قومی اتحاد اور پشتونوں کی عید
(کاشف شاہ)
مملکت خداداد میں بھی عجیب صورتحال ہے، دہشت گردی کی کارروائیوں سے جنم لینے والے انسانی المیوں کو چھوڑ کر زور گفتگو نان ایشوز پر ہے۔
جمعہ کے دن جب ستائیسویں رمضان کا دن بھی تھا، اور جمعۃ الوداع بھی تھا، اس دن جہادی دہشت گردو ان کی ہاتھوں کوئٹہ لہو لہان ہوگیا۔ پاڑہ چنار میں بیسیوں معصوم لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، کتنے باپ ہوں گے، جو اپنے بچوں کے لیے عید کی خریداری کو نکلے ہونگے۔
کتنے ایسے ہونگے جو اپنے بچوں کو بھی سائیکل، موٹر سائیکل پہ بٹھا کے ساتھ لائے ہونگے۔ کتنے ہونگے جو اپنی بیویوں اور بہنوں کے لئے چوڑیوں اور مہندی جیسی چھوٹی چھوٹی خوشیاں خریدنے نکلے ہوں گے. سب ختم ہوگیا۔ ستر کے قریب لوگ جاں بحق ہوئے اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے۔
لیکن اگر قومی اتحاد کو کوئی خطرہ ہے تو وہ پشتونوں کی عید سے ہے۔ وہ خطرہ مفتی پوپلزئی سے ہے۔ کون لوگ ہیں یار یہ، جو social aestheticism سے نابلد ہیں۔ جو ثقافتی رنگوں اور ذائقوں سے عاری ہیں۔ جو قومی اتحاد کے بقراط بنے بیٹھے ہیں۔بھئی قومی اتحاد کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ سماجی بے انصافی ہے۔ وہ پشتون خطے میں دو عشروں سے جاری قیامت ہے۔
معصوم جانوں کا ضیاع اور حکومتی اداروں کی نا اہلی قومی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پشتونوں کی عید سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خدا کا خوف کریں. اس سٹیٹ کا شہری اپنے بل بوتے پر جی رہا ہے۔ یہاں کے مریض پرائیویٹ کلینکس میں علاج کراتے ہیں۔ اور جو بے چارے سرکاری ہسپتالوں کے لئے مجبور ہوتے ہیں ان کو میسر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہاں کے بچے ریاست کے یتیم اور پہلے سے اپنے سروں پر قرض کا بوجھ لئے پیدا ہوتے ہیں۔ ریاستی سطح پر سوشل ویلفیئر کا تصور مفقود ہے۔ اور چھوڑیں یہاں کے شہری کو اپنی موت مرنے کی بھی اجازت نہیں۔ بھئی اتنے بڑے سیکیورٹی انفراسٹرکچر کے ہوتے ہوئے اگر کوئی ریاست اپنے شہریوں سے یہ توقع رکھے کہ وہ اپنے شہروں میں پہرہ داری کے فرائض نبھائیں گے وہاں قومی اتحاد کی بانسری پہ کونسی رادھا ناچنے کو تیار ہوگی؟
ہاں وہ رادھیاں اور رادھے جو ایئر کنڈیشنڈ روم میں بیٹھ کر کیبورڈ جہاد کرتے ہیں وہ ضرور ٹھمکے لگاتے ہونگے۔ باقی لوگوں کو تو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
یہ بھی ملاحظہ کیجیے: پاکستان میں رویت ہلال کا مسئلہ
اس ریاست کے شہری کا بنیادی مسئلہ سروائیول ہے۔ قومی اتحاد یہاں ایک ذہنی عیاشی ہے۔ جب سٹیٹ اپنے شہریوں کو گلے لگائے گی۔ جب ان کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ تب کہیں جا کے قومی اتحاد کی بات ہو سکتی ہے۔
پاکستانی ریاست ہمیشہ عبداللہ دیوانے کی طرح پرائی شادیوں میں ناچتی رہی ہے اور شادی کے اختتام پر بچا کچا کھا کر گزارا کرتی آئی ہے۔ یہ بات واضح کرنے کی بالکل ضرورت نہیں کہ وہ بچا کچا کیا ہوتا ہے۔ ایسی شادیوں میں انسانی گوشت کھایا جاتا ہے اور انسانی خون پیا جاتا ہے۔ بارود کھنڈرات اور ذہنی فالج بچ جاتا ہے جو آگے جا کر عبداللہ دیوانے کی کئی نسلوں کو نگل جاتا ہے۔
کیا ہماری ریاست کے حصے میں یہ سب نہیں آیا؟ تو بھئی شور نہ مچائیں۔ وقت کی آواز پر کان دھریں۔ وہ صدا جو گردش ایام کی زبان پر ہے ۔ سوالوں کو دبانے سے سوال ختم نہیں ہوتے، مزید بے چینی اور مایوسی جنم لیتی ہے۔