گلگت بلتستان میں اردو شاعری اور ایک شعری مجموعہ”ضبطِ سخن” کا جائزہ

گلگت بلتستان میں اردو شاعری
علامتی تصویر

گلگت بلتستان میں اردو شاعری اور ایک شعری مجموعہ”ضبطِ سخن” کا جائزہ

(ڈاکٹر ثمر حیات)

پاکستان کے شمال میں واقع کوہ قراقرم،ہندوکش اورہمالیہ دیگر پہاڑی سلسلوں کے دلکش قدرتی حصار میں موجود خوب صورت اوردلکش وادیوں پرمشتمل علاقہ گلگت بلتستان کہلاتاہےجسے پہلے شمالی علاقہ جات کے نام سے جاناجاتاتھا ۔ گلگت بلتستان بنیادی طور پر دو بڑے  حصوں پر مشتمل ہے۔ایک حصہ” بلتستان “کہلاتا ہے جبکہ دوسرا” گلگت” کے نام سے جانا جاتا ہے۔

پاکستان کے انتہائی شمال میں سلسلہ کوہ قراقرم و ہمالیہ کے درمیان دس ہزار ایک سو اٹھارہ مربع میل پر پھیلا ہوا پہاڑی علاقہ بلتستان کہلاتا ہے جو سکردو،شیگر،خپلو،کھرمنگ،روندو اور گلتری کی وادیوں پر مشتمل ہے۔بلتستان کے جنوب میں وادی کشمیر،مشرق میں لداخ و پوریگ،مغرب میں گلگت و دیامر کی وادیاں واقع ہیں جبکہ شمال میں کوہ قراقرم کے برف پوش سلسلے بلتستان کو چینی صوبے سنکیانگ سے جدا کرتے ہیں۔(۱)

سلسلہ قراقرم میں کم وبیش تین سواونچی چوٹیاں  شامل ہیں جن میں سے ۱۰۰سے زائد چوٹیاں بیس ہزارسے اٹھائیس ہزارفٹ کے لگ بھگ بلند ہیں۔ دنیاکی دوسری بلندترین چوٹی K.2بھی بلتستان   کی بےنظیر وادی شیگر  میں واقع ہے۔ K.2سکردو سے ۱۲۵میل زمینی اور۶۵میل ہوائی فاصلے پرہے۔بلتستان کا  ایک قدیمی نام”تبت” بھی ہے۔اسے “تبت  خورد” بھی کہا جاتا رہا ہے۔

“گلگت” جن سات خوبصورت وادیوں پر مشتمل  ہےان کے نام یہ ہیں: استور ،دیامر،غذر ،ہنزہ،نگر ،بونجی ،اور چلاس ۔ گلگت کا قدیمی نام سارگن تھا ۔”سار”کے معنی جھیل اور”گن” سے مراد راستہ ہے.

گلگت کو ازمنہ قدیم میں گری گرت بھی کہا جاتا رہا ہے گری کا مطلب ہے ہرن جبکہ گرت کا مطلب ہے ناچنا ۔یعنی ہرن ناچنے کی جگہ اس سے مراد  یہ ہے کہ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ یہاں ہرنوں کی بہتات تھی اور وہ  آزادانہ  طور  پر  یہاں گھوما پھرا کرتے تھے۔ (۲)

