابدی سکون اور مسکراہٹ کی لہر نے اسے مزید قوت فراہم کی ہو گی کہ جس نے اپنے بیٹے کے واپس آنے سے پہلے اناج ہتھیانے کے خلاف مزاحمت کی ایسی تاریخ رقم کر ڈالی جس پر سندھ کی دھرتی آج بھی فخر سے جھومتی ہے۔