بھٹو تو ضیاء کا ہی ایک جنم تھا !
(محمد شہزاد)
پانچ جولائی آیا نہیں اور وہی بکواس پھر سے شروع ہو گئی۔ کیا کالم نویسی کے خدا کیااس کام کے کیڑے مکوڑے۔ سب کے سب پانچ جولائی والے دن برابر ہو جاتے ہیں۔ گدھا اور گھوڑا ایک اصطبل پر بندھ جاتا ہے۔ سب لٹھ لے کر دوڑ پڑتے ہیں ضیاء الحق پر تبرا کرنے کے لئے۔ کوئی نئی چیز آتی ہے پڑھنے میں؟ سب کا سب ایسا ہی پڑھنے کو ملتا ہے جیسے چودہ اگست کو۔
ایک شاعر سو رہا تھا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ اسلام خطرے میں ہے۔ ایک دبلا پتلا کمزور سا ماہر تعمیر اور نقشہ نویس اس کا دوست تھا انگلستان میں ۔ شاعر نے اسے ای میل بھیجی کہ یار فور۱ً آجا۔ وہ فوراً آ گیا۔ اس نے اسلام کو تا حیات بچانے کے لئے ایک قلعہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ انگریز زمین نہیں دے رہا تھا۔ فوراً ملک ریاض سے رابطہ کیاگیا۔ ملک ریاض نے تاجی کھوکھر کو واٹس ایپ کیا۔ تاجی بندے لیکر لارڈ ماونٹ بیٹن کے پاس پہنچا۔ زمین خالی کرائی اور راتوں رات اسلام کا قلعہ پاکستان وجود میں آ گیا! کچھ مختلف ہو تا ہے کیا؟ کیا یہ ہی انٹ شنٹ نہیں چھپتا ہر جگہ ؟
جیسے حج میں ایک مقررہ دن شیطان کوکنکریاں ماری جاتی ہیں اسی طرح پانچ جولائی کو ضیا پردل کھول کر لعن طعن کی جاتی ہے۔ اس نیک کام میں وہ بھی پیش پیش ہوتے ہیں جو کبھی ضیاء کے تلوے چاٹا کر تے تھے۔ انتیس سال ہو چلے مگرلکھاریوں کی سوئی ضیا پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ ضیاء بلاشبہ کسی بھی زاویے سے قابل تعریف نہیں لیکن پانچ جولائی کو اسے شیطان اور بھٹو کو فرشتہ بنانا تاریخ کو مسخ کرنا نئی نسل کو گمراہ کرنا ہے۔
ہر نام نہاد دانشور یہ تاریخی جھوٹ لکھ کر ہی ہمارے علم میں اضافہ کرنے پر تلا ہوا ہے کہ پاکستان کوشدت پسند اسلام کے گڑھے میں دھکا دینے والا ضیاالحق ہی تھا۔ کیسا تاریخی جھوٹ ہے! اس ملک میں فرقہ واریت، اقلیتوں سے نفرت ، مولویوں کی خوشنودی ، علم سے جہالت کی طرف دھکا دینے والے منصوبوں کی داغ بیل بھٹو نے ہی ڈالی تھی۔ احمدیوں کودوسری آئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دینا بھٹو صاحب کا ہی کارنامہ تھا۔
قراردادِ مقاصد ضیا الحق نے نہیں گھڑی تھی۔ قرارداد مقاصد کے بعد اگر نفرت کو عام کرنے کا کوئی مہلک ترین ہتھیارہو سکتا ہے تو وہ یہی ترمیم ہے۔ فرض کریں (ایسا تو فرض کرنا بھی نا ممکن ہے!) آج اگر پاکستان کو چلانے والے یہ تہیہ کر لیں کہ ملک کو جدید ترقی یافتہ اور پرامن بنانا ہے تو دو قومی نظریے اور قرارداد مقاصد کو فراموش کرنا ہو گا نہ کہ آئین کو پانچ جولائی 1977والی صورت میں بحال کرنا۔
ہمارے خیال میں تو ضیاء کا پہلا جنم لیاقت علی خاں اور چوہدری خلیق الزماں ٹائپ لوگوں کے روپ میں ہواجس کے بطن سے قراردادِ مقاصدنے جنم لیا۔ ضیاء کا دوسرا جنم بھٹو کے روپ میں ہوا جس نے قراردادِ پاکستان کو پال پوس کر اس کی شادی کی اور پھر جنم لیاطالبان برانڈاسلام نے۔ پہلے تو ملک کو مشرف بہ اسلام کروایا۔ ری پبلک سی اسلامک ری پبلک کروایا اور پھرنو مسلم ریاست کو آزاد چھوڑ دیا کہ لوگوں کے مذہب متعین کرتی پھرے۔ جب یہ برانڈ لڑکپن میں داخل ہوا تو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔
تھوڑا اور بڑا ہوا تو اتوار کی ہفتہ وارچھٹی کو جمعتہ المبارک سے تبدیل کر دیا گیا۔ ریس اور شراب پر پابندی لگا دی اپنے بھٹو صاحب نے۔ پھر ہوا ضیاء کا جنم ضیاء کے روپ میں یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بھٹو کاجنم ہو ا ضیاء کے روپ میں ۔ ایسا بھی چلے گا اگر کہا جائے کہ لیاقت علی خان کا جنم ہوا بھٹو اور ضیاء کے روپ میں۔
کچھ بھی کہہ لیں مگر سارے فساد کی جڑ صرف ضیاء ہرگز نہیں۔ وہ تو صرف ایک چیلہ تھا جس نے برانڈ کو مزید مارکیٹ کیا۔ اسی برانڈ کو ابھی تک مارکیٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کی مشہوری میں بے نظیر، نواز شریف اور زرداری نے بقدر جشہ حصہ ڈالا۔
ضیاء نے تو عمر قید یا موت کی سزا رکھی تھی توہین رسالت کے قانون نے۔ شریفوں نے اقتدار میں آ کرعمر قید ختم کردی۔ اب گستاخ رسول کی صرف ایک ہی سزا ۔۔سر تن سے جدا! جو ضیاء نہیں کر سکا وہ شریفوں نے کر دکھایا۔ بالکل اس طرح جس طرح ضیاء پی پی پی کو ختم نہیں کر سکا مگر زرداری نے کر دکھایا۔ تو اب کیا کہا جائے؟ کون زندہ ہے کس کے روپ میں؟
لکھنے والا انتہائی جاہل ہے یا پھر کم عقل