۱۸۴۰ء تا ۱۹۴۸ء  تک کوگلگت بلتستان  میں اردو شاعری کا اولین دور قرار دیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں مغلیہ دور حکومت کےزوال کے ساتھ ساتھ جب برصغیرمیں فارسی کو بھی زوال  آیا اور عوامی و سرکاری سطح پر اردو کو اہمیت ملنی شروع ہوئی تو لسانی اعتبار سے اس کا اثر شمالی علاقہ جات (موجودہ گلگت بلتستان) پر بھی پڑا ۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے  شمالی علاقہ جات میں اردو سرے سے ناپید تو نہیں تھی مگر عمومی رابطے کا بڑا ذریعہ بھی نہیں بنی تھی۔ جوں جوں وقت گزرتاگیااردو کو ذریعہ اظہار  اور وسیلہ سخن بنانے کا سلسلہ بھی آگے بڑھتا گیا ۔ مقامی اہل سخن مقامی و علاقائی زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب  کی پرورش میں  بھی اپنا ممکنہ حصہ ڈالتےاور کردار ادا کرتے رہے ۔مقامی اہل سخن بنیادی طور پراپنی مادری و علاقائی زبان میں سوچتے تھے۔ سوچ کو الفاظ کا جامہ پہنانے  کا مرحلہ آتا تو مقامی زبان کے ساتھ ساتھ اردو بھی ایک متبادل اور پرکشش ذریعہ اظہار کے طور پر ان کے سامنے آموجود ہوتی۔اس کا نتیجہ اس وقت کی شاعری میں مختلف اسالیب میں دیکھا جا سکتا ہے۔کسی نے  مقامی زبان اور اردو کی آمیزش سے شعر تخلیق کیا اور کسی نے مقامی زبان کے ساتھ اردو ، عربی اور فارسی  کی آمیزش سے اپنے کلام کے لیے سامان اظہار فراہم کیا۔

اکیسویں صدی کے  گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والےاردو تخلیق کاروں کو دوگروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔پہلاگروہ ان شعراءکرام کاجنہوں نے اپنی اردوشاعری کاباقاعدہ آغاز تو۱۹۸۰ءکےآس پاس میں کیااور اب تک برابر شاعری کررہےہیں اس گروہ میں درج  ذیل نام اہم ہیں:۔

عبدالخالق تاج،شیخ غلام حسین سحر،جمشید خان دکھی، علی احمدقمر،شاکر شمیم،ذاکرشمیم،خوشی محمد طارق، پروفیسرحشمت کمال الہامی، عنایت اللہ شمالی، ڈاکٹر غازی نعیم ،علامہ محمد علی توحیدی،احسان علی دانش،غلام مہدی شاہد،سیدامجدزیدی، ڈاکٹرمظفرانجم، مشتاق احمدراہی،احسان شاہ،حبیب الرحمٰن مشتاق،ہدایت اللہ اختر،عبدالحفیظ شاکر، ظفروقارتاج،محمدافضل روش،اسلم سحر، محمداقبال عاصی،عبدالکریم کریمی،غلام رسول تمنا،بشارت حسین ساقی،سیداشرف کاظمی،فرمان علی خیال،اسماعیل ناشاد،عمر نظیم دیا، بہرام خان شاد،کریم مطرب،صاحبزادہ نعیم چستی،ذیشان مہدی،عاشق فراز، وغیرہ۔

دوسراگروہ ان نوجوان شاعروں کاہے جنہوں نے اپنے تخلیقی سفرکاآغاز ۲۰۰۰ء کے آس پاس میں کیااور اپنے قومی، معاشرتی اور سماجی و سیاسی مسائل و مشاہدات و احساسات کے اظہار و بیان کے لیے اردو زبان کو ذریعہ اظہار و تخلیق قرار دیا۔ اس گروہ میں شامل بہت سے نام ایسے ہیں جو بغرض تعلیم وروزگار اندرون ملک مختلف صوبوں میں مقیم ہیں۔ کچھ ایسے بھی نام ہیں جو تلاش معاش یاحصول تعلیم  کے لیےبیرون ممالک میں مقیم ہیں۔ ان شعراء کے ہاں نہ صرف گلگت بلتستان کے سیاسی ، سماجی، مذہبی، تعلیمی اور تہذیبی مسائل کاادراک نظرآتاہے بلکہ ملکی حالات وحوادث سے باخبر رہنے اور ان مسائل کے حل کرنے کاعزم وارادہ بھی نظرآتاہے۔

نوجوان شعراء کے اس گروہ میں درجہ ذیل نام قابل ذکرہے۔اشتیاق احمد یاد، شاہ جہاں مضطر ،فاروق احمد قیصر، آصف علی آصف،توصیف حسن توصیف، امجد علی ساغر، تہذیب حسین برچہ، حیدر علی، نوید حسن نگری، مرزاگھائل نگری، تہذیب حسین، جعفر عاجز، مظفر ہراموشی، نذیر حسین نذیر، فیض اللہ فراق،ظہیر عباس، رضا بیگ گھائل، عاشق حسین عاشق، عارف سحاب،حر حسنین، سفیر عباس، ہاشم حسین ہاشم، قیصر علی شاہد، قمر کاظمی، محمد عباس جرات، میر افتخار، اشرف حسین اشرف، ڈاکٹر جواد حیدر، محمد حسن دانش،الطاف سروش، نصیر ترابی، اشرف حسین اخونزادہ، شمس جعفری ،سید سجاد اطہر ،روزی صمیم ،محسن رضا ،اصغر علی مرزا ،ناصر انصاری وغیرہ

ڈاکٹر جابر حسین کا تعلق  بھی زمانی اعتبار سے اسی گروہ سے ہے۔ موصوف آبائی اعتبار سے ہندوستان کے علاقے “پُورِیگ” سے تعلق رکھتے ہیں۔ وادی استور کے ایک چھوٹے دور افتادہ گاؤں “کھنئی” میں۲۵ اپریل ۱۹۸۳ءمیں پیدا ہوئے۔ ۱۹۸۸ء میں ان کے والد صاحب زوار علی شکور  بلتستان کی خوبصورت وادی شیگر منتقل ہو گئے۔ ڈاکٹر موصوف نے وادی شیگر کے  ہائی سکول الچوڑی سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔

میٹرک کے بعداعلی ثانوی سطح  کی تعلیم کے ساتھ ساتھ سکردو کے ایک عظیم  اور جدید مدرسے”جامعہ نجف” سے چھے سال نمایاں کامیابی کے ساتھ عربی و فارسی اور مذہبی تعلیم حاصل کی۔ قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی گلگت سے  گریجویشن کرنے کے بعد ایم۔اے اردو  کے لیے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد میں داخلہ لیا۔۲۰۰۷ء میں ایم۔اے کی نمایاں کامیابی کے ساتھ تکمیل کے بعد اپنی پی ایچ۔ڈی (اردو) کا تحقیقی مقالہ بعنوان “پاکستانی اردو غزل کی تنقید کا ارتقا” اسی جامعہ سے ۲۰۱۳ء میں مکمل کر لیا۔

اِس وقت اسلام آباد کے ایک اہم سرکاری کالج میں مصروفِ تدریس  ہیں۔ تخلیق شعر کے ساتھ ساتھ ادبی  موضوعات پر تحقیقی مقالات لکھتے رہتے ہیں جو کہ ملک کے مختلف ادبی رسائل و جرائد میں  پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں۔  تصانیف میں ایک  غیر مطبوعہ شعری مجموعہ”ضبطِ سخن” اور تحقیقی مقالات پر مشتمل  ایک غیر مطبوعہ کتاب ” اس کتاب میں” کے علاوہ ” تابش دہلوی کی غزل گوئی”  اور ” اردو غزل کی تنقید”شامل ہیں۔

موصوف ذاتی طور پر نہایت شریف، دیانتدار، مخلص  اور تخلیقی اعتبار سے بہت باصلاحیت انسان  ہیں۔ ان کا غیر مطبوعہ شعری مجموعہ “ضبطِ سخن “پہلی بارراقم الحروف کے ہاتھ لگا تو  ایک غیر محسوس سی کشش سے تب تک نکل نہیں سکا جب تک پورا مجموعہ نہ پڑھ ڈالا۔

مزید دیکھیے: روایت کی تشکیل جدید

شاعری میں عشرہ کی حقیقت

ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب غزلوں، نظموںاور رباعیات پر مشتمل ہے۔اس میں شامل غزلیں ہیئت کے اعتبار سے اردو کی کلاسیکی غزلیہ روایت سے جڑی نظرآتی ہیں ۔کچھ نظمیں پابند جبکہ بیشتر نظمیں آزاد  نظم کی ہیئت میں لکھی گئی ہیں۔ موضوعاتی اعتبار سے متعدد چھوٹے بڑے سماجی،مذہبی،سیاسی اور اخلاقی  و تہذیبی مسائل پر  شعر   پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کتاب کو پڑھتے ہوئےمیں نےایک بات  نمایاں طور پر یہ بھی محسوس کی کہ موصوف نے  اپنے مشاہدات و محسوسات کوسنجیدگی سے شعری قالب میں ڈھالاہے ۔

’’ضبطِ سخن” کو اول و آخر پڑھ کر یوں محسوس ہوا کہ  دروں بینی اور خود انحصاری کامیلان  ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ موصوف کے نزدیک خارج سے باطن کی طرف سفر کو بہت اہمیت حاصل ہے۔

کب تک چراغِ غیر تری شب کا ساتھ دے؟

اب  اپنے  دِیپ  پر   بھی   بھروسا    کیا   کریں

۔۔۔

حسن  ِ خط  و  خال  پہ تھا   اتفاقِ  رائے

سیرتوں   کی   بات   چلی   تو   گلِے   ہوئے

۔۔۔

جہاں میں صورت ِخورشید زندگی کے لیے

اب  اپنے آپ  پہ  بھی  کچھ  تو  اعتبار کریں

۔۔۔

قہقہوں   کی   گونج   میں   پیتے   ہیں   چائے

دل  میں  خوشیوں  کا  مگر  بحران  ہے

مذہبی موضوعات پر بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ان اشعار میں مذہبی تنگ نظری اور دنیاوی مفادات  سے دلبستگی  کے بجائے ان سے ایک طرح کی بے نیازی اور بے باکی نظر آتی ہے۔بطور مثال کچھ شعر ملاحظہ کیجیے:

 

اسیر ِدام  و دانے  سے  صلے  کی  کیا  توقع  ہے؟

جزائے خیر  پانا ہے تو دل سُوئے حرم کر لے

….

بجھا  بجھا  سا   شرر   دل  میں عشق ِ مولا  کا

بنے گا آتش ِبے باک میرے سینے میں

ان کی درج ذیل آزاد نظمیں بھی اس ضمن میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں:مدعا ہے میرا اور وہ مرا مداوا ہے،اسی لمحے مجھے آ کر بتانا،مرا وہ کیا نہیں لگتا،مرے محبوب لب پر بس ترا ہی نام آتا ہے وغیرہ۔

تیزی سے ترقی کرتے ہوئے زمانے میں مادی ترقی تو نظر آتی ہے مگر اخلاقی اقدار اور  سماجی نیک چلنی جیسے امور ناپید ہوتے جارہے ہیں۔اپنے ہی کام اور مطلب میں گم رہنے کا  رجحان انسان اور سماج میں احساس تنہائی کو جنم دیتا ہے۔ اس صورت حال کی عکاسی ڈاکٹر صاحب کے یہ اشعار بڑے انوکھے انداز میں کرتے ہیں:

ملے  تھے  ، پر  نہ  ہوا  ان  سے  کوئی  سلام  و  کلام

مرید   وہ   نہ    تھے    میرے   ، میں  ان   کا   پِیر    نہ   تھا

۔۔۔

حد درجہ گر گیا ہے اب انساں کا اعتبار

اپنے  ہی  گھر  میں  بھی  کوئی  اپنا  نہیں  رہا

۔۔۔

آتے ہیں اور  مِل  کے  چلے  جاتے  ہیں  سارے

تُو  آ  کبھی  ، پر  آ  کے  نہ  جانے   کے   لیے   آ

اپنی تخلیقات میں وہ زندگی  اور معاشرےکے بہت سارے ایسے موضوعات پرتخلیقی انداز میں طنز بھی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس کی بظاہر ان سے توقع نہیں رکھی جا سکتی۔

تحصیل و اکتساب  کا  معیار    واہ    واہ

دستار و تن وتوند کو میزاں سمجھ لیا

۔۔۔

وا حسرتا    کہ  تیغ  بکف  ہے  وہ  سامنے

جو مہرباں تھا مجھ  پہ،مِرامعتبر  بھی تھا

۔۔۔

مذہب کے نام  اور سیاست  کے  نام  پر

کتنوں   نے  ملک  و  دین  کا  نیلام  کر  دیا

ڈاکٹر صاحب کی نظر قومی سیاسی امور و مسائل کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر بھی رہتی ہے۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت، پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے حوالے سے گلگت بلتستان کا کلیدی کردار اور  انتخابات، گلگت بلتستان کے قدرتی و معدنی وسائل جیسے اہم امور و موضوعات پر بھی انھوں نے بڑی خوبصورت نظمیں تخلیق کی ہیں۔ اس ضمن میں  ان کی  نظمیں”چھیاسٹھ سال بیتے ،پر ابھی تک اجنبی ہوں میں” ، “گلگت بلتستان نہیں پر حصہ پاکستان کا” اور ” سماجی جبر اور انتخابات” نمایاں طور پر قابل توجہ ہیں۔ آخر میں  ان کی ایک بہت خوبصورت آزاد نظم قارئین کی نذر کردوں گا جو انھوں نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے عوام الناس کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھی ہے۔ اس کا عنوان ہے”چھیاسٹھ سال بیتے ،پر ابھی تک اجنبی ہوں میں” ۔

سرِ افلاک سے محوِ تکلم حضرتِ کے۔ٹو مرا ہمدم،

جو ہمدوشِ قمر دیوسائی کا  سر سبز میداں ہے،

وہ میرا ہی تملک ہے

فلک بوسی کیا کرتی ہے دستارِ فضیلت جن کی،

مرے کہسار ہی ہیں وہ تو

ہزاروں ٹن ذخیرہ آبِ یخ بستہ لیے آغوش میں کہسار ہیں میرے

گلیشیر ایسے ایسے ہیں کہ جن کو دیکھ کر عقلِ بشر حیران رہ جائے

مِرا تو  کُل وجود  اک شاہکارِ دستِ قدرت ہے

پڑوسی میرے دو ایسے  ہیں جن سے رشتہ پاکستان کا بے حد نمایاں ہے

بھارت اک طرف اور چین میری دوسری جانب

یہ باتیں اک طرف اور دوسری جانب مِرا یہ حال،

تشخص میرا مبہم کر دیا جاتا رہا ہے،

چھیاسٹھ سال بیتے پر ابھی تک اجنبی ہوں میں۔(۳)

موصوف بظاہردیکھنے میں خاموش طبع اور کم گو نظر ہیں لیکن ان کی شعری تخلیقات پڑھنے کے بعد ایک طرح کی حیرت ہوتی ہے۔ اس حیرت کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ موصوف جتنے کم گوہیں ان کی شاعری اُتنی ہی  پُرکشش، معنی خیز ،سنجیدہ لب ولہجے اور انداز وآہنگ رکھتی ہے۔ دوسری وجہ یہ  کہ گلگت بلتستان جیسے دور افتادہ علاقے میں بھی پاکستان کے دیگر صوبوں کی مانند اردو شعرو ادب سے دلچسپی رکھنے والےایسے جوان  اورسنجیدہ تخلیق کار پیدا ہو رہے ہیں جن کا زورِ قلم اور عزمِ جواں اردو  زبان و ادب کی  تخلیق وترویج کے حوالے سے اپنے علاقےکی نئی نسل کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ فراہم کرتا ہے۔


حوالہ جات

۱۔    پاکستان کا ثقافتی انسائیکلو پیڈیا، جلد اول : شمالی علاقہ جات،لوک ورثہ اسلام آباد،س ن،ص ۲۱۱

۲۔    بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،سودے بکس لنک روڈ سکردو بلتستان،۲۰۱۴ ء، ص۲۲۰

۳۔    جابر حسین،ڈاکٹر،ضبطِ سخن (غیر مطبوعہ